17

ٹرین کا سفر (دوسرا اور آخری حصہ)

[ad_1]

اگلے دن ان بزرگ کے باریش صاحبزادے جنھوں نے مجھ سے کہا تھا کہ ’’ میری کمر کی تکلیف ان کا مسئلہ نہیں ہے‘‘ اور ان کا لہجہ خاصا درشت تھا، کمپارٹمنٹ میں آئے اور ٹرے میں رکھے ہوئے سلائس جو پلاسٹک کور میں محفوظ تھے اٹھا کر کہنے لگے کہ ’’ وہ یہ لے جا رہے ہیں کیونکہ ان کا روزہ ہے اور ٹرین میں کچھ کھانے پینے کا انتظام نہیں۔‘‘ میں نے بخوشی انھیں بریڈ تھما دی، کچھ دیر بعد روزہ کھول کر وہ دوبارہ آئے اور کچھ قرآنی آیات پڑھنے لگے، پھر تسبیح پر بھی کچھ پڑھتے رہے۔

میں سوچ رہی تھی کہ روزہ، نماز، قرآن ہر ایک کا ادراک رکھنے والے شخص کا تعلیمات نبوی سے کوئی تعلق نہیں، نہ انھیں خواتین سے بات کرنے کا سلیقہ، نہ کسی کی تکلیف کا احساس۔ عام طور پر میرا تجربہ اور مشاہدہ یہی ہے کہ مذہبی حلیے کے اکثر افرادکی طبیعت میں تشدد کا عنصر زیادہ ہوتا ہے، وہ خواتین کا احترام بھی نہیں کرتے ۔ بعض سخت گیرمذہبی خواتین کا بھی یہی رویہ ہے۔ جو خواتین واقعی مذہبی ہوتی ہیں،وہ کسی کو اپنے سے کمتر نہیں سمجھتیں نہ ہی موقع بے موقع مذہبی خودنمائی کرتی ہیں، لیکن ظاہری حلیے کے مرد اور خواتین خود کو دوسروں سے بہت اعلیٰ و ارفع سمجھتے ہیں۔

یہاں ٹرین میں بھی ایسے ہی ظاہری حلیوں والوں سے مڈ بھیڑ ہوگئی، جن کی خواتین میں بھی تشدد کا عنصر بہت زیادہ تھا، لیکن وہ بڑے صاحب بھی تو اسی فیملی کے سربراہ تھے، جنھوں نے مجھے اپنی نہ صرف برتھ آفر کی بلکہ اپنی بیوی، بیٹوں اور دیگر خواتین کے رویے کی معذرت بھی کی۔

اب سنیے ناشتے اور کھانے کا حال۔ جب ناشتہ آیا تو نہ ٹرے تھی نہ ٹی بیگ کی چائے، نہ دودھ اور چینی الگ الگ، ایک کاغذ کے کپ میں تیار اور اونٹھی ہوئی چائے، دو سوکھے سلائس، ایک انڈے کے آملیٹ میں سے چار مسافروں کو نمٹایا گیا تھا، برائے نام مکھن کا ساشا بھی تھا۔ چائے میں الائچی ڈال کر پکایا گیا تھا، بغیر یہ سوچے سمجھے کہ ہر ایک کو الائچی والی چائے پسند نہیں ہوتی۔ دوپہر میں لنچ آیا، نہ ٹرے نہ وہ منظر کہ الگ الگ پلیٹوں میں کھانا آرہا ہے جیساکہ ویڈیوز میں بزنس، اے۔سی کلاس کا دکھایا گیا تھا۔

بس ایک چار خانوں والا لنچ باکس تھا جس میں ایک خانے میں ایک چھوٹی سی نان کے تین ٹکڑے، ایک خانے میں چنے کی ٹھنڈی ٹھار بدمزہ دال، ایک خانے میں ٹیبل اسپون کے چار ناپ کے زرد چاول جسے بریانی کا نام دیا گیا اور آخری خانے میں دو ننھی ننھی سی بوٹیاں، پیاز اور لال مرچوں میں لتھڑا ہوا سالن، ہر چیز ٹھنڈی تھی، میں نے تو صرف نان روکھی کھا لی، بقیہ بدمزہ اور ٹھنڈا کھانا یوں ہی چکھ کر چھوڑ دیا، کمپارٹمنٹ میں موجود مسافروں میں سے کسی نے بھی پورا کھانا نہیں کھایا، اسی لیے میرے ایک ہم سفر نے لاہور اپنے دوست کو فون کرکے اسے ریولے اسٹیشن پہ انڈیچنے اور نان لانے کو کہا تھا۔

گاڑی لاہور پہنچی تو ان کا دوست انڈے اور چنوں کا سالن اور نان لے کر کمپارٹمنٹ میں آیا، میرے ہم سفر نے بتایا کہ وہ یہچنے اور نان اسکول کے زمانے سے کھاتے چلے آ رہے ہیں، انھوں نے مجھے بھی کھانے کی دعوت دی ، میں نے ان کا دل رکھنے کے لیے ایک نان کا ٹکڑا لیا اورچنوں کے سالنکے ساتھ کھایا، چنے واقعی مزیدار پکے تھے۔ جب انھوں نے سالن شاپر سے پلیٹ میں نکالا تو سالن کا گھی پلیٹ سے باہر گر گیا، انھوں نے پلیٹ یوں ہی برتھ پہ رکھ لی۔

میں نے جلدی سے انھیں اخبار دیا تاکہ وہ پلیٹ اس پہ رکھ لیں اور برتھ خراب نہ ہو، لیکن ان صاحب نے ایک ادائے بے نیازی سے کہا ’’ اتنا مہنگا ٹکٹ لیں، بدمزہ ناشتہ، چائے اور کھانا کھائیں تو ہمارا بھی حق بنتا ہے کہ ان کی برتھ خراب کرکے جائیں‘‘ اور واقعی انھوں نے کیا بھی ایسا ہی، نہ صرف برتھ سالن سے خراب کی بلکہ میرا نیا سوٹ کیس بھی داغ دار کیا، میں نے اپنا سوٹ کیس تو کسی حد تک ٹشو پیپر سے صاف کر لیا، لیکن ان کی برتھ کا حال دیکھ کر مجھے نہ صرف افسوس ہوا بلکہ اس شخص کی ذہنیت پہ بھی افسوس ہوا۔ میں نے کہا تھا ناں کہ ٹرین کے سفر میں قومی شعور اور قومی مزاج کا اندازہ ہوتا ہے بلکہ انسانی نفسیات کا بھی پتا چلتا ہے۔

ایک ان لوگوں کی ذہنیت تھی جنھوں نے مجھے برتھ خالی کرنے کو کہا تھا، ایک اس شخص کی ذہنیت جو کراچی میں میڈیا سے وابستہ ہے، کئی چینلوں میں کام کر چکا ہے کہ لوگ گورنمنٹ کی املاک کو نقصان پہنچا کر خوشی محسوس کرتے ہیں اور ایک وہ بزرگ تھے جنھوں نے اپنی بیوی اور بچوں کے خراب رویے پر معافی مانگی۔ تو یہ ہے ہمارا قومی مزاج کہ دکانوں کا کوڑا کرکٹ باہر نکال کر سڑک پہ چھوڑ دیا جاتا ہے کہ سڑک تو گورنمنٹ کی ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ ٹرین میں مہیا کیا گیا ناشتہ اور کھانا ٹھنڈا نہ ہوتا اور کچھ گرم ہوتا تو کسی کو شکایت نہ ہوتی ۔ میرے ساتھ تو یہ ستم بھی ہوا، ایک بندہ گیارہ بجے ٹرے میں چائے کے کپ لے کر آیا، مجھ سے پوچھے بغیر ایک کپ اس نے میری طرف بڑھایا، اس وقت کمپارٹمنٹ میں صرف میں تھی، میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی چائے کا کپ اس سے لے لیا، وہ خاموشی سے چائے دے کر چلا گیا، شام کو پانچ بجے آیا اور کہنے لگا ’’میڈم! چائے کے پیسے دے دیں۔‘‘ ’’کون سی چائے؟‘‘ میں نے کہا۔ ’’میں نے تو کوئی چائے تم سے نہیں منگوائی۔‘‘ تو وہ ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ بولا ’’وہ جو صبح گیارہ بجے آپ کو دی تھی۔‘‘ ’’وہ چائے ٹرین کی طرف سے نہیں تھی؟‘‘ میں نے پوچھا تو وہ ہنس کر بولا۔ ’’ نہیں جی، صرف صبح کی چائے ٹرین کی طرف سے تھی۔‘‘ مجھے غصہ آگیا۔

میں نے کہا کہ ’’ میں نے تو تم سے چائے نہیں منگوائی تھی، تم نے خود کپ مجھے پکڑا دیا تھا اور اگر وہ چائے ٹرین کی طرف سے نہیں تھی تو تمہیں بتانا چاہیے تھا۔‘‘ تب وہ ڈھٹائی سے ہنسا اور بولا ’’ اتنا تو آپ کو خود اندازہ ہونا چاہیے تھا کہ ’’ٹرین والے اتنے بااخلاق نہیں کہ مسافروں کو گیارہ بجے بھی چائے دیں۔‘‘ اور پھر وہ شخص ایک چھوٹے سے کپ کے پورے سو روپے لے گیا۔ باقی لوگوں سے بھی اس نے یہی کیا ۔ گویا یہ بھی وارداتیا تھا جو مسافروں کو جُل دے کر کمائی کر رہا تھا، یا پھر یہ کہ ان کو اس کی اجازت ہو۔

راولپنڈی پہ مسافروں کی اکثریت اتر گئی، ہماری کوچ میں صرف دو خواتین رہ گئیں، ایک میں اور ایک دوسری اپنے دو بچوں کے ساتھ، اتنی دیر میں ایک معقول سا شخص آیا اور اس نے ہمارے کہنے پر میرا سوٹ کیس ان دوسری خاتون کے کمپارٹمنٹ میں پہنچا دیا۔ انھیں بھی اسلام آباد اترنا تھا، ہم دونوں ناشتہ اور کھانے پر بات کرنے لگے۔

ابھی ہم باتیں کر ہی رہے تھے کہ وہی صاحب آگئے جنھوں نے سامان رکھوایا تھا، وہ بولے ’’ میڈم! 2018 تک اس ٹرین کا ناشتہ اور کھانا بہت اچھا تھا، لیکن اب سب ٹھیکے پہ دے دیا گیا ہے، ۔ ہم خود پریشان ہیں کہ کرایہ اتنا بڑھا دیا گیا ہے لیکن سہولتوں کا معیار کم ہے۔‘‘ میں نے کہا کہ میں تو اس پر کالم لکھوں گی، اس پر وہ بولا کہ ’’ضرور لکھیں۔‘‘ اس ملک میں بھلا کبھی ریلوے ٹھیک ہو سکتی ہے؟ جو ملک کا حال ہے وہی ریلوے کا۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں