[ad_1]
پاکستان میں گرمی اورتپش کا موسم عروج پر ہے۔ بالائی شمالی علاقہ جات کے سوا پورا ملک شدید گرمی کی لپیٹ میں ہے، سورج آگ برسا رہا ہے۔
سندھ میں حیدر آباد اور جامشورو میں گرمی کی شدت سے چار افراد جاں بحق جب کہ کئی بے ہوش ہونے کی اطلاعات ہیں، سندھ ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب کے کئی شہروں میں درجہ حرارت پینتالیس سے لے کر 51 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا، پاکستان کا سب سے بڑا شہرکراچی بھی ’’ہیٹ ویو‘‘کے شدید اثرات کی لپیٹ میں ہے۔
پاکستان میں گرم موسم کی شدت کئی ماہ تک جاری رہے گی۔ جون ، جولائی اور اگست یعنی جیٹھ، ہاڑ،ساون اور بھادوں تک شدید گرمی، حبس اور شدید بارشوں کا سلسلہ جاری رہے گا ۔
گرمی کی شدت میں مزید اضافہ ہو گا، پھر موسلادھار بارشوں، گرمی اور حبس شروع ہوجائے گا۔ ادھر موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان میں بارشوں کے سسٹم میں واضح تبدیلی دیکھی جاسکتی ہے یعنی کم وقت میں شدید اور تیز بارشیں، یا بے موسمی بارشیں، اسی طرح موسم سرما سکڑ کر محض تین سے ماہ کا ہوگیا ہے جب کہ موسم گرما طویل اور شدید ترہوتا جا رہا ہے۔
جب کسی علاقے، شہر یا ملک میں، موسمیاتی تبدیلی کے باعث اوسط یا عمومی درجہ حرارت کے مقابلے میں کہیں زیادہ درجہ حرارت ریکارڈ کیا جائے تو موسم کی اس کیفیت کو گرمی کی شدید لہر (Heat Wave) کا نام دیا جاتا ہے، شدید گرمی کی یہ لہر ایک دن سے لے کر کئی روز اور ہفتوں تک جاری رہ سکتی ہے۔
سب سے اہم وجہ پاکستان کے چھوٹے، بڑے شہروں کی بڑھتی آبادی اور بے ہنگم تعمیرات ہیں۔ موسمی اور ماحولیاتی تبدیلی کی ایک اور اہم وجہ ایندھن کا بڑھتا ہوا استعمال بھی ہے۔ شہروں میں ٹریفک کی وجہ کاربن کا اخراج بڑھ رہا ہے جب کہ درخت اور ہریالی کم ہورہی ہے۔
کراچی میں ہمیشہ مئی سے ستمبر تک جنوب مغربی سمت سے ہوائیں چلتی ہیں جس کے سبب موسم معتدل رہتا ہے، لیکن اگر کسی بھی وجہ سے میدانی علاقوں میں ہوا کے کم دباؤ کا کوئی سسٹم بن جائے تو سمندری ہوائیں بند ہو جاتی ہیں اور ان ہواؤں کا رخ یا تو شمال سے ہو جاتا ہے یا پھر شمال مشرقی یا مغربی سمت سے جڑ جاتا ہے۔
کراچی کے شمال مشرق میں تھر اور بھارت کا صحرا راجھستان ہے اور ان دونوں کا شمار خطے کے گرم ترین علاقوں میں ہوتا ہے۔ شہر کے شمال مغرب میں بلوچستان اور ایران کے صحرائی اور پہاڑی علاقے ہیں اور وہاں سے چلنے والی ہوائیں بھی گرمی ساتھ لاتی ہیں۔
یوں سمندری ہواؤں کی بندش اور سمندر کے علاوہ کسی دوسری جانب سے ہواؤں کا آنا کراچی میں ’’ہیٹ ویو‘‘ کا سبب بنتا ہے۔ کراچی کے باسیوں نے ’ہیٹ ویو‘ کا نام پہلی بار 2015ء میں سنا تھا۔ سرکاری اور نجی اسپتالوں میں دیکھتے ہی دیکھتے ’ہیٹ اسٹروک‘ کا شکار ہونے والے افراد کا رش بڑھ گیا اور چند روز میں پندرہ سو افراد موت کے منہ میں چلے گئے تھے۔
کراچی کو کنکریٹ کا جنگل بھی کہا جاتا ہے۔ یہ شہر مسائلستان بنتا جا رہا ہے، کراچی دنیا میں تیزی سے پھیلتے ہوئے شہروں میں سے ایک ہے، بے تحاشاآبادی کا پھیلاؤ، ٹریفک، آلودگی، غربت، دہشت گردی اور جرائم جیسے مسائل مسلسل بڑھ رہے ہیں۔
کراچی میں بلند و بالا عمارتوں کی تعمیر کے دوران ماحولیات سے متعلق تمام قوانین کی پرواہ نہیں کی جاتی، ساحل سمندر سے انتہائی قریب عمارتیں بنانے سے سمندری حیات کو بھی خطرات لاحق ہیں کیونکہ ان عمارتوں میں رہائشیوں کی تعداد بھی بڑھ رہی اور ان کا سیوریج سمندر میں جاتا ہے۔
چونکہ عمارت کی تعمیر اور ڈیزائن بناتے وقت ماحولیاتی پہلوؤں کو نظرانداز کیا جاتا ہے ، ہواؤں کے رخ اور گرینری پر بھی دھیان نہیں دیا جاتا، یوں عمارت دیکھنے میں تو خوبصورت لگتی ہے لیکن ماحولیاتی کو مزید آلودہ کرنے کا سبب بن جاتی ہے ، صنعتی زون میں فیکٹریوں سے اٹھنے والا دھواں بھی ایک بڑا مسئلہ ہے، ترقی نے جہاں زندگی کو آسان بنایا ہے وہیں کئی طرح کے مسائل بھی پیدا کیے۔
ماحولیات سے متعلق قانون 1997 سے نافذ ہے اور سندھ کا ایکٹ بھی 2014 سے نافذ العمل ہے مگر ان قوانین پر عملدرآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایئر کوالٹی لائف انڈیکس کی رپورٹ کے مطابق بڑھتی فضائی آلودگی کراچی کے شہریوں کی اوسط عمر میں 4 سال تک کی ممکنہ کمی کا باعث بن سکتی ہے، پاکستان میں انسانی صحت کے لیے قلبی امراض کے بعد دوسرا سب سے بڑا خطرہ آلودگی ہے۔
ماحولیاتی ماہرین کے مطابق ہوا میں موجود خطرناک اجزاء انسانی صحت کے لیے مضر ہیں، کراچی جیسے میٹروپولیٹن سٹی میں آبادی کے لحاظ سے ایئر کوالٹی مانیٹرز بھی موجود نہیں۔ کراچی شہر بحیرہ عرب میں ہونے والی تبدیلیوں سے بھی براہ راست متاثر ہوتا ہے، سطح سمندر میں اضافہ، طوفانوں کا خدشہ، بارشوں میں اضافہ اور سمندری درجہ حرارت میں اضافہ وہ چند تبدیلیاں ہیں جو کسی بھی ساحلی شہر کو تباہ کرکے رکھ سکتی ہیں۔
پچھلی کچھ دہائیوں میں یہ تمام تبدیلیاں بحیرہ عرب میں دیکھی جا رہی ہیں جن کا براہ راست اثر شہر کراچی پر ہورہا ہے، اس کے علاوہ فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے بڑھنے سے سمندری پانی کی تیزابیت پر بھی برا اثر پڑ رہا ہے جو کراچی کی سمندری حیاتیات کے لیے مضر ہے۔
لاہور جو کبھی باغوں اور کالجز کا شہر کہلاتا تھا، آج دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شامل ہوگیا ہے۔ لاہور سبزے کے زیور سے محروم ہوتا ہواکنکریٹ کی بیڑیوں میں جکڑا جاچکا ہے، بے ہنگمکنسٹرکشن سرگرمیوں نے نیچر کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ آبادی کے بے انتہا دباؤ نے لاہور کی جغرافیائی، ماحولیاتی، معاشی اور سماجی ساخت کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔
ایئرکوالٹی، اسموگ، دھند، شہری سیلاب، شدید گرمی کی لہروں اور دیگر موسمیاتی تغیرات نے شہر ی نظامِ زندگی کو سال کے مختلف حصوں میں متاثر کرنا شروع کر دیا ہے، جس کی بہت سی وجوہات میں سے ایک نمایاں وجہ شہر میں سبزے اور درختوں کی کم ہوتی تعداد بھی ہے۔
سیرگاہیں، کھیل کے میدان ختم ہورہے ہیں، لاہور کی معروف نہر کے کنارے درختوں کی تعداد مسلسل کم ہورہی ہے، فٹ پاتھوں پر درختوں کا نام و نشان نہیں ہے، اگر کہیں درخت لگائے جارہے ہیں، تو ایسے پودے اور درخت ہیں، جو سایہ دار نہیں ہیں۔ انگریز کے دور اور قیام پاکستان کے کی ابتدائی تک لاہور شہر کی سڑکوں کے درمیان وسیع گرین ایریاز چھوڑا جاتا تھا، جہاں برگد، پیپل، ٹاہلی، وغیرہ کے درخت لگائے جاتے، یہ درخت بلند قامت اور گھنے ہوتے ہیں۔
ان کا پھیلاؤ زیادہ ہوتا ہے، گرم موسم میں ان درختوں کا گہرا سایہ سارا سڑک کو ٹھنڈا رکھتا تھا، فٹ پاتھوں پر بھی ایسے درخت لگائے جاتے تھے، جس کی وجہ پیدل چلنے والوں کو سایہ میسر آتا تھا لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ گرم موسم شروع ہوتے ہیں، سڑکیں آگ کا گولہ بن جاتی ہیں، سایہ نام کو نہیں ہوتا۔
لاہور کے پھیلاؤ کے علاوہ شہری اور مضافاتی علاقوں میں گاڑیوں اور صنعتی اخراج میں تیزی سے اضافے کے نتیجے میں متعدد ماحولیاتی مسائل جیسے شہری گرمی کے جزیرے (urban heat islands)، اسموگ، فضائی آلودگی، بارش کے اتار چڑھاؤ کے انداز اور صحت کے مسائل پیدا ہوئے ہیں۔
موٹر ویکلز کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ پنجاب میں 95 فیصد سے زیادہ صنعتی یونٹس بڑی سڑکوں اور شاہراہوں کے 2 کلومیٹر کے اندر شہری علاقوں کے آس پاس واقع ہیں۔ یوں ماحولیاتی انحطاط اور موسمیاتی تبدیلی کے مسائل میں کئی گنا اضافہ ہورہا ہے۔
اگر کراچی میں عمارتوں کی بلندی کی حد مقرر کردی جاتی تو شہریوں کا ہی بھلا ہوتا، اس شہر میں موجود انفرا اسٹرکچر اس بات کی اجازت ہی نہیں دیتا ہے کہ شہر کے اندر یا متصل علاقوں میں نئی آبادیاں قائم کی جائیں یا ایک حد سے زیادہ اونچی عمارتیں تعمیر کی جائیں۔
کراچی میں تقریبا 130 بلند وبالا ایسی بلڈنگز ہیں جن کی لمبائی کم سے کم 90 میٹر ہے اور زیادہ سے زیادہ 380 میٹر ہے، یہاں مسئلہ یہ نہیں کہ عمارتیں کیوں آسمان بوس بنائی جا رہی ہے سوال یہ ہے کہ جب کثیر المنزلہ عمارتوں کو بنایا جا رہا ہوتا ہے تو وہ ادارے کہاں ہوتے ہیں جو تعمیرات سے ہونے والی آلودگی اور شہر کے سبزے کو ختم کرنے پر ایکشن لیتے ہیں؟
ترقی یافتہ ممالک فلک بوس عمارتیں تو بنا رہے ہیں لیکن ماحولیاتی تبدیلی سے بچنے کے لیے ہر ممکن اقدامات بھی کر رہے ہیں، جیسے بلڈنگ کے فلورز، بالکونی اور چھتوں پر شجر کاری کرتے ہیں، گملے رکھتے ہیں تاکہ خطرناک گیسز سے نقصان کم ہو، اسی لیے پاکستان خصوصاً کراچی میں ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کے لیے سب سے ضروری چیز شجر کاری مہمات کا فروغ ہے۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ حکومتی سطح پر بھی اس مسئلے کے حل کے لیے موثر اقدامات نہیں کیے جاتے، گاڑیوں اور فیکٹریوں کے دھویں کو کنٹرول کرنے کے لیے بھی اقدامات کا فقدان ہے۔ایک ایسے دور میں جس میں انتہائی قدرتی واقعات کثرت سے رونما ہوتے جا رہے ہیں۔ شہروں میں خطرات میں کمی اور آفات سے نمٹنے کے منصوبے تیار کرنے اور ان پر عمل درآمد کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ خطرات اور اِن سے نمٹنے کی صلاحیت کو بہتر بنایا جا سکے۔
[ad_2]
Source link