10

سرآئینہ اور پس آئینہ – ایکسپریس اردو

[ad_1]

اکبرالہ آبادی نے مزاح کے پردے میں جو کمال کی باتیں کی ہیں ان میں ایک یہ قطعہ بھی ہے ؎

بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں

اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا

پوچھا جو ان سے آپ کا پردہ کدھر گیا

بولیں کہ وہ تو عقل پہ مردوں کے پڑگیا

’’عقل پہ مردوں کے ‘‘ کیا کمال کا ابلاغ ہے ’’پردے‘‘کا اتنا خوب صورت استعمال کسی نے بھی نہیں کیا ہوگا۔پردہ ایک ہی ہے۔جو پہلے خواتین کرتی تھیں لیکن اب وہ پردہ مرد حضرات کی عقل پر پڑ چکا ہے۔لیکن یہاں ہم اس پردے کا ذکر کررہے ہیں جو ’’کپڑے‘‘ پر مشتمل ہوتا ہے۔ کیونکہ خواتین کا پردہ تو کپڑے کا ہوسکتا ہے لیکن جو ’’عقل‘‘ پہ مردوں کے پڑگیا یا پڑچکا ہے یا پڑ رہا ہے یہ پردہ کچھ اور ہے۔ مرشد نے کہا ہے

شرم اک ادائے ناز اپنے سے ہی سہی

’’ہیں کتنے بے حجاب‘‘ جو یاں ہیں حجاب میں

اس لیے ہم مردوں کی طرف سے معاون خصوصی برائے اطلاعات بن کر خواتین پر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ آپ کا مرد پر اپنے پردے کی چوری کا الزام بالکل غلط اور بے بنیاد ہے۔ٹھیک ہے مردوں کے لچھن ٹھیک نہ کبھی تھے نہ ہیں اور نہ ہوں گے، مطلب یہ بدمعاش ہے چور ہے غنڈہ ہے عیاش و اوباش بلکہ اور بھی سو عیب اس میں ہوسکتے ہیں لیکن پردہ چور نہیں ہے۔دراصل یہ بات ہی دوسری ہے۔

انسان چاہے مرد ہو یا عورت۔ اس کی آنکھوں پر عقل پر اور سمجھ دانی پر کچھ پردے پیدائشی پڑے ہوئے ہیں اس لیے اکثر اسے وہ نظر آتا ہے جو ہوتا ہی نہیں اور وہ بالکل نظر نہیں آتا جو ہوتا ہے۔مثلاً ایک زمانہ ہوچکا ہے کہ ہوشیار لوگ احمقوں کا دیا کھاتے ہیں لیکن احمقوں کو پتہ نہیں بلکہ وہ خود ہی یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ان عقل مندوں کا دیا کھاتے ہیں اس لیے ہر وقت گاڈ سیودی کنگ کا ترانہ الاپتے رہتے ہیں حالانکہ ’’کنگ‘‘ کے’’سیو‘‘ ہونے ہی میں اس کی تباہی مضمر ہوتی ہے

مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی

ہیولیٰ برق خرمن کا ہے خون گرم دہقان کا

اب مثلاً اس بات کو ہی لے لیجیے کہ جب سے ’’بییوں‘‘ کا پردہ غائب ہوا ہے اور جس کا ناجائز الزام خواہ مخواہ ’’مردوں‘‘ پر لگایا جاتا ہے۔تب سے آپ نے دیکھا ہوگا۔خاص طور پر اس ابلیسی صندوق میں جسے لوگ ٹیلی وژن اسکرین یا چھوٹا پردہ کہتے ہیں تب سے انسانوں کو لوٹنے کا وہ عمل شروع ہوچلا ہے جسے روز روشن میں ڈاکا زنی کہا جاسکتا ہے اور جسے دیکھ کر بے اختیار کہنے کو جی چاہتا ہے کہ۔’’چہ دلاور است دزدے‘‘

’’بفروغ اسکرین‘‘ زلفت ہمہ شب رند رہ دل

چہ دلاور است دزدے کہ بکف چراغ دلاور

بکف چراغ کی مثال اس سے بڑی ہوگی کہ جیسے ہی اسکرین روشن ہوتی ہے ڈنکے کی چوٹ پر چوری بلکہ ڈاکا زنی شروع ہوجاتی ہے۔ علم کی روشنی اتنی زیادہ پھیل چکی ہے کہ انسان کے کسی بھی عارضے کا علاج ’’لوکل‘‘ طریقے سے یا بیرونی ٹوٹکوں سے ممکن ہی نہیں ہے بال،دانت،جلد یا داغ کیل مہاسے سب امراض اندرونی عوامل سے پیدا ہوتے ہیں اور اندرونی گڑ بڑ ٹھیک کرنے ہی سے ان کا علاج ممکن ہے ، بیرونی یا لوکل طریقے پر ان کا علاج ایسا ہے جیسے کوئی گھر میں کھویا ہوا سکہ بازار میں تلاش کرے۔لیکن پھر بھی علاج کی چیزیں دھڑا دھڑ بکتی ہیں ۔

زبنفشہ تاب دارم زند بہ زلف اودم

تو سیاہ کم بہابیں کہ چہ درماغ دارد

ترجمہ۔مجھے اس بنفشہ پر غصہ آرہا ہے کہ ’’اس‘‘ کی زلفوں کی ہمسری کررہا ہے ذرا کوئی اس سیاہ کلوٹن سے پوچھے کہ اس کے دماغ میں کیا ہے۔کتنا زمانہ گزرا کہ یہ ’’بکف چراغ دارد‘‘ والا سلسلہ چل رہا ہے کل اخباروں اور رسالوں میں ایک ماڈل کہتی تھی کہ میرے حسن کا نکھار فلاںٹوٹکا ہے۔میرے یہ لمبے گھنے بال فلاں ٹوٹکا کے دیے ہوئے ہیں۔

دانت فلاںٹوٹکے والوں نے دیے ہیں۔ ملین بلکہ ٹریلین سے بھی زیادہ سامان بک چکا ہے، کمپنیاں اتنے روپے ہڑپ چکی ہیں۔لیکن ’’بال‘‘ بھی ویسے کے ویسے ہیں ڈینٹرف بھی پہلے سے زیادہ ہوگیا ہے، طرح طرح کی مصنوعات اور ٹوٹکے۔کہ گھر میں کھوئی ہوئی ’’اشرفی‘‘ بازار میں تلاش کرنا حماقت ہے۔

اس سے پہلے بھی ہم کئی بار بتاچکے ہیں۔بالوں کا گرنا،جلد کا جھڑنا، ڈینٹرف وغیرہ اول تو بیماریاں ہیں ہی نہیں اور اگر ان میں کچھ واقعی بیماریاں ہیں بھی تو وہ اندرونی وجوہات سے پیدا ہوسکتی ہیں۔اس کا بیرونی علاج ایسا ہے جیسے آپ گھاس کو درانتی سے کاٹ لیں لیکن جڑیں دوسرے روز نیا جنگل اگاچکی ہوتی ہیں۔ہمارا دعویٰ ہے کہ اس وقت لوکل استعمال کے جتنے ٹوٹکے فروخت ہوتے ہیں۔سراسر دھوکا ہیں فریب ہیں اور عقل پر پردہ ڈالنے والوں کے کمالات ہیں اور’’چہ دلاور است دزدے‘‘ کے مظاہرے ہیں۔

اب اس ہنگامہ حشرونشر میں یہ معلوم کرنا تو بہت مشکل ہے کہ کس چیز کا پردہ کس کے کس جگہ جاکر پڑگیا ہے یا سادہ الفاظ میں۔ کہاں کا پردہ کہاں بلکہ کہاں کہاں جاکر پڑچکا ہے لیکن جو بات صاف صاف دکھائی دیتی ہے وہی ایک پرانی بین الاقوامی اور بین الجغرافیائی کہاوت کا ’’سچ‘‘ ہو یا ہے،کہ اگر دنیا میں احمق نہ ہوتے تو عقل مند بیچارے کب کے بھوکے مرچکے ہوتے۔آج اگر آزمائے ہوئے بار بار آتے ہیں۔

لوٹتے ہیں، جاتے ہیں اور پھر آکر براجمان ہوتے ہیں۔تو اس لیے کہ دنیا میں ابھی ’’احمق‘‘ بہت ہیں۔اور جب تک احمقوں کی بہتات رہے گی، عقل مندوں کو اپنی روزی روٹی کے لیے کوئی تردد کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔سیدھی سی بات ہے کہ یہ لیڈر،یہ باتدبیر یہ خادم یہ میڈیا۔یہ چھوٹی بڑی اسکرین اور زبردست کے ٹوٹکے جب نہیں تھے تب بھی انسان موجودہ وقت سے زیادہ عافیت میں اور زیادہ خوش تھا اور یہ سب کچھ اگر آج ختم کردیا جائے تو اور بھی زیادہ عافیت میں اور خوش ہوگا

یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے

ہوئے تم دوست جس کے اس کا دشمن آسمان کیوں ہو



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں