[ad_1]
وہ لمبا چوڑا شخص پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا۔
’’ ابو کو ڈاکٹرز نے برین ٹیومر بتایا ہے، ان کی طبیعت بہت خراب ہے، میں ان کو اس حالت میں نہیں دیکھ سکتا۔ میں نے ان کی رپورٹس انڈیا بھی بھجوائی ہیں۔‘‘
’’ انڈیا کیوں؟ پاکستان میں بھی تو اتنے اچھے ڈاکٹرز ہیں۔‘‘
’’ نہیں، پاکستان میں ڈاکٹرزکو یہ تک نہیں پتا کہ ابو کو کون کون سے ٹیسٹ کرانے ہیں، کون سی دوائیاں دینی ہیں۔‘‘
’’ لیکن ہم نے تو سنا ہے کہ پاکستان میں بہت قابل ڈاکٹرز ہیں۔‘‘
’’میری انڈیا میں ایک جاننے والے کے توسط سے بہت اچھی بات چیت ہوئی ہے، یقین جانیے ایسا نہیں ہے، ہم خوش فہمی کا شکار ہیں۔ پتا چلا ہے کہ اس مرض کے لیے وہاں ایک بہت اچھی میڈیسن آنے والی ہے ابو کو اس دوا سے یقینا فائدہ ہوگا۔‘‘
یہ تو ایک طویل بحث ہے کہ پاکستان میں قابل ڈاکٹرز ہیں یا بھارت میں، لیکن حال ہی میں چنائی کے اسپتال میں ایک یتیم لڑکی کے دل کی تبدیلی کا کامیاب آپریشن بنا کسی پیسے کے کر کے بھارتی ڈاکٹرز نے یہ تو ظاہر کردیا ہے کہ ان کے پاس بھی حساس دل تو موجود ہے۔ ایک ساٹھ برس سے زائد عمر کے شخص کا دل ایک اٹھارہ انیس برس کی نوجوان لڑکی کے دل سے بدل دینا یقینا ایک حیران کن عمل ہے، پر قلب اس قدر مفید اور مستقل حرکت میں رہنے والا عضو کس قدر اپنی اہمیت رکھتا ہے یہ بھی توجہ طلب ہے۔
اس کی اپنی ساخت ہے اس پر ہرگز تحریر نہیں ہوتا کہ یہ کسی نیک اور شریف انسان کا دل ہے یا کسی شرابی، بدنیت اور برائیوں کے پوٹلے کا دل ہے۔ یہ تو ایک کارآمد عضو ہے جو پورے جسم کو خون کی سپلائی کرتا رہتا ہے۔ دراصل انسان کی اچھائی، برائی، نیکی اور بدعملی کا تعلق اس کے جذبات، ذہنی سوچ و فکر سے یا دوسرے الفاظ میں روح سے ہوتا ہے۔
بات کہاں سے کہاں جا نکلی، جو قابل ڈاکٹرزکے نقطے پر اٹھانے کی کوشش تھی۔ حال ہی میں کرغزستان میں پاکستانی طلبا و طالبات کے حوالے سے کافی حیران کن باتیں سامنے آئیں۔ کرغزستان جسے 1991 میں روسی حکومت سے نجات ملی اور اس نے آزاد ریاست کے طور پر اپنا وجود ابھارا۔
1947 سے لے کر آج تک پاکستان جیسا قدرتی ذرائع سے مالا مال ملک لڑھک لڑھک کر چل رہا ہے تو کرغزستان جیسا ملک ترقی کی سیڑھیوں پر اتنی جلدی دوڑ کر کیسے سفر طے کرتا، اتنا آگے نکل سکتا ہے کہ غیر ملکی طلبا و طالبات کو میڈیکل کی اس قدر مشکل اور مہنگی تعلیم انار کے دانوں کی طرح بانٹ رہا ہے۔
پاکستان، انڈیا، بنگلہ دیش اور مصر کے ہزاروں طلبا و طالبات کرغزستان میں تعلیم کے حصول کے لیے جوق در جوق جا رہے ہیں۔ اس نئے ننھے سے ملک میں اچانک یونی ورسٹیز اورکالجز دھڑا دھڑ کھلنے لگے جن کے ایک دو تین نہیں بلکہ درجن درجن بھر کیمپس پورے ملک میں کھلتے چلے گئے، یہ کیا راز تھا کہ اچانک تعلیم کے شعبے میں سرمایہ کاری کا رجحان پھلنے پھولنے لگا۔
سوال اٹھتا ہے کہ کیا واقعی کرغزستان کے ان تعلیمی اداروں میں تعلیم اس معیار کی ہے جس معیار کی بھاری بھاری فیسیں وصول کی جاتی تھیں۔ بچوں کی تعلیم حاصل کرنے کے پیچھے صرف اولاد کا ہی نہیں بلکہ والدین کے خواب بھی شامل ہوتے ہیں جو ان کو ڈاکٹرز کے روپ میں دیکھ کر ہی جیتے ہیں اور ان خوابوں کے حصول کے لیے اپنے پلاٹ، فنڈز اور زیورات نجانے کیا کچھ بیچ کر لاکھوں روپے ادا کرتے ہیں۔
’’ کیا آپ جانتی ہیں کہ یہاں ایک سیمسٹر کی فیس پینتیس ہزار ڈالر ہے۔‘‘ ذہن میں ایک صاحبہ کا کہا جملہ گونجا جن کی دو بیٹیاں امریکا کی میڈیکل یونی ورسٹی میں پڑھتی ہیں، جو نہ صرف بھاری فیس بلکہ انتھک محنت کا بھی متقاضی ہے۔
کرغزستان میں تعلیمی ادارے جن کے ساتھ اعلیٰ بھی جڑا ہے، تعلیمی لحاظ سے نہایت بری حالت کا شکار ہے۔ وہاں کے لوگ کرغز، رومی اورکچھ ازبک زبان بھی بولتے ہیں جبکہ انگریزی ذریعہ تعلیم کے لحاظ سے زبان سمجھنے اور بولنے والے نظر ہی نہیں آتے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہاں داخلے کے لیے انتہائی کم نمبرز رکھے گئے ہیں تاکہ بچوں کے لیے زیادہ سے زیادہ کشش پیدا کی جائے۔
یہ وہ طالب علم ہیں جنھوں نے پاکستان کی یونی ورسٹیوں میں داخلے کی کوششیں کیں لیکن ناکام رہے، لہٰذا اپنے اور والدین کے خوابوں کی تکمیل کے لیے ساری کشتیاں جلا کر ملک سے باہر ایک انجانی ریاست میں چلے آئے، یہ جانے بغیرکہ وہاں کس معیار کی تعلیم فراہم کی جاتی ہے، آیا وہ ان تعلیمی اداروں کی تعلیمی اسناد بعد میں قابل قبول ہوں گی یا نہیں۔
خوابوں کو پانے کے لیے انسان میں سب سے پہلی شرط اس کی اہلیت ہے، جسے ہم قابلیت بھی کہتے ہیں، آیا وہ اس قابل ہے بھی کہ اپنے خوابوں کو حقیقت کا رنگ دے سکے؟ حالانکہ وہ جانتا ہے کہ وہ کیا کچھ کر چکا ہے لیکن پھر بھی بضد ہے کہ اسے وہی نایاب گوہر چاہیے، خواہ اس کے لیے اسے سات سمندر پار ہی جانا پڑے۔
ہم بڑے مگرمچھوں سے لڑ نہیں سکتے، لیکن بچ تو سکتے ہیں اور بچ بچ کر ان مگرمچھوں کو بھوکا لاغر کر کے ناکارہ تو کر سکتے ہیں لیکن انسانی خواہشات کا لامتناہی سلسلہ تعلیم کے سوداگروں کا سلسلہ بہت وسیع نیٹ ورک پر مبنی ہے جس کا شکار ہم معصوم بچے بنتے ہیں، جنھیں کبھی کرغزستان تو کبھی چین اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مستقبل میں افغانستان میں بھی میڈیکل جیسی مشکل تعلیم حاصل کرنے بھیج سکتے ہیں تو پھر کیا خیال ہے؟
کرغزستان سے متاثرہ طالب علموں کے بارے میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اب حکومت ایسی پالیسی بنائے کہ وہ بچے پاکستان کی میڈیکل یونیورسٹیز میں ایڈجسٹ کیے جائیں۔ ڈیڑھ دو کروڑ روپے کے عوض بچوں سے دوری، پردیس کے مسائل اور تعلیمی ڈگری کے حوالے سے افواہیں، کیا سب کچھ ہی ایڈمٹ کیا جاسکتا ہے؟
کیا ہم اپنے بچوں کو اتنا قابل ڈاکٹر بنا سکیں گے جو اپنی قابلیت و اہلیت کے بل بوتے پر تیر مار سکیں گے؟ کیا ہم اپنے مریضوں کو پڑوسی ملک علاج کے لیے بھیجتے رہیں گے؟ ہم کب تک اہل کا حق مار کر نااہل کے کھاتے بھرتے رہیں گے اور نکموں کی ٹیم بناتے رہیں گے۔۔۔۔ آخر کب تک؟
[ad_2]
Source link