[ad_1]
کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ طلعت حسین خاموشی سے اپنے رب کی طرف لوٹ جائیں گے، ان کا بنیادی نقطہ تو صرف اداکاری ہی تھا آج ان کے چاہنے والوں کی آنکھیں غم زدہ اور اشکبار ہیں اپنے فن کے حوالے سے انھوں نے ہمیشہ عوامی پذیرائی کو اپنی جھولی میں سمیٹ کر رکھا ،اپنی شخصیت اور رکھ رکھاؤ کے حوالے وہ سپرہٹ اداکار کا اعزاز رکھتے تھے۔
پاکستان میں صداکاری کا اعزاز صرف دو فنکاروں کو ملا اور انھوں نے اس پر بھرپور توجہ دی ایک تو اداکار محمد علی اور دوسرے طلعت حسین تھے ۔اس میں کوئی شک نہیں ٹی وی کے حوالے سے جو عوامی پذیرائی انھیں ملی وہ شاید کسی فنکار کو نہ ملی۔، راقم کو ہمیشہ محبت کی نگاہ سے دیکھا وہ ایک بین الاقوامی اداکار تھے اور بحیثیت صحافی کے انھوں نے ہمیشہ ہماری حوصلہ افزائی کی۔
1993 میں راقم ایک مقامی بڑے اخبار میں شوبز کے حوالے سے کام کرتا تھا اور ہم نے ہمیشہ انھیں پی ٹی وی کا دلیپ کمار لکھا انھوں نے اپنی فنی زندگی کا آغاز پی ٹی وی سے کیا اور ان کا پہلا ڈرامہ ’’ارجمند‘‘ جو 1967 میں دکھایا گیا۔ طلعت بھائی نیوز کاسٹر اور اناؤنسر بھی رہے کچھ عرصہ لندن اکیڈمی میوزک آرٹ سے بھی وابستہ رہے ،ان کا پہلا ڈرامہ ’’جمی پیرے‘‘ تھا جس میں انھوں نے ایک کلب کے اونر کا کردار ادا کیا جبکہ وہ بی بی سی ریڈیو کے ڈرامہ ’’کراؤن‘‘ میں مرکزی کردار ادا کرتے رہے۔
طلعت بھائی بڑی خوبیوں کے مالک تھے انھوں نے ایک تفصیلی انٹرویو جو 1994 میں ایک بڑے جریدے میں راقم نے کیا تھا بتایا تھا کہ وہ چینل TV-4 کی سیریل ’’ٹریفک‘‘ میں بھی کام کر چکے ہیں ناروے کی فلموں میں کام کیا اور انھیں امینڈا ایوارڈ بھی دیا گیا۔
بھارت کے معروف ہدایت کار ساون کمار کی فلم ’’سوتن کی بیٹی‘‘ میں وکیل کا مرکزی کردار ادا کیا اور مزے کی بات دیکھیں کہ ریکھا کے مقابل زبردست اداکاری کا مظاہرہ کیا، انھوں نے فلم ’’انسان اور آدمی‘‘ میں محمد علی اور زیبا کے برخوردار کا ناقابل فراموش کردار ادا کیا جس کا تذکرہ علی بھائی نے لاہور میں اپنے گھر ہونے والی ملاقات میں کیا تھا کہ طلعت حسین بڑا اداکار ہے، فلم ’’گمنام‘‘ میں ڈاکٹر کا رول کرکے اپنے آپ کو منوا لیا تھا 1998 میں فلم ’’جناح‘‘ میں کام کیا اور ان کی پرفارمنس دیکھ کر ناظرین حیرت زدہ ہوگئے۔
انھوں نے فلم ٹی وی میں فن اداکاری کے حوالے سے کبھی بلند و بانگ دعوے نہیں کیے بہت سادہ طبیعت کے انسان تھے اور یہی درس ہمیں بھی دیا کرتے تھے 1972 سے لے کر 1977 تک وہ لندن میں رہے وہاں انھوں نے بحیثیت پروڈیوسر اور اداکار کے ایک اسٹیج ڈرامہ ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کے نام سے کیا اور مرکزی کردار بھی انھوں نے خوب کیا، ہال ایک ہفتے کے لیے بک کرایا تھا اور پھر ڈرامہ ’’پاکستان زندہ باد‘‘ مسلسل 5 ہفتے تک ہاؤس فل رہا وہ تعلیمی قابلیت کے شہ سوار تھے انھوں نے لندن اکیڈمی آف میوزک اینڈ ڈرامیٹک آرٹ سے ڈپلومہ کیا وہ محمد علی کے بعد دوسرے اداکار تھے جنھوں نے یورپی فلموں میں بھی اداکاری کی ،انھیں فلم ’’امپورٹ ایکسپورٹ‘‘ پر بہترین اداکاری پر ’’امینڈا ایوارڈ‘‘ بھی دیا گیا اس ایوارڈ کو ’’آسکر‘‘ ایوارڈ کے برابر اہمیت دی جاتی ہے ۔
اپنے فن کا آغاز ریڈیو پاکستان سے کیا اس کے بعد ٹی وی کی سیڑھی پر قدم رکھا اور پھر وہ شہرت کی آخری سیڑھی پر پہنچ گئے اپنی زندگی میں بہت سے مسائل بھی دیکھے اور ہر مسئلے کا جواں مردی سے مقابلہ کیا وہ ناقابل شکست رہے ان کے والد بھارتی سول سروس میں ایک اعلیٰ عہدے پر وابستہ تھے ان کی والدہ ریڈیو سے وابستہ تھیں یہ فن انھیں ورثے میں ملا ریڈیو سے ان کا پہلا ڈرامہ ’’کچھ غم جاناں کچھ غم رواں‘‘ تھا ،اس ڈرامے نے ان کی مقبولیت میں دن دوگنی رات چوگنی کی مثال قائم کی وہ اپنی ذات میں خود باصلاحیت تھے لوگوں کی بہت حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے ان کی زندگی ہمیشہ زندگی کا لبادہ اوڑھے رہی بہت کم مزاح کی طرف آتے تھے ان کی گفتگو سے ہمیشہ خلوص اور محبت کی خوشبو آتی تھی جہاں ان کا اختیار ہوتا وہاں دل کھول کر مدد کرتے اس کا راقم گواہ ہے۔
1994 میں ہم پی ٹی وی سے کرنٹ افیئر کے پروگرام کرتے تھے پی ٹی وی کے سینئر پروڈیوسر راجپوت صاحب کوئٹہ سے تبادلہ ہو کر کراچی آئے یہاں وہ نیوز کے ہیڈ تھے، ہم نے آڈیشن دیا طلعت بھائی راجپوت صاحب کے ساتھ بیٹھے تھے آڈیشن میں ہم کامیاب ہوگئے تو جو جملہ طلعت بھائی نے کہا اس سے ہمیں بڑا حوصلہ ملا انھوں نے راجپوت صاحب سے کہا کہ ’’یار اس نے آڈیشن میں کامیابی حاصل کرلی ہے اس کی حق تلفی نہ کرنا اس کو پروگرام دو ‘‘غالباً امیر امام اس زمانے بھی سینئر پروڈیوسر تھے، طلعت بھائی نے ان سے بھی کہا کہ امیر بھائی ان کی حوصلہ افزائی کریں یوں طلعت بھائی کی محبت کے ناتے ہم نے کافی عرصہ پی ٹی وی سے کرنٹ افیئر کے پروگرام کیے یہ ان کا مجھ پر پہلا احسان تھا اور ان کی وجہ سے میری ٹی وی کے حوالے سے پہچان بنی۔
روزنامہ ایکسپریس کراچی کے ایڈیٹر طاہر نجمی اور طلعت حسین میں بہت اچھی دوستی تھی جب وہ کراچی پریس کے پہلی مرتبہ سیکریٹری بنے تو طلعت حسین پہلی مرتبہ انھیں مبارک باد دینے کراچی پریس کلب آئے تھے۔بزرگوں کا قول ہے جو تم پر احسان کرے اس کی عزت و توقیر کروں کہ اس نے تمہارا ساتھ دیا۔
دستاویزی فلموں کے معروف پروڈیوسر آرٹس کونسل کراچی کے جنرل سیکریٹری مشتاق گزدر عوامی مسائل پرپروگرام بنایا کرتے تھے انھوں نے 5 دستاویزی فلمیں جن کا دورانیہ ایک گھنٹہ تھا کے لیے طلعت حسین سے ڈبنگ کے لیے کہا۔ طلعت بھائی نے معذرت کرلی کہ ’’ میں لندن جا رہا ہوں کسی پروگرام کے حوالے سے‘‘ پھر طلعت بھائی ہمیں لے کر مشتاق گزدر صاحب سے ملے اور کہا کہ’’ آپ م۔ش۔خ سے ڈبنگ کروا لیں اور یوں ان کی دستاویزی فلموں کی ہم نے ڈبنگ کی‘‘ اس سے ہمیں یہ فائدہ ہوا کہ پھر طلعت بھائی اکثر ڈبنگ کا کام ہمیں پروڈیوسر حضرات سے دلوا دیتے، ہماری حوصلہ افزائی ہوتی اور مالی فائدہ بھی ہو جاتا ،طلعت حسین کے ہم پر بہت احسانات رہے۔
ان سے راقم نے اردو کا تلفظ سیکھا انھوں نے جن فلموں میں اداکاری کی ان میں چھپن چھپائی، ایکٹر ان لا، نامعلوم افراد قابل ذکر ہیں وہ کچھ ڈراموں کے مصنف بھی رہے ان کی اہلیہ رخشندہ صاحبہ نے پی ایچ ڈی نفسیات میں کیا وہ کراچی یونیورسٹی میں شعبہ نفسیات سے بھی وابستہ رہیں۔ وہ اکثر مجھے کہتے م۔ش۔خ صحافت میں تنقید تم ضرور کرنا مگر زرد صحافت کو کبھی اپنے قریب نہ آنے دینا، ان کا تعلق دہلی سے تھا انھوں نے ایک ڈرامے میں کامیڈی بھی کی جس کا نام ’’فنون لطیفے‘‘ تھا، ان کی والدہ کشمیری تھیں گلوکارہ نورجہاں ان کی بہت بڑی فین تھیں یہ بات انھوں نے ہمیں بتائی تھی وہ شریف اور نیک انسان تھے 1982 میں صدارتی ایوارڈ 2021 میں ستارہ امتیاز سے نوازا گیا ، رب ان کی مغفرت کرے۔( آمین)
[ad_2]
Source link