[ad_1]
شکیب جلالی کی فن و شخصیت کے سرسری مطالعے کے دوران میری آنکھیں آبدیدہ ہوگئیں کہ ایک حساس طبع شخص کو روزمرہ زندگی میں پیش آنے والے حادثات اورکٹھن حالات کیسے کمزور سے بہادر بنا دیتی ہے۔
شکیب صاحب ایک بہادر انسان ہونے کے ساتھ ساتھ بہت سی خوبیوں کے مالک تھے، وہ یکم اکتوبر 1934 ء میں قصبہ جلالی تحصیل و ضلع علی گڑھ ( انڈیا) میں سید صغیر حسین کے ہاں پیدا ہوئے۔ ان کے والد اور ان کے دادا سید شفاعت حسین دونوں محکمہ پولیس میں ملازم تھے۔ اس کا ذکر امتیازکلثوم نے اپنے ایم اے کی سطح کے تحقیقی مقالے میں بھی کیا ہے۔
اس تحقیقی مقالے کو امتیازکلثوم نے قیصر بارہوی کی مدد سے پروفیسر سجاد باقر رضوی کی نگرانی میں تحریرکیا۔ غالباً یہ 1944ء کا واقعہ تھا کہ جب ان کے والد نے پولیس کی ملازمت چھوڑ کر پیری مریدی کرنے لگے۔ ان کی چلہ کشی کے دوران ایسی حالت ہو جاتی کہ وہ آپے سے باہر ہو جاتے انہیں اپنی اور نہ دوسروں کی کوئی ہوش رہتی۔
ایک دن وہ اپنی بیوی اور نو سالہ بیٹے شکیب کے ہمراہ ریلوے لائن کے ساتھ جا رہے تھے اتنے میں گاڑی آ گئی ایسے میں دماغی دورہ کے تحت انہوں نے اپنی بیوی کو اُٹھا کر گاڑی کے آگے پھینک دیا۔ ایسے میں شکیب دم بخود اپنی ماں کے کٹے ہوئے جسم اور بہتے ہوئے خون کو دیکھ رہے تھے۔
گاڑی رکنے پر لوگ ان کی طرف جب دوڑے تو شکیب کو اُٹھا کر ان کے والد بھاگ پڑے لیکن پکڑے گئے اور بالآخر ان کے والد پاگل خانے پہنچ گئے۔ یوں ان کے والد بھارت میں پاگل خانے میں ہی رہے اور وہیں پر وفات پائی۔
نو برس کی عمر میں شکیب نے جب اپنی ماں کو ریل گاڑی کے نیچے جانے اور خون میں لت پت انہیں دیکھا اور اسی جرم میں والد کو جیل سے پاگل قرار دیے جانے پر انہیں پاگل خانے بھیجا تو اُس وقت کے کم عمر بچے کی ذہنی کیفیت کیا ہو گی؟ ان باتوں کا اندازہ لگانا اور شکیب کے درد کی گہرائی کو محسوس کرنا بقول ان کے کارِ دشوار ہو گا۔
یہ دل کا زخم ہے اک روز بھر ہی جائے گا
شگاف پر نہیں ہوتے فقط چٹانوں کے
بچپن میں ماں باپ کی شفقت سے محروم ہونے والے شکیب جلالی اپنی ماں کی درد ناک موت کے بعد اندر سے ریزہ ریزہ ٹوٹ چکے تھے۔ دل و دماغ پر خوف کے سائے، محرومی و مایوسی کے اثرات نے انہیں زندگی بھرگھیرے رکھا۔
شکیب جلالی نے اپنی خود دار طبیعت، احساس ذمہ داری اور مزاج کے باعث عملی زندگی کا آغاز راولپنڈی سے کردیا اور پہلی ملازمت کلیم ڈپارٹمنٹ راولپنڈی میں ملی پھر اپنے بہت قریبی دوست ماجد الباقری کے ساتھ مل کر پنڈی سے ایک ادبی جریدہ ’’ گونج‘‘ کے نام سے بھی جاری کیا۔
ان کے فرزندِ ارجمند اقدس رضوی اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ ’’ گونج‘‘ ماجد الباقری سے اختلافات پر بند ہُوا تو لاہور چلے آئے اور اپنے بہنوئی کے ادارے جاوید پبلی کیشن میں ملازمت اختیارکی اور وہاں سے دور سالوں’’ شاہکار ‘‘ اور ’’وحدت‘‘ کی ادارت سنبھال لی پھر 1958 ء میں رسالہ ’’جاوید‘‘ کی ادارت سنبھالی مگر معاشی مسائل سے نبٹنے کے لیے رات کو روزنامہ ’’مغربی پاکستان‘‘ میں اسسٹنٹ ایڈیٹر کے فرائض انجام دیے۔
اختلافات پر بہنوئی کا ادارہ چھوڑا اور پوسٹ آفس میں ملازمت اختیار کی جبکہ روزنامہ مشرق میں بھی جز وقتی کام کرتے رہے۔ ان کی آخری ملازمت 1958 ء سے تھل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی میں شعبہ تعلقات عامہ کی تھی پہلے جوہر آباد اور 1962 ء سے بھکر میں تعینات رہے۔‘‘
شہزاد احمد، شکیب کے اُن دوستوں میں سے تھے جنہوں نے شکیب کو بہت قریب سے نہ صرف دیکھا بلکہ ان کے ساتھ کئی برس تک کام بھی کیا۔ تب شہزاد احمد ٹی ڈی اے جوہر آباد میں ملازم تھے تو انہوں نے شکیب کو اپنے پاس بطور مترجم ملازم رکھ لیا۔
جاوید لمیٹڈ لاہورکی شاخ سیالکوٹ میں جب قائم ہوئی تو اس کے انچارج بھی شکیب جلالی مقرر ہوئے تو انہوں نے سیالکوٹ سے ایک ادبی پرچے کا اجرا کیا جس کا نام ’’ عجیب‘‘ تجویزکیا گیا۔ سیالکوٹ میں انہیں جو حلقہ احباب میسر آئے اُن میں خاص طور پر سرور مجاز، تصورکرتپوری، شکیل رضا اور عاصم صہبائی ودیگر کے نام سرفہرست ہیں۔
شکیب جلالی نے ٹی ڈی اے میں جب ملازمت اختیارکی تو اُس وقت ان کا کلام ملک کے معروف ادبی جرائد میں شائع ہو رہا تھا جن میں احمد ندیم قاسمی کا ’’ فنون‘‘ ، ڈاکٹر وزیر آغا کا ’’ اوراق ‘‘ اور ’’ لیل ونہار ‘‘ جیسے جرائد شامل تھے۔
جدید اُردو غزل کے چند بڑے ناموں میں سے ایک نام شکیب جلالی کا بھی تھا۔ جن نے غزل کی ڈوبتی سانسوں کو ایک نئی تازگی عطا کی۔ شکیب صرف شعر بناتے نہیں بلکہ اس کے اندر اپنی روح بھی پھونکتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے ہر شعر میں پروازکرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے میں ان کی ایک غزل کے چند اشعار ملاحظہ فرمائے:
ہم جنس اگر ملے نہ کوئی آسمان پر
بہتر ہے خاک ڈالیے ایسی اُڑان پر
آ کرگرا تھا ایک پرندہ لہو میں تر
تصویر اپنی چھوڑ گیا ہے چٹان پر
اس طرح کے لازوال اشعار شکیب جلالی کی شاعری میں جابجا ہمیں ملتے ہیں۔ اُن کی شاعری نئے اور ان دیکھے جہانوں کا سفر ہے، جس میں غیر محسوس طریقے سے انسان کی محرومیوں، معاشرتی تضاد،کائنات، انسان اور خدا کے ازلی بندھن اور مسائل کی گتھیاں سلجھاتی اور سوال اٹھاتی ہوئی شاعری ہے۔
بعض شاعر شکیب کی شہرت اور مقبولیت سے حسد کرنے لگے جس پر شکیب کے نام پر خود عامیانہ سی غزلیں، نظمیں لکھ کر مختلف جرائد کو بجھوانا شروع کر دی۔ جب وہ نگارشات شائع ہوتی تو پرچے لوگوں کو دکھاتے کہ یہ ہے شکیب جسے لوگوں نے سر پر بٹھا رکھا ہے ایسا کلام وافر مقدر میں چھپا۔ جس سے شکیب کو ذہنی طور پر ٹارچرکیا گیا۔ جیسا کہ شکیب پہلے سے ہی والدہ اور پھر والد کے انتقال پر زیادہ ذہنی خلفشار کا شکار تھے اُوپر سے اُن دوستوں کی مہربانیوں نے اسے مزید پریشان کر رکھا تھا۔ جس کے باعث 21 نومبر 1966 ء کو سرگودھا کی سرزمین میں آسودہ خاک ہوئے۔
ان کی وفات کے حوالے سے آج تک بحث ومباحثہ جاری ہے کہ شکیب جلالی نے خود کشی کی، لیکن کچھ دوستوں کا کہنا ہے کہ شکیب بالکل نارمل ہو چکے تھے۔ مینٹل اسپتال والوں نے ایک کاغذ پر لکھ دیا تھا کہ اب مریض پوری طرح سے ٹھیک ہے۔ اسی پُرزے کو وہ دوستوں کو دکھاتے بھی رہے۔
اس حوالے سے ڈاکٹر وزیر آغا کی دلیل دیکھے کہ ’’ شکیب جب مجھ سے ملنے گھر آیا تو اُس نے اچانک اپنی جیب سے کاغذ کا ایک پُرزہ نکال کر میرے سامنے رکھ دیا اور ایک مجروح سی ہنسی کے ساتھ کہا ’’ یہ میری زندگی کا حاصل ہے‘‘ میں نے دیکھا کہ ذہنی امراض کے اسپتال کا سرٹیفکیٹ تھا جس میں لکھا تھا کہ مریض صحت یاب ہو کر واپس جا رہا ہے، بولا کہ ’’ یہ بات اب میرے اعمال نامہ میں درج ہے کہ میں اتنا عرصہ پاگل خانے میں رہا۔‘‘
ناصر کاظمی، منیر نیازی و دیگر شعراء کے ہوتے کسی نوجوان کا یوں غزل کے میدان میں نام پیدا کرنا انتہائی مشکل ہی نہیں بلکہ جان جوکھوں میں ڈالنے کے مترادف تھا۔ مگر یہ کام شکیب جلالی نے اُردو غزل میں وہ کارہائے نمایاں انجام دیے کہ سب کے سب حیرت ہی میں پڑ گئے جس پر احمد ندیم قاسمی کو کہنا پڑا کہ ’’ شکیب اگر اُردو غزل نہ کہتا تو عین ممکن تھا کہ اُردو غزل دو سال پیچھے چلی جاتی۔‘‘
نو آموز شعراء کے لیے قاسمی صاحب کی یہ بات بہت معنی رکھتی ہے۔ شکیب صاحب پر پی ایچ ڈی کی سطح کا تحقیقی کام ڈاکٹر تیمور حسن تیمور نے کیا جبکہ ایم فل کا تحقیقی مقالہ محمد اعجاز جی سی یونیورسٹی سے کر رہے ہیں۔ شکیب پر بہت کچھ لکھنا ابھی باقی ہے مگر میں اسی پر اکتفا کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ وہ زندگی کی تلخ حقیقتوں کا سامنا کرنا خوب جانتے تھے اور ان کے اشعار میں جینے کی اُمنگ نظر آتی ہے جن میں دور دور تک موت کا شائبہ دکھائی نہیں دیتا۔
ان کی وفات کے بعد ان کا شعری مجموعہ ’’ روشنی اے روشنی ‘‘ کے نام سے شائع ہُوا جس کی اشاعت احمد ندیم قاسمی نے اپنے ادارہ مکتبہ فنون کے زیر اہتمام 1972 ء میں کروائی، جبکہ بعدازاں اسے الحمد پبلی کیشن نے چھاپا۔ آخر میں ان کے مجموعہ کلام سے کچھ اشعار پیش کرتا اجازت چاہوں گا۔
فصیل جسم پہ تازہ لہو کے چھینٹے ہیں
حدود وقت سے آگے نکل گیا ہے کوئی
……٭……
کبھی ہمارے نقوشِ قدم کو ترسیں گے
وہی جو آج ستارے ہیں آسمانوں کے
……٭……
شکیبؔ اپنے تعارف کے لیے یہ بات کافی ہے
ہم اس سے بچ کے چلتے ہیں جو رستہ عام ہو جائے
[ad_2]
Source link