[ad_1]
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا دعویٰ کرنے والے ملک بھارت کے انتخابات کا مرحلہ انتہائی طویل ہوتا ہے، آج کل وہاں پھر انتخابی موسم چل رہا ہے، جس کا دورانیہ 19 اپریل سے یکم جون پر مشتمل ہے، جس کے نتائج کا اعلان 4 جون کو ہوگا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ کہا جا رہا ہے کہ نریندر مودی تیسری بار بھارت کے وزیراعظم منتخب ہونے جا رہے ہیں، غالبا اسی لیے ان کے بیانات کچھ عجیب نوعیت کے آ رہے ہیں، جسے حال ہی میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’’ میں پیدا نہیں ہوا بلکہ بھیجا گیا ہوں‘‘ مودی کے اپنے بارے میں اس خیال کو لوگوں نے مضحکہ خیز اور خود پسندی کی انتہا قرار دیا۔
بہرحال اس بیان کے بعد سے مجھے یہ تسلی ہوئی کہ خود پسندی برصغیرکی نفسیاتی بیماری ہے، جو شاید لاعلاج ہے، پاکستان بھی 2018 سے لے کر تاحال ایک خود پسند کو جھیل رہا ہے جبکہ بھارت کو یہ جھیلتے ہوئے کافی عرصہ ہوگیا ہے۔
بھارتی الیکشن 2024 کو سمجھنے کے لیے کچھ ماضی کا ذکرکریں تو یہ صورتحال سامنے آتی ہے کہ 2019 کے انتخابات میں بی جے پی (یعنی نریندر مودی کی جماعت) نے 303 نشستیں جیتی تھیں جبکہ ان کے انتخابی اتحاد، نیشنل ڈیموکریٹک الائنس، نے مجموعی طور پر 352 سیٹیں حاصل کی تھیں۔
2024 کے الیکشن میں بی جے پی کو بھی سب سے بڑا چیلنج سیاسی جماعتوں کے ایک اتحاد سے ہے جس کی قیادت بھارت کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت انڈین نیشنل کانگریس کر رہی ہے، جس کا نام ’’ انڈین نیشنل ڈویلیپمنٹل انکلوسیو الائنس‘‘ ہے، جس میں تقریبا 26 جماعتیں شامل ہیں، اس بی جے پی مخالف اتحاد میں شامل اہم سیاست دانوں میں کانگریس کے صدر ملیکارجن کھارگے، راہول گاندھی اور ان کی بہن پریانکا گاندھی ہیں جن کے والد راجیو گاندھی ماضی میں وزیر اعظم رہے ہیں۔
دلی میں برسراقتدار عام آدمی پارٹی بھی اس اپوزیشن اتحاد کا حصہ ہے جبکہ کئی اہم علاقائی جماعتیں بھی اس کا حصہ ہیں، حالیہ دنوں میں عام آدمی پارٹی کے تین رہنما کرپشن کے الزامات پرگرفتار ہیں۔
الیکشن کے قریب آتے ہی نریندر مودی نے متعدد فلاحی منصوبوں کا آغاز کیا، جن میں 80 کروڑ بھارتی شہریوں کو مفت اناج کی فراہمی اورکم آمدن طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین کو ماہانہ 1250 روپے کا وظیفہ شامل ہیں، دوسری جانب بی جے پی مخالف اتحاد کا کہنا ہے کہ مودی نے ملک کی فلاح کے لیے کوئی کام نہیں کیا ہے، نوجوان بے روزگار ہیں، اس اتحاد کا کہنا ہے کہ بی جے پی کی حکومت نے جو سرکاری 30 لاکھ نوکریاں دینے کا وعدہ کیا تھا وہ بھی وفا نہیں ہوا۔
بھارت کی آبادی ایک ارب 40 کروڑ پر مشتمل ہے،جن میں سے 90 کروڑ 69 لاکھ شہری ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں، حالیہ انتخابات میں بھارت میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا استعمال کیا جائے گا، جن میں شہریوں کے پاس امیدواروں کو چننے کے ساتھ ساتھ یہ سہولت بھی ہوگی کہ وہ کسی کو بھی منتخب نہیں کرنا چاہتے۔
جیسے پاکستان میں اراکین قومی اسمبلی وزیراعظم منتخب کرتے ہیں ایسے بھارت میں لوک سبھا کے اراکین ملک کے وزیر اعظم کو منتخب کرتے ہیں۔ دور جدید کے تقاضے کے تحت جہاں انتخابی صورتحال ماضی کے بانسبت سہل ہے مگر آرٹیفیشل انٹیلی جینس اور ڈیپ فیک ٹیکنالوجی نے بھارت کے انتخابی عمل کو بڑی حد تک متاثر کیا ہوا ہے، بھارت میں اسی کروڑ لوگوں کی انٹرنیٹ پر رسائی ہے، جس کی وجہ فیک نیوزکا ان پر اثر انداز ہونا آسان ہوگیا ہے، آئے دن مضحکہ خیز جعلی ویڈیوز عوام کی سوچ کو بدلنے اور الیکشنز سے اکتاہٹ کا سبب بن رہی ہیں۔
قوم پرستی اور ہندو ازم کے تناظر میں بھارتی مسلمانوں کو اپنی شناخت اور تعلق کے بارے میں سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے،جس کی وجہ سے معاشرے میں ان کی اپنی پہچان گم ہو رہی ہے۔ یہ تاثر یقین میں بدل چکا ہے کہ بھارت صرف بنیاد پرست ہندوئوں کا مرکز ہے۔
حالیہ انتخابی تناظر میں سات مرحلوں پر مشتمل لوک سبھا انتخابات جاری ہیں، جس میں مسلمان امیدواروں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے، بھارت کی تمام سیاسی جماعتوں کے مسلمانوں کے خلاف ہتھکنڈوں، ان کے کردار اور چہرے کو بری طرح بے نقاب کر دیا ہے، بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنے 400 امیدواروں میں صرف دو مسلمانوں کو ٹکٹ دیا ہے، جس میں سے ایک کا نام عبد السلام ہے، جن کی عمر 71 سال ہے، انھیں کیرالہ کے مسلم اکثریتی حلقے ملاپورم سے کھڑا کیا گیا ہے، جہاں سے بی جے پی سیٹ نکال ہی نہیں سکتی ہے، اس کے بارے میں بی جے پی کو باخوبی اندازہ ہے۔
کانگریس پارٹی نے جھاڑکھنڈ اور گجرات سمیت دس بڑی ریاستوں میں ایک بھی مسلم امیدوارکھڑا نہیں کیا ہے، اگرچہ کانگریس نے مغربی بنگال میں مسلمانوں کو سب سے زیادہ ٹکٹ دیے ہیں، لیکن یہاں سخت مقابلے کی وجہ سے کسی مسلم امیدوارکے لیے جیتنا آسان نہیں۔ لوک سبھا کی 543 نشستوں میں سے 65 ایسی ہیں جہاں مسلمانوں کی آبادی 30 سے 80 فی صد تک ہے۔ یہ حلقے اترپردیش، آسام، بہار،کیرالہ، جموں وکشمیر، مغربی بنگال اور تیلنگانہ وغیرہ میں ہیں۔ جب کہ 35تا40 سیٹیں ایسی ہیں جن پر مسلمانوں کی قابلِ لحاظ آبادی ہے۔
کانگریس نے صرف کورم پورا کرنے کے لیے کمزور سیٹوں پر مسلمانوں کو پارٹی ٹکٹ دیا ہے۔ ’’ پیو ریسرچ‘‘ کے مطابق 2020ء میں بھارت میں مسلمانوں کی آبادی تقریبا 15 فیصد تھی اور آبادی کے تناسب سے پارلیمنٹ کے ایوان زیریں لوک سبھا میں مسلمانوں کو82 کے قریب نشستیں دی جانی چاہیں۔ بھارتی آئین کے دیباچے میں موجود سیاسی انصاف کے تحت پارلیمنٹ کی 25 فیصد (131) نشستیں دلتوں اور قبائلیوں کے لیے مخصوص ہیں۔
’’الجزیرہ‘‘ کی رپورٹ کے مطابق بی جے پی حکومت نے بھارت میں مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کرتے ہوئے ان کے مکانات اور مذہبی مقامات مسمارکیے اور روزگارکے حصول کو بھی مشکل بنا دیا ہے۔ الجزیرہ کی رپورٹ میں یہ انکشاف سامنے آیا ہے کہ انتخابات میں بھارتی مسلمان شدید خوف و ہراس کا شکار ہیں۔
بھارتی مسلمانوں کا کہنا ہے ’’ہم مسلسل ڈرے ہوئے رہتے ہیں‘‘، مسلمانوں کا کہنا ہے کہ نفرت اور انتہا پسندی کی سیاست ملک میں غالب ہوتی ہوئی نظر آتی ہے، ’’ اگر دوبارہ بی جے پی حکومت اقتدار میں آ گئی تو مسلمانوں کے لیے بہت مشکل ہو جائے گی۔
[ad_2]
Source link