[ad_1]
چین کا سب سے بڑا شہر شنگھائی ہے جس کی آبادی تین کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ اس کا شمار ملک کے امیر شہروں میں ہوتا ہے۔ اب دنیا کے امیر ترین شہروں پر ایک نظر ڈال لی جائے۔
تمام تر معاشی مسائل کے باوجود اس وقت امریکا کا شہر نیویارک اس حوالے سے سر فہرست ہے۔ اس کے بعد درجہ بندی میں ٹوکیو، سنگاپور، لندن، لاس اینجلس، پیرس، سڈنی، ہانگ کانگ اور بیجنگ کے نام آتے ہیں۔2024 کی رپورٹ کے مطابق دنیا کے سب سے زیادہ ارب پتی (ڈالروں میں) چین میں رہتے ہیں جن کی تعداد 814 ہے۔
چین کے بعد امریکا کا نام آتا ہے جہاں 800 ارب پتی ہیں۔ اس درجہ بندی میں پچھلے دس سالوں میں حیرت انگیز طور پر بھارت نے تیسرا مقام حاصل کیا ہے جہاں ارب پتیوں کی تعداد 271 تک پہنچ چکی ہے۔ کیا ہمیں غور نہیں کرنا چاہیے کہ چار دہانی قبل تک ہم بھارت کے برابر یا اس سے بہتر تھے اور اب وہ کہاں اور ہم کہاں ہیں؟
بات چین کی ہو رہی ہے تو یہ بھی جان لینا چاہیے کہ چین ہم سے ایک سال بعد آزاد ہوا تھا اور ہم سے کافی پیچھے تھا، اب وہ معاشی طور پر دنیا کی دوسری بڑی طاقت ہے اور ہندوستان چوتھی بڑی معیشت بن چکا ہے۔ چین کا جغرافیائی محل وقوع بھی بڑا منفرد ہے، اس کی سرحدیں ایک دو نہیں بلکہ چودہ ملکوں سے ملتی ہیں۔
سوائے بھارت کے اس کے تعلقات تمام پڑوسیوں سے اچھے ہیں، چین نے گزشتہ برسوں کے دوران کمال دانش کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارت سے تجارتی تعلقات کو نئی بلندیوں تک پہنچا دیا ہے اور دونوں ملکوں کی دو طرفہ تجارت 130 ارب ڈالر سے تجاوزکرچکی ہے۔ اس حوالے سے ہم چین سے یہ سیکھ سکتے ہیں کہ اختلافات اور تنازعات برقرار رکھتے ہوئے معاشی فائدہ کس طرح اٹھایا جاتا ہے۔
یہ امر ضروری ہے کہ کسی بھی ملک کا آئین سماجی اور معاشی ترقی کے تقاضوں کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ چین کا پہلا آئین 1954میں نافذ ہوا تھا اس کے بعد1975اور1978کے آئین آئے لیکن تیز رفتاری سے بدلتی ہوئی سیاسی اور اقتصادی دنیا میں ڈنگ ژیاؤ پنگ نے نئے چین کا کردار متعین کیا۔
1982میں چین کا موجودہ آئین نافذ ہوا جس نے چین کے زمین آسمان بدل دیے، یوں توکمیونسٹ پارٹی آف چائنا کی پندرہویں قومی کانگریس 1997میں ہوئی لیکن اس سے کہیں زیادہ اہمیت چودھویں کانگریس کو حاصل ہے جو 1992میں منعقد ہوئی اور جس میں چین کے معروضی حالات کے تحت اصلاحات اقتصادی معاملات اور خارجہ تعلقات میں کھلے پن کی پالیسی کو اختیار کیا گیا، اسّی کی دہائی سے چین میں’’ خصوصی اقتصادی علاقے‘‘ قائم ہونے لگے۔
وہ امریکا جو ستر کی ابتدا میں چین کا دشمن جانی تصور ہوتا ہے اسی امریکا اور اس کے اتحادی یورپ کے ملکوں کی ملٹی نیشنل اور ٹرائس نیشنل کمپنیوں کے چین میں پھریرے اڑتے پھر رہیں۔ کوکا کولا کا اشتہار صرف سڑکوں، دیواروں، اخباروں اور رسالوں میں ہی نظر نہیں آتا بلکہ چینی ریلوں کی نشستوں پر لٹھے کے جو غلاف چڑھے ہوتے ہیں ان پر بھی کوکا کولا کی بوتل اپنی چھب دکھاتی ہے۔
بیجنگ، شنگھائی، زیان اور سوچوکی کسی بھی بارونق شاہرا ہ پر نکل جائیں میکڈونلڈ، پیزا ہٹ اورکینٹکی فرائیڈ چکن آپ کی لذت کام و دہن کے لیے حاضر ہیں اور چین کی نوجوان نسل مائیکل جیکسن اور میڈونا کے گانوں پر وجد کرتی ہوئی ان سے لطف اندوز ہورہی ہے۔
’’ ٹائی ٹینک‘‘ فلم چین کے سنیما گھروں میں دکھائی گئی تو پہلے ہفتے میں اس نے آمدنی کے سارے اگلے پچھلے ریکارڈ توڑ دیے، اس وقت بیجنگ اور شنگھائی کی سڑکوں پر آپ کو متعدد لڑکے اور لڑکیاں ٹائی ٹینک کی شرٹ میں گھومتے ہوئے نظر آئیں گے یورپ و امریکا کا وہ سامان آرائش جو ڈوڈی الفائد کے باپ کے خریدے ہوئے ’’ہیروڈز‘‘ اسٹور لندن میں نظر آتا ہے وہی سامان اب چین کے تمام بڑے شہروں میں دستیاب ہے، اے واں’ لسینسی‘ کوسے کے علاوہ فرانس ‘ انگلینڈ اور امریکا کے مشہور ترین فیشن ڈیزائنرز کے لباس ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں۔ خوشحالی شہروں میں رہنے والے چینی مردوں اور عورتوں کے چہرے سے جھلک رہی ہے۔
قیمتی لباس، موبائل فون اور شاندار گاڑیاں چین میں ایک مضبوط متوسط طبقے کا پتہ دے رہی ہیں ترقی، خوشحالی اور جدت کے دروازے کے سامنے انگریزی زبان ’’ کھل جا سم سم‘‘ کے طلسماتی جملے کی حیثیت رکھتی ہے انگریزی زبان کا سیکھنا اور اس کا جاننا چین کی نئی نسل کے لیے اسٹیٹس سمبل بن گیا ہے۔
کھلے پن کی پالیسی نے حکومت کو بھی مجبورکردیا ہے کہ وہ ٹی وی کے تمام چینلوں پر روزانہ انگریزی سکھانے کے پروگرام نشر کرنے تاکہ یورپ و امریکا سے جو سرمایہ کار اور سیاح چین کا رخ کر رہے ہیں انھیں انگریزی کے مترجم فراہم کیے جاسکیں۔
اس وقت بیجنگ اور چین کے دوسرے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں بلند و بالا ہوٹل بلامبالغہ سیکڑوں کی تعداد میں کھل چکے ہیں اور سیکڑوں کی تعداد میں زیر تعمیر ہیں، یہ ہوٹل ظاہر ہے کہ سرمایہ کاروں اور سیاحوں کے لیے ہیں چنانچہ ہوٹلوں اور ریستورانوں میں انگریزی جاننے والے کارکنوں کی مانگ پہلے کی بہ نسبت ہزار گنا ہوچکی ہے۔
وہ چین جس کی خواتین اور مرد نیلے رنگ کے کھردرے کپڑے سے بنا ہوا مائوکوٹ اور پتلون پہنتے تھے وہ دیہاتوں میں پائے جاتے ہیں، شہروں کی غالب اکثریت جو متوسط اور اعلیٰ متوسط طبقے پر مشتمل ہے نہایت خوش پوش ہوچکی ہے جینز اور ٹی شرٹ پہننے والوں سے قطع نظر ہر مرد سوٹ میں نظر آتا ہے اور کسی کی بھی ٹائی کی گرہ ڈھیلی نہیں ہوتی فربہ اندام اور سادہ لباس عورتیں بھولی بسری کہانی ہوچکی ہیں۔
شہر اور بازار خوش اندام، خوش ادا اور خوش لباس لڑکیوں سے چھلک رہے ہیں، جن کی نازک کمر دیکھ کر خیال آتا ہے کہ شاید کوئی رقاصہ نگاہوں کے سامنے سے گزرگئی ہے لڑکیوں کے لباس کی تراش خراش دیدنی ہے، گریبان کا چاک اور داماں کا چاک دلفریب بھی ہے اور توبہ شکن بھی۔
چین مارکیٹ سوشل ازم کا جو منفرد تجربہ کر رہا ہے، اس کے حیرت انگیز نتائج سامنے آرہے ہیں لیکن ایک ایسے معاشی نظام میں جو مکمل طور پر ریاست کے کنٹرول میں رہا ہو اور جہاں منڈی یا بازار مسابقت اور نجی کاروبار کا کوئی وجود نہ ہو وہاں آزاد منڈی کی معیشت کو رائج کرنے سے عبوری دورکے بعض مسائل کا پیدا ہونا بھی ناگزیر ہے۔
چین کی سیاسی قیادت کی دانش مندی کی داد دی جانی چاہیے کہ جب اس نے یہ دیکھا کہ سوشلسٹ نظام معیشت کے باعث ان کا ملک اقتصادی جمود کا شکار ہوچکا ہے تو اس نے فوری طور پر منڈی کی معیشت کا نظام رائج کرنا شروع کردیا اس کام کا سہرا جدید چین کے معمار ڈنگ ژیائو پنگ کے سر جاتا ہے جو اپنا کام کرکے دنیا سے رخت سفر باندھ چکے۔ انھوں نے اگر چینی معیشت کو آزاد کرنے کے لیے انقلابی اصلاحات نہ کی ہوتیں تو آج چین کا حشر بھی سابق سوویت کی طرح ہوتا۔
چین نے جو حیرت انگیز ترقی کی ہے، اس کی مثال سامنے رکھ کر ہم بھی اپنی مشکلات پر قابو پا کر معیشت میں معجزے دکھا سکتے ہیں۔ مغرب کی ترقی کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اس کے ملکوں نے طویل عرصے تک دو تہائی دنیا کو اپنا غلام بنا کر اس کے قدرتی اور انسانی وسائل کا بھیانک استحصال کیا، انھیں مفلس و بدحال کر کے خود کو ترقی یافتہ اور خوشحال بنایا جب کہ چین نے اپنی تاریخ میں نہ کوئی ملک فتح کیا اور نہ دوسرے ملکوں پر حملہ آور ہوا اور نہ ہی کسی ملک کے داخلی معاملات میں مداخلت کی۔
چین نے ثابت کیا کہ ملکوں پر قبضہ کیے اور انھیں لوٹے بغیر بھی معجزیاتی ترقی ممکن ہے۔ چین کی مثال سے ثابت ہوا کہ نظریہ کے اختلاف کے باوجود دوستی اور خیرسگالی کے رشتے قائم استوار قائم ہو سکتے ہیں۔ چین نے ترقی پزیر ملکوں کو بتایا کہ سائنس اور جدید ٹیکنالوجی کو اپنا کر کس طرح چند دہائیوں میں دنیا کے ترقی یافتہ ترین ممالک سے آگے نکلا جا سکتا ہے۔ کیا ہمیں بھی چین کے نقش قدم پر نہیں چلنا چاہیے؟
[ad_2]
Source link