8

اجگر بابا کی جیب – ایکسپریس اردو

[ad_1]

یوں تو ایسی بہت ساری چیزیں ہیں جن سے ہمارا جنم جنماتر کا رشتہ اور واسطہ رہا ہے، مثلاً اپنا یہ وطن عزیز اور پھر اس کے بہت سارے دور ونزدیک کے عزیز، اس کے محکمے، اس کے ادارے، اہل کار اور اہل سرکار، اس کے وزیر، مشیر، معاون، افسر، لیڈر وغیرہ بلکہ سب سے زیادہ واسطہ تو ہمارا اپنی پھوٹی قسمت سے رہاہے جس کی کوئی ’’کل‘‘ کبھی سیدھی نہیں رہی اورجس نے ہمیں صابرین وشاکرین میں شامل کیا ہوا ہے۔

ملانصیرالدین کی جب شادی بلکہ کورٹ میرج ہوئی اور اس نے پہلی بار اپنی ’’ چندے کوا چندے توا ‘‘ منکوحہ کو دیکھا تو پھوٹ پھوٹ کرروئے ۔ محترمہ ابھی رونے کا سبب پوچھنے کے بارے میں سوچ رہی تھی کہ حضرت قہہ در قہہ مارکر ہنسنے لگے ۔ آخر بیگم کو اس بیک وقت ٹریجیڈی اورکامیڈی کی وجہ پوچھنا پڑی۔

حضرت نے فرمایا، رویا تو میں اس لیے کہ میری قسمت میں تم جیسی لکھی تھی لیکن پھر میں ہنسا اس لیے کہ تو مجھ سے بھی زیادہ بدقسمت نکلی جسے مجھ جیسا ملا۔ تھوڑی دیر بعد ملاجی شادی کے آفٹر شاک سے سنبھل گئے تو گویا ہوئے کہ کوئی بات نہیں کم سے کم ہمیں اس بات پر تو خوش ہونا چاہیے کہ ہم دونوں ’’جنتی ‘‘ ہیں۔ ایک اس وجہ سے کہ ہم دونوں ایک دوسرے کو بھگت کر صابرین وشاکرین میں سے ہوجائیں گے جن کے لیے جنت کا وعدہ ہے ۔ اﷲ بڑا عادل ومنصف ہے، وہ کسی کودو دو مرتبہ ’’جہنم‘‘ میں نہیں ڈالتا۔

لیکن جس خاص چیز کے ذکر کے لیے ہم نے یہ تمہید باندھی ہے، اس کا نام آج کل تو کوئی اور ہے لیکن ہمارے بچپن کے زمانے میں جب ہمارا اس سے ناطہ ہوگیا تھا اس کا نام پشاور کا خیراتی اسپتال اوراس کے اکلوتے ڈاکٹر کا نام خیراتی ڈاکٹر ہوا کرتا تھا۔ ویسے اس کے صرف نام بدلے ہیں ،کام بالکل نہیں بدلا ہے۔ اس زمانے میں جب اس کا نام خیراتی اسپتال تھا تب بھی اس کاکام مریضوں کو پشاور کے اسپتالوں کی طرف دھکا دینا تھا، جب یہ صرف دوکمروں پر مشتمل تھا اور دو ہی افراد اس کا عملہ ہوتے تھے۔ ایک ڈاکٹر اورایک کمپاونڈر ’’ اجگربابا‘‘۔

ڈاکٹر نسخہ لکھتا تھا تو مریض اسے لے کر اجگر بابا کے پاس لاتا تھا جو دوسرے ’’لمبے‘‘ کمرے میں، لمبا سفید کرتا پہنے ،اس لمبی میزکے پاس بیٹھا ہوتاتھا جس پر ایک لمبی قطار میں لمبی لمبی بوتلوں میں رنگ برنگے محلول بھرے ہوتے تھے، ہربوتل پر ایک نمبر ہوتا تھا اوریہ کل نو بوتل یا نونمبر ہوتے تھے۔

مریض اپنے ساتھ ایک خالی بوتل بھی لاتا تھا ، اجگر بابا پرچہ لے کر ان بوتلوں میں کبھی کسی ایک بوتل کامحلول، کبھی کبھی دو بوتلوں کاملاکربھی دیتا تھا لیکن بوتل مریض کے حوالے کرنے سے پہلے اس پر گوند سے کاغذ کی ایک پٹی چپکانا کبھی نہ بھولتا جو ڈوزنگ کی نشان دہی کرتی تھی۔

بوتل مریض کو دیتے وقت اجگر بابا پرہیز کا بھی بتا دیتا اور پھر ادھر ادھر دیکھ کر اوراپنی آواز کا والیوم ممکن حد تک کم کرکے کہتا، اس میں کچھ نہیں۔ میرے پاس تمہارے اس مرض کی شافی دوا موجود ہے اور پھروہ اپنے لمبے کرتے کی لمبی جیب سے گولیوں کی شیشی نکال کردکھاتا ، ساتھ ہی قیمت بھی بتادیتا جو ایک یا دو یاتین روپے سے زیادہ نہیں ہوتی تھی لیکن اس زمانے میں گندم ،جو اور مکئی کی فی من قیمت بھی اتنی ہوتی تھی ۔

ہم اکثر اپنے دادا یا والد کے ساتھ خیراتی اسپتال جاتے تھے اور اجگر بابا سے واسطہ پڑتا تھا اس وقت تو ہمیں خیال نہیں آیا تھا لیکن بعد میں یاد آیا کہ وہ ہر موقع پر ہمیں اسی ایک بوتل سے گولیاں دیتا تھا جو اس کی جیب میں سے برآمد ہوتی تھی ۔ یوں کہیے کہ اس زمانے میں پورے پبی بازار میں ’’میڈیسن‘‘ کی ایک ہی دکان تھی اور وہ دکان اجگر بابا کے لمبے کرتے کی ’’لمبی جیب ‘‘ تھی۔

زمانے نے اتنی ترقی کی ہے کہ اجگر بابا کی جیب لگ بھگ تین چارسو میڈیکل اسٹوروں میں بدل گئی جو اسپتال کے آگے پیچھے اوردائیں بائیں کھلی ہوئی ہیں اورہرہردکان میں چارپانچ ’’اجگربابا‘‘ مصروف ہیں۔ ایک ڈاکٹر اورایک اجگربابا کے دوکمروں کاخیراتی اسپتال آج کئی منزلہ عمارت کے بے شمار کمروں پر مشتمل ہے اورعملے کی تعداد اتنی زیادہ بڑھ چکی ہے کہ اگر ایک بھی مریض نہ ہو تو بھی سارا اسپتال سارے کمرے اور برآمدے پر ہجوم دکھائی دیتے ہیں۔

باہر سڑکوں تک گاڑیاں ہی گاڑیاں اورٹوپی پوش لوگ ہی نظر آتے ہیں ، مطلب یہ کہ بہت کچھ بدل چکا ہے، اگر نہیں بدلا ہے تو اجگر بابا نہیں بدلاہے یا وہ کام یعنی مریض کو پشاورکے اسپتالوں کا پتہ بتانا۔ لیکن صرف ان مریضوں کو جو واقعی بیمار ہوتے ہیں یا فوری علاج کے محتاج ہوتے ہیں، عام نارمل مریضوں کے لیے تو اسی اجگر بابا کی نسل کام پر لگی ہوئی ہے ۔ کبھی کبھی ہمیں خیال آتا ہے کہ پرانے زمانے میں واقعی بیماریاں کم تھیں یا اس لیے کم تھیں کہ اجگر بابا کم تھے اوراس کی صرف ایک جیب تھی جو اس وقت اس پورے علاقے کی ون اینڈ اونلی میڈیسن کی دکان تھی۔

اس پرانے دوکمروں اوردوافراد کے عملے پر مشتمل ’’خیراتی اسپتال ‘‘ سے لے کر موجودہ سیکڑوں کے عملے، بے شمار ماہرین اورمشینریوں پر مشتمل اسپتال میں یہ کبھی نہیں ہوا کہ کسی ’’ایمرجنسی مریض‘‘ کو والی بال کی طرح کسی اورطرف کٹ کرنے کے بجائے علاج کے لیے داخل بھی کیاگیا ہے۔

ہمارے جیسا بندہ کہ ہم نے ابتدا ہی میں بتایا ہے کہ جنم جنماتر کا ساتھ رہا ہے، یہاں ہونے والی ہرہرحرکت کاہمیں علم ہوتا ہے لیکن ہمارے علم میں کوئی ایک بھی ایسا واقعہ نہیں آیاہے کہ جب کسی نازک اورفوری علاج کے ضرورت مند مریض یا مجروح کا علاج بھی کیاگیا ہو، ایسے مریضوں کے لیے یہ اسپتال وہ دیوار ہے جس کاکام آنے والی گیند کو کک مارکر اپنے سے دور کرنا ہوتا ہے، صرف انھی مریضوں کی پذیرائی کی جاتی ہے جو اجگر بابا (یہ نام فرضی ہے) کی باقیات کے ’’کام‘‘ کے ہوتے ہیں۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں