[ad_1]
لاکھوں فرزندان توحید اس ماہ حج ادا کریں گے۔ حج ملت اسلامیہ کا ایک ایسا رکن ہے جس کی ادائیگی کی خواہش ہر مسلمان کے دل میں موجزن ہے۔ ہر صاحب استطاعت مسلمان مرد اور عورت پر زندگی میں ایک بارحج فرض ہے۔
فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے مسلمان اپنی جان، اپنا مال،اپنا وقت صرف کر کے اﷲ تعالیٰ کے حضور پیش ہوجاتا ہے ۔وقوف عرفات کو حج کا رکن اعظم یعنی سب سے بڑا رکن قرار دیا گیا ہے، اگر عازمین حج باقی تمام مناسک ادا کر لیں لیکن اگروہ نو ذوالحج کو کسی بھی وجہ سے میدان عرفات کی حدود میں نہ پہنچ سکیں تو ان کا حج ادا نہیں ہوتا۔ میدان عرفات میں مقررہ وقت میں حاضری ہو جائے تو حج مکمل ہوجاتا ہے اور مسلمان حاجی ہو جاتے ہیں۔
میدان عرفات میں دن کی روشنی میں داخل ہوتے ہیں اور غروب آفتاب کے ساتھ کُوچ کر جاتے ہیں۔ جب کہ مزدلفہ میں رات کو داخل ہوتے ہیں اور فجر کے بعد وہاں سے روانہ ہو جاتے ہیں۔ میدان عرفات میں عازمین حج جب دو سفید کپڑوں کے ٹکڑوں(احرام) میں گڑ گڑا کر اﷲ تعالیٰ سے معافی مانگتے ہیں تو بعض مفسرین اس منظر کو میدان حشر میں پیش آنے والے منظر سے تشبیہ دیتے ہیں کہ جب لوگ کفن پہنے میدان حشر میں اعمال کا حساب دے رہے ہوں گے تو منظر کچھ اسی طرح کا ہو گا۔
عرفہ کا دن مغفرت اور گناہوں سے معافی کا دن ہے۔ اﷲ تعالیٰ کے انعام و اکرام کا دن ہے۔ میدان عرفات میں حاضرین ندامت کے آنسو بہاتے ہوئے خدائے بزرگ و برتر سے مغفرت طلب کرتے ہیں۔
حج کے قدیم سفر ناموں کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ بعض اوقات توعازمین حج کو آمد رفت میں ایک سال بھی لگ جاتا تھا۔ زائرین کے قافلے جب اونٹوں کی لمبی لمبی قطاروں پر مدینہ کے سفرپر ہوتے تو طویل راستے اور موسمی اثرات سے عمر رسیدہ اور بیمارزائرین کو بڑی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا۔
ایک زمانہ تھا کہ جدہ سے مکہ کا سفر اونٹ پر تین دن اور مکہ سے مدینہ کی مسافت بارہ دن میں طے ہوتی تھی۔اب سٹرک کے راستے جدہ سے مکہ ایک گھنٹہ سے کم اور مکہ سے مدینہ کی مسافت چند گھنٹوں میں طے پا جاتی ہے۔یوں لگتا ہے کہ جس حجاز کا ذکر کتابون میں پڑھتے ہیں، وہ غائب ہو چکا ہے۔ تا ہم اس کا خاکہ حیرت انگیز طور پر اب بھی مانوس دکھائی دیتا ہے۔
ابن بطوطہ کے مطابق حج کے قافلے اونٹوں اور گھوڑوں پر سفر کرتے۔ قافلے کا ایک لیڈر یا امیر ہوتا۔ قافلے کے انتظامات کے لیے مختلف رابطہ کار اور منتظم مقرر کیے جاتے تھے۔جو خوراک دوائیں،پانی ، مشعلیں، سیکیورٹی اور رہبری کے انچارج ہوتے تھے۔بھوپال کی رانی سکندر بیگم جنھوںنے ابن بطوطہ کے سفر حج کے 539سال بعد 1864 میں حج کا سفر کیا، ان کا کہنا ہے کہ مکہ سے مدینہ کا فاصلہ بارہ دنوں میں طے ہوتا تھا۔راستے میں پانی ناپید تھا۔ ہر اونٹ پر دو حجاج سوار ہوتے تھے۔
ایک کوہان کی ایک طرف اور دوسرا کوہان کے دوسری طرف، اونٹ کے اوپر بنی ہوئی ان دونوں نشستوں یا بستروں کے اوپر ایک چھتہ نما سائبان بھی پٹ سن سے بنا ہوتا تھا۔جو دھوپ اوربارش سے بچائو کے کام آتا تھا۔ ایک بڑی رسی سے چالیس، پچاس اونٹوں کے قافلے کو اس طرح باندھا جاتا ہے کہ کوئی اونٹ قافلے سے جدا نہ ہو سکے۔اکثر اونٹوں کے گلے میں گھنٹی بندھی ہوتی ہے۔ اس گھنٹی کی آوازکو صدائے جرس کا نام دیا جاتا ہے۔
عازمین حج کا انتظام و انصرام کرنا یقینی اعتبار سے نہایت مشکل کام ہے۔ میدانِ عرفات میںاتنی بڑی تعداد میں مقررہ وقت میں لوگوں کوپہنچانے اور خورد و نوش کا انتظام کرنے کے لیے بھی خصوصی اقدامات کرنا پڑتے ہیں۔ہزارہا بسیں ، گاڑیاں اور لاکھوں پیدل افراد جب منیٰ سے عرفات اور پھر اُسی شام عرفات سے مزدلفہ کے لیے روانہ ہوتے ہیں تو انسانوں کا سمندر متحرک نظر آتا ہے۔
اتنی بڑی تعداد میں عازمین حج کی ٹرانسپورٹ کا انتظام بھی ایک بڑا امتحان ہے۔اب تو ٹرانسپورٹ کی مشکلات کو حل کرنے کے لیے خصوصی میٹرو ٹرین سروس بھی شروع ہو چکی ہے۔ یہ میٹرو ٹرین پہاڑی سرنگوں اور دشوار گزار راستے سے گزرتی ہوئی عازمین حج کو منیٰ ،عرفات اور مزدلفہ پہنچاتی ہے۔
[ad_2]
Source link