[ad_1]
یہ اکتوبر2023ء کی بات ہے، مقبوضہ جموں وکشمیر کے آئی جی پولیس، دلباغ سنگھ نے دعوی کیا ’’یہ علاقہ اب دہشت گردوں سے پاک ہو چکا اور امن کی جانب گامزن ہے۔‘‘بھارت کی سرکاری پالیسی کے تحت مقبوضہ جموں وکشمیر کے مجاہدین اور تحریک آزادی کے کارکن ’’دہشت گرد‘‘کہلاتے ہیں۔
اگلے تین دن میں جموں وکشمیر کے تین اضلاع میں مجاہدین نے مسلح کارروائیاں کر کے آئی جی کا دعوی غلط ثابت کر دکھایا۔ حقیقت یہ ہے کہ جموں وکشمیر میں پانچ لاکھ سے زیادہ بھارتی فوجیوں نے بندوق کے سہارے مصنوعی امن قائم کر رکھا ہے۔اگر آج یہ بھاری بھرکم اور جدید اسلحے سے لیس فوج رخصت ہو جائے تو جموں وکشمیر جوالا مکھی کی طرح پھٹ پڑے۔
اگست 2019ء میں مودی حکومت نے یک طرفہ طور پہ انتہا پسندانہ قدم اٹھاتے ہوئے ازروئے بھارتی آئین ریاست جموں وکشمیر کو دی گئی خصوصی حیثیت ختم کر دی تھی اور اسے دو حصوں (جموں و کشمیر اور لداخ )میں بانٹ دیا تھا۔اب بھارتی حکومت براہ راست دونوں حصوں پہ حکومت کر رہی ہے۔تب سے ریاست میں آباد مسلمان بندوقوں کے سائے تلے خوف ودہشت کے عالم میں زندگیاں گذار رہے ہیں۔
ان پہ قدم قدم پہ پہرے لگے ہیں اور سیکورٹی فورسز اور ان کی خفیہ ایجنسیوں کے کارندے تقریباً ہر مسلمان کی سرگرمیوں پہ نظر رکھتے ہیں۔اس کے باوجود بہت سے کشمیری نوجوان جہادی تنظیموں میں شامل ہو کر بھارتی حکومت کے خلاف جہاد کرنے لگتے ہیں۔
الیکشن کا ڈرامہ
بھارتی وزیراعظم ، نریندر مودی کی بھرپور کوشش ہوتی ہے کہ دنیا والوں کو دکھایا جائے، جموں وکشمیر میں حالات نارمل ہیں۔ ننانوے فیصد بھارتی میڈیا بھی طوطے کی طرح مودی کی یہی بات دہراتا ہے۔
حالیہ لوک سبھا (بھارتی قومی اسمبلی)الیکشن میں بھی زورشور سے یہ دعوی کیا گیا کہ جموں وکشمیر کے لوگوں نے بڑی تعداد میں ووٹ ڈالے۔یہ اس بات کی علامت ہے کہ جموں وکشمیر میں امن وامان قائم ہو چکا اور لوگ بھارتی حکمران طبقے کی جارحیت بھول کر روزمرہ کاموں میں مشغول ہو چکے۔
یہ درست ہے کہ تقریباً پانچ سال قبل مودی جنتا نے مسلمانان ِ جموں وکشمیر کی پشت پہ جو خنجر گھونپا تھا، اس کے گھاؤ کچھ بھر چکے لیکن وہ مٹے نہیں ہیں۔یہی وجہ ہے، آئے دن جموں وکشمیر سے خبریں آتی ہیں کہ فلاں جگہ مجاہدین ِ آزادی کے حملے سے بھارتی فوجی یا اسٹیبلشمنٹ کے پٹھو اور مسلمانوں کے غدار مارے گئے۔
یہ حملے اس امر کا ثبوت ہیں کہ جموں وکشمیر کے مسلمانوں نے بھارتی حکمران طبقے کی حکومت قبول نہیں کی اور وہ آزادی چاہتے ہیں تاکہ اپنے اسلامی اصول وقوانین کے مطابق زندگی گذار سکیں۔ابھی تو انھیں بھارتی حکومت کے غیر اسلامی اصول وقوانین بھی تسلیم کرنا پڑتے ہیں۔
لوک سبھا کے حالیہ الیکشن میں جموں وکشمیر کے لوگ اس لیے پچھلے الیکشنوں کی نسبت زیادہ تعداد میں نکلے کہ پہلے جو مقامی رہنما بھارت نواز تھے، اب وہ بھی بھارتی اسٹیبلشمنٹ پہ تنقید کرتے دکھائی دیتے ہیں۔انھوں نے انتخابی جلسوں میں مودی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا جو مسلمانان جموں وکشمیر کا تشخص ، تہذیب وثقافت، مذہب، روایات غرض سب کچھ ختم کرنے کے درپے ہیں۔
مودی جنتا کو نشانہ بنانے کے عمل ہی نے مقامی مسلمانوں کو اس امر پہ ابھارا کہ وہ دوران الیکشن گھروں سے نکلیںاور بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے مخالف امیداروں کو ووٹ ڈال اور انھیں جتوا کر دکھا دیں کہ وہ بھارتی حکمران طبقے کے دشمن ہیں۔ اور اس کے زیرسایہ قطعاً نہیں رہنا چاہتے۔
امن کا مصنوعی غلاف
1947ء میں جب ریاست جموں وکشمیر کے حقیقی حکمران، انگریز رخصت ہوئے تو ریاست میں مسلمانوں کی آبادی ’’ستر فیصد‘‘سے زائد تھی۔مگر ریاست میں انگریز کا کٹھ پتلی ہندو راجا حکومت کررہا تھا۔اسی سے سازباز کر کے بھارتی حکمران طبقے نے ریاست کے بیشتر علاقے پہ قبضہ جما لیا۔پہلے بھارتی وزیراعظم، پنڈت نہرو نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ریاست میں ریفرنڈم کرا کر عوام کی رائے معلوم کریں گے کہ وہ بھارت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا پاکستان کے ساتھ، مگر یہ استصواب رائے کبھی منعقد نہیں ہو سکا۔یوں پنڈت نہرو کی ساری اصول پسندی اور اخلاقیات خاک میں مل گئی۔
آج بھی جموں و کشمیر اور لداخ میں بھی مسلمانوں کی اکثریت ہے۔مگر مودی جنتا مختلف مذموم وگھٹیا اقدامات سے اس اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی کوششیں کرر ہی ہے۔مسلمانان جموں وکشمیر نہتے اور مجبور وبے کس ہیں۔اس بے کسی کے عالم میں بھی وہ جیسے تیسے بھارتی حکمران طبقے کی سازشوں اور حملوں کا بھرپور مقابلہ کر رہے ہیں۔
وہ بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے اس تاثر کو زائل کرنے کے لیے ہر ممکن اقدام کرتے ہیں کہ جموں وکشمیر میں امن وامان ہے۔حالانکہ یہ ایک مصنوعی غلاف ہے جو مودی جنتا نے اپنے میڈیا کی مدد سے تخلیق کرر کھا ہے۔چونکہ عالمی قوتیں، امریکا وبرطانیہ کی حکومتیں بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے قریب ہیں، اس لیے وہ بھی مسلمانان جموں وکشمیر پہ ہوتے ظلم وستم پہ آواز بلند نہیں کرتیں۔بھارتی سیکورٹی فورسز کے مظالم روکنے کے لیے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا جاتا۔
دعویٰ جھوٹ نکلا
بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے مطابق ریاست کی خصوصی حیثیت “ترقی کی راہ میں رکاوٹ” تھی اور اس نے جموں وکشمیر میں ’’علیحدگی پسندی، اقربا پروری اور بدعنوانی‘‘ کو فروغ دیا۔وہ اب اپنے مقرر کردہ لیفٹیننٹ گورنرز کے ذریعے دونوں حصوں کو براہ راست مرکزی حکومت کے ذریعے کنٹرول کر رہی ہے۔
مودی جنتا نے تب دعوی کیا تھا کہ اس کے فیصلے، جن میں سے کوئی بھی مقامی آبادی یا سیاسی نمائندوں کی مشاورت سے نہیں لیا گیا، تین دہائیوں کی شورش کے بعد خطے میں “امن اور خوشحالی” لائیں گے۔یہ دعوی مگر ریاستی مسلمانوں ہی نہیں ہندوؤں ، عیسائیوں اور بدھیوں کے لیے بھی ایک دھوکا اور سراب ثابت ہوا۔
وجہ یہ ہے کہ بھارت میں برسراقتدار بی جے پی پارٹی دراصل ایسی سرکاری پالیسیاں بناتی ہیں جن سے ایلیٹ طبقے کو زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل ہو سکیں۔اس ایلیٹ طبقے میں جرنیل، سرکاری افسر، جج، سیاست داں، صنعت کار، کاروباری، مذہبی رہنما اور تاجر شامل ہیں۔ان پالیسیوں سے عوام کو واجبی فوائد ہی ملتے ہیں۔
یہی وجہ ہے ، پچھلے دس سال کے دوران بھارت کا ایلیٹ طبقہ سرکاری پالیسیوں سے فائدہ اٹھا کر امیر تر ہو چکا، جبکہ خاص طور پہ دیہی بھارت میں غربت، بے روزگاری، بیماری اور جہالت کا دور دورہ ہے۔عام بھارتیوں کو ضروریات زندگی بھی میسر نہیں اور وہ سسک سسک کر زندگیاں گذار رہے ہیں۔جموں وکشمیر میں بھی عوام کسمپرسی کے عالم میں رہ رہے ہیں اور صرف ایلیٹ طبقہ آسائشوں ومراعات سے لطف اندوز ہوتا ہے۔
عسکریت پسندی زیر زمین
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جموں وکشمیر میں ماضی کے مقابلے میں عسکریت پسندوں کی تعداد کم ہو چکی۔مگر سچ یہ ہے کہ ایک ہفتہ بھی ایسا نہیں گزرتا جس میں مجاہدین نے حملے نہ کیے ہوں یا ان کے اور سکیورٹی فورسز کے درمیان ہلاکت خیز تصادم نہ ہوا ہو۔
مسلم نوجوان نئی دہلی کی خطے پر براہ راست کنٹرول کی پالیسی سے ناراض ہیں۔ چونکہ وہ سیاسی سرگرمیوں سے اپنی فرسٹریشن دور نہیں کر پاتے، اس لیے عسکریت پسند گروپوں میں شامل ہو رہے ہیں۔گو مناسب تربیت نہ ہونے اور ہتھیاروں کی کمی کی وجہ سے نئے بھرتی ہونے والوں کو ہفتوں نہیں تو مہینوں میں شہید کر دیا جاتا ہے۔
بھارتی حکومت نے 2019 ء سے جموں وکشمیر میں اضافی فوجی یونٹ تعینات کر رکھے ہیں۔ان کی مدد سے مجاہدین کی سرگرمیوں کو زمین کے اندر گہرائی میں دھکیل دیا گیا ۔بھارتی اسٹیبلشمنٹ لیکن انھیں مکمل طور پر ختم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ علاقائی انتظامیہ کے ایک سابق وزیر، نعیم اختر کے مطابق’’ نتیجہ یہ نکلا کہ گوریلا جنگ کی ایک ایسی شکل نے جنم لیا جس میں آپ دشمن کو نظر نہیں آ سکتے”۔
جموں وکشمیر کے جنگجوؤں کی نئی نسل کا کوئی پیشگی ریکارڈ یا باغی تنظیموں سے معلوم روابط موجود نہیں – یہ حملے کرنے میں ماہر ہیں اور حملوں کے بعد تیزی سے شہری گمنامی میں گم ہو جاتے ہیں۔ ان کے پاس وہ ہائی پروفائل نہیں جو ان کے پیش رو مقامی عوام میں اور سوشل میڈیا پر بندوقیں اٹھا کر پیدا کرتے تھے۔
بھارتی اسٹیبلشمنٹ انہیں “ہائبرڈ عسکریت پسند” کہتے ہوئے دعوی کرتی ہے کہ ان ’’باغیوں‘‘ کا ایجنڈا انتہا پسندانہ ہے۔اس کی رو سے “عسکریت پسندوں کی سوچ یہ معلوم ہوتی ہے کہ جب وہ سافٹ ٹارگٹ پر جائیں گے تو ریاست کی طرف سے ردعمل غیر متناسب ہوگا … ہم لوگوں کو اٹھائیں گے، ان سے سوال کریں گے، انہیں ہراساں کریں گے، انھیں قتل بھی کیا جا سکتا ہے … اس سے لوگوں میں مزید عدم اطمینان پیدا ہوگا۔اور یہ ایسا ہی چاہتے ہیں۔‘‘
حقائق خود بولتے ہیں
حد یہ ہے کہ ماضی میں بھارتی اسٹیبلشمنٹ کا پٹھو اور سابق وزیر اعلی جموں وکشمیر، عمر عبداللہ بھی اقرار کرتا ہے کہ مودی جنتا اور بھارتی میڈیا ریاست میں مجاہدین کی سرگرمیاں کو کم سے کم نمایاں کرتا ہے۔وہ کہتا ہے’’بھارتی اسٹیبلشمنٹ ان کی موجودگی کو تسلیم نہیں کرنا چاہتی۔”لیکن حقائق خود بولتے ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ بھارتی سیکورٹی فورسز نے 2023 ء میں جموں و کشمیر میں 113 عسکریت پسندوں کو شہید کیا، ان کے 500 ساتھیوں کو گرفتار کیا اور 89 عسکریت پسند سیلوں کا پردہ فاش کیا۔ 34 بھارتی فوجی بھی مارے گئے۔
جموں وکشمیر میں کشیدگی کو 2023 ء میں چھپانا مشکل ہو گیا جب جی ٹوئنٹی کی صدارت رکھنے والی بھارتی حکومت نے خطے کے گرمائی دارالحکومت سری نگر میں بلاک کے ٹورازم ورکنگ گروپ کا اجلاس منعقد کیا۔ عام طور پر صحافیوں کو خطے کا دورہ کرنے سے منع کیا جاتا ہے۔مگر اس موقع پہ آنے والے غیر ملکی صحافیوں نے دریافت کیا کہ کشمیری خوف میں رہ رہے ہیں اور مرکزی حکومت سے ناراض ہیں۔
جب صحافیوں نے جموں و کشمیر میں سخت حفاظتی اقدامات کے بارے میں پوچھا تو انہیں مرکزی حکومت کے ایک وزیر کی طرف سے غصّے بھرا جواب ملا۔یہ بھارتی ریاست کی ناراضگی کا عمل تھا۔
کشمیر ایک “پولیس سٹیٹ”
حقیقت یہ ہے کہ جموں وکشمیر میں کی گئی آئینی تبدیلیوں نے عوامی بے چینی کو جنم دیا ہے۔ اس عوامی بے چینی کو ریاست میں تعینات بھارتی فوج نے دبا رکھا ہے۔مگر کشمیریوں کی نظر میں مودی سرکار نے کشمیر کو ایک “پولیس سٹیٹ” میں تبدیل کر دیا ہے جہاں مسلم لیڈروں کی من مانی نظربندیاں، قید اور مسلسل نگرانی نے بڑے پیمانے پر خوف کا ماحول پیدا کر دیا ہے۔ بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف عدم اطمینان بھارتی فوج کی بڑے پیمانے پر موجودگی پر تنقید سے کہیں زیادہ پھیلا ہوا ہے۔
وجہ یہ ہے کہ آرٹیکل 370 کے تحت جموں اور کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے سے پہلے ہی مقامی طور پر پیدا ہونے والے لوگوں کو زمین کی ملکیت اور سرکاری ملازمتوں پر حاصل ہونے والے خصوصی حقوق منسوخ کر دئیے گئے تھے۔
اس کے بعد مرکزی حکومت کی طرف سے نافذ کردہ قوانین کے سلسلے نے نفرت و ناراضگی کی نئی فصل بو دی ۔ نئے اراضی اور ڈومیسائل قوانین نے ملک کے دوسرے حصوں سے آنے والے ہندوستانیوں کو پہلی بار اس علاقے میں زمین خریدنے، رہائش حاصل کرنے اور سرکاری ملازمتوں کے لیے درخواست دینے کی اجازت دے ڈالی۔
بھارتی اسٹیبلشمنٹ کی تبدیلیوں نے مسلمانان ِ جموں وکشمیر میں ان خدشات کو جنم دیا ہے کہ مرکزی حکومت جو ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کے ہاتھ میں ہے، ملک کے واحد مسلم اکثریتی علاقے میں آبادیاتی تبدیلی پر زور دے رہی ہے۔ سابق وزیر،نعیم اختر بہت سے کشمیریوں کے تاثرات کا خلاصہ کرتے ہوئے کہتا ہے: “یہ ایک تہذیبی منصوبہ ہے۔بھارتی اسٹیبلشمنٹ ہمیں ہندو انڈیا کے نقشے میں ایک بے ضابطگی کے طور پر دیکھتی ہے۔‘‘
مودی سرکار نے ہمیشہ ایسے ارادوں کی تردید کی ہے۔ لیکن یہ نظریہ کہ مودی کی ہندو قوم پرست حکومت مقامی مسلمانوں کو بے اختیار کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، جموں و کشمیر کی سول سوسائٹی اور سیاسی اسٹیبلشمنٹ میں ایک عقیدہ بن چکا۔ اب زیادہ تر ریاستی سیاسی رہنما عوام کو بتاتے ہیں کہ نئی دہلی کے مقرر کردہ اعلیٰ منتظمین، بیوروکریٹس اور پولیس افسران میں سے کوئی بھی مقامی نہیں ۔ عمر عبداللہ کا کہنا ہے:”ان میں سے کتنے اکثریتی آبادی(مسلمانوں ) کی نمائندگی کرتے ہیں؟ کتنے لوگ مقامی زبان بولتے ہیں۔بات صرف کنٹرول کی حد تک نہیں رہی ، وہ (ہندو) اکثریت پسندی ہم پہ تھوپنا چاہتے ہیں۔ وہ یہ بھی نہیں چاہتے کہ مقامی افسران کو ان کی مناسب جگہ مل سکے۔”
سیاسی زندگی بھی ٹھپ
جموں و کشمیر کی مقامی سیاسی زندگی بھی ٹھپ ہے۔ آخری ریاستی انتخابات 2014 ء میں ہوئے تھے۔ نئی دہلی کی جانب سے صدر راج نافذ کرنے کے بعد منتخب حکومت کا وجود 2018 ء میں ختم ہو گیا۔ یہ ایک آئینی آلہ ہے جو ریاستی حکام کو مرکزی حکومت کے کنٹرول میں رکھتا ہے۔ 2019 ء میں کشمیریوں سے خطاب کرتے ہوئے، نئے مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے قیام کے اعلان کے دو دن بعد مودی نے وعدہ کیا: “آپ اپنے سیاسی نمائندے خود منتخب کریں گے۔
وہ آپ میں سے آئیں گے۔” لیکن پانچ سال بعد بھی ریاستی مقننہ بنانے کا وعدہ پورا نہیں ہوا۔اس دوران بھارتی اسٹیبلشمنٹ نے نئی حلقہ بندیوں کی حد بندی کی اور انتخابی فہرستوں میں ترمیم کر ڈالی لیکن ابھی تک ریاستی انتخابات نہیں کرائے ۔
بھارتی حکومت نے جموں و کشمیر میں دھمکیوں، ڈراوے، ترغیب وتحریص کے ذریعے کسی نہ کسی طرح لوک سبھا کا الیکشن کرا لیا مگر سچ یہ ہے کہ اس کی آمرانہ و ظالمانہ کارروائیوں کے نتیجے میں حقیقتاً ریاست میں سیاسی سرگرمیاں ٹھپ ہیں۔ ایک وجہ مودی حکومت کا مقامی سیاست دانوں اور میڈیا کے ساتھ انتہائی سخت سلوک ہے۔
2019 ء میں اوور ہالنگ انجام دیتے ہوئے مودی حکومت نے پورے کشمیری سیاسی طبقے کو حراست میں لے لیا تھا۔ان میں سے زیادہ تر کو اگلے سال رہا کر دیا گیا، لیکن آج بھی کچھ جیل میں ہیں۔ جن لوگوں کو رہا کیا گیا ، انہیں پولیس اکثر سیاسی کام کرنے سے روکتی ہے، جیسے عوامی میٹنگز میں شرکت نہ کرو یا سیکورٹی فورسز کی بدسلوکی کا شکار ہونے والوں کے خاندانوں سے ملاقات نہیں ہو گی۔
بھارتی اسٹیبلشمنٹ نے ریاستی صحافیوں کے خلاف بھی کریک ڈاؤن کیا ۔ انہیں معمول کے مطابق پوچھ گچھ کے لیے طلب کیا گیا۔ بیرون ملک سفر کرنے سے روکنے کے لیے نو فلائی لسٹوں پر رکھا اور انسداد دہشت گردی کے سخت قوانین کے تحت انہیں گرفتار کیا گیا۔ بعض صورتوں میں صحافیوں کے خاندان کے افراد بھی سرکاری ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
خیالات اب یکسر تبدیل ہو چکے
حیرت انگیز طور پر 2019 کی گرفتاریوں کی لہر نے نہ صرف علیحدگی پسندلیڈروں بلکہ جموں وکشمیر کے ان مسلم سیاست دانوں کو بھی نشانہ بنایا جنہیں کشمیری “بھارت نواز” کہتے ہیں۔ کیونکہ وہ جموں و کشمیر کو ہندوستانی یونین کا حصہ تسلیم کرتے اور انتخابات میں حصہ لیتے ہیں۔ زیادہ بھارت نواز سیاستدان بھی نئی دہلی کی سختی سے حیران رہ گئے۔بڑی ریاستی جماعت، پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (PDP)کے 34 سالہ رہنما ،وحید الرحمن پارا کو نئی دہلی کی حمایت پر ممکنہ وزیر اعلیٰ سمجھا جاتا تھا۔ تاہم 2020 میں اسے انسداد دہشت گردی کے قوانین کے تحت گرفتار کیا گیا۔
سترہ ماہ جیل میں رہنے کے بعد ضمانت پر رہا ہونے سے پہلے اسے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ وہ عدالت میں دہشت گردی کے الزامات کا مقابلہ کرتا رہتا ہے اور اسے علاقے سے باہر سفر کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں اس کے خیالات اب یکسر تبدیل ہو چکے۔کہتا ہے ’’اب میں نے ساری امیدیں کھو دی ہیں۔ بھارتی ریاست تمام کشمیریوں کے ساتھ ایک جیسا (ظالمانہ) سلوک کرتی ہے۔‘‘
جموں وکشمیر میں بھارت نواز مسلم سیاست دانوں نے اکثر نئی دہلی اور کشمیری عوام کے درمیان ثالث کا کردار ادا کیا۔ پارا خود خطے کے نوجوانوں میں بھارتی جمہوریت کا پرچم بردار ہوا کرتا تھا۔ بہت سے لوگوں کو انتخابات میں حصہ لینے پر آمادہ کرنے کا سہرا اس کے سر تھا۔
“ہم جمہوریت کو وقار دلوا کر عسکریت پسندی کو نظریے کے طور پر پسماندہ کرنا چاہتے تھے۔” وہ یاد کرتا ہے ’’ہم انتخابات کو تشدد کا مقابلہ کرنے کے عمل کے طور پر دیکھتے تھے‘‘۔ لیکن بھارتی اسٹیبلشمنٹ کی اصلیت دیکھ کر اس کے سارے خواب آئینے کی طرح چکنا چور ہو گئے۔ایک منتخب ریاستی حکومت کی عدم موجودگی نے کشمیریوں کے پاس اپنی شکایات کے ازالے کے لیے کوئی جگہ نہیں چھوڑی اور وفاقی حکومت سے ناراضگی کو جنم دیا۔
انتخابات کے لیے بڑھتا ہوا دباؤ
اس پس منظر میں پہلی بار جموں و کشمیر کے دو متحارب سیاسی گروہ… بھارت نواز اور علیحدگی پسند ،دونوں وعدہ شدہ ریاستی اسمبلی کے انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ انتخابات کے معاملے پر ان کی صف بندی تاریخی سے کم نہیں۔ وہ کشمیری سیاست دان جنہوں نے ہمیشہ انتخابات کا بائیکاٹ کیا، اور تمام کشمیریوں سے اس کی پیروی کرنے کا مطالبہ کرتے رہے، اب مطالبہ کر رہے ہیں کہ انتخابات کو بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے قبضے کے خلاف احتجاج کے طور پر کرایا جائے جسے وہ ہندوستانی قبضہ سمجھتے ہیں۔
وادی کشمیر کے ممتاز عالم دین اور حریت کانفرنس کے چیٔرمین،میرواعظ عمر فاروق کہتے ہیں: “ہمارے مرکزی دھارے کی جماعتوں کے ساتھ اختلافات تھے۔ہم نے ان کو ایسے لوگوں کے طور پر دیکھا جو روزمرہ کے مسائل کا نظم و نسق کر سکتے تھے لیکن انہوں نے کبھی عوام کے جذبات کی نمائندگی نہیں کی۔ تاہم اب میں سمجھتا ہوں کہ ماضی میں انتخابات کے بائیکاٹ کا مطالبہ کرنا غلط تھا‘‘۔ اب ہمیں لوگوں کو سیاسی اور پُرامن طریقے سے لڑنے کی ترغیب دینی چاہیے۔”
بھارتی اسٹیبلشمنٹ نے جموں و کشمیر میں انتخابات کی تیاری کے لیے اقدامات کیے ہیں، گو وہ خوش آئند نہیں ۔ خاص طور پر مسلمانوں کو تشویش ہے کہ بی جے پی اپنے سیاسی فائدے کے لیے نظام خراب کر رہی ہے۔ مارچ 2020 ء میں نئی دہلی نے جموں و کشمیر میں نئی حلقہ بندیوں کے لیے ایک عمل شروع کیا۔
آخر میں جموں ڈویژن میں چھ نئے حلقے شامل کیے گئے، جس کی آبادی 53 لاکھ تھی، جب کہ کشمیر ڈویژن میں صرف ایک کا اضافہ کیا گیا، جس کی آبادی 68 لاکھ ہے۔ مسلمانوں کے نزدیک اس اقدام نے اس شبے کی تصدیق کر دی کہ مرکزی حکومت کا مقصد ریاست کے غیر مسلم اکثریتی علاقوں میں نشستوں کی تعداد بڑھانا ہے، کیونکہ جموں میں ہندو اکثریتی آبادی ہے، جب کہ کشمیر وادی میں 97 فیصد مسلمان ہیں۔ بی جے پی کو امید ہے کہ جموں کے علاقے کو دی گئی عددی بھاری اکثریت اسے جموں و کشمیر میں اکثریت حاصل کرنے میں مدد دے گی۔ اور اسے کسی اتحاد پر انحصار کیے بغیر اپنے وزیر اعلیٰ کے ساتھ ریاستی حکومت بنانے میں مدد ملے گی۔
کشمیر کے مسلم سیاسی رہنماؤں نے اس اقدام کی مذمت کی ہے کہ یوں بی جے پی کی جیت کے لیے جان بوجھ کر کوشش کی گئی ہے جس کا مقصد ریاست میں پہلی بار ہندو وزیر اعلیٰ کا انتخاب کرنا ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ اور پی ڈی پی کی صدر محبوبہ مفتی نے اعلان کیا’’وہ کشمیریوں کو مزید بے اختیار کرنے کے لیے انتخابات سے پہلے ہی دھاندلی کر چکے ۔‘‘ موجودہ ریاستی جماعتوں کو کمزور کرنے کی بظاہر کوشش میں نئی دہلی نے نئی بھارت نواز تنظیموں کو بھی سہارا دیا ہے۔
یہ نئی جماعتیں روایتی جماعتوں کی صفوں سے شکار کرنے میں کسی حد تک کامیاب رہی ہیں – مثال کے طور پر، پی ڈی پی نے 2020 ء سے اب تک چالیس سے زائد سینئر ارکان کو کھو دیا ہے ۔اگرچہ وہ عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، کیونکہ بہت سے کشمیری انہیں بی جے پی کے پٹھو سمجھتے ہیں۔
جموں وکشمیر کی شورش زدہ تاریخ کے تجربہ کاروں نے خبردار کیا ہے کہ جب تک بھارتی اسٹیبلشمنٹ مسلمانوں کو سیاسی شرکت کرنے اور شہری آزادیوں کے استعمال کی اجازت نہیں دیتی، ریاست میں بدامنی اور بے چینی کا دور دورہ رہے گا۔اس تناظر میں میر واعظ عمر فاروق کا تو کہنا ہے ’’بھارتی حکمران طبقہ کشمیریوں کی اگلی نسل کو دیوار سے لگا رہا ہے‘‘۔
[ad_2]
Source link