[ad_1]
یہ برازیل کی ریاست باہیا کے ایک زرعی علاقے کا منظر ہے جہاں زمین پر درخت ندارد ہیں، محض چھوٹے چھوٹے پودے، جڑی بوٹیاں اور گھاس ہی دکھائی دے رہی ہے۔
اچانک ان کے درمیان سے زوں زوں کی آواز نکالتا ہوا ڈرون فضا میں بلند ہوا، اور 20 میٹر کی بلندی پر پہنچ کر اس نے زمین پر کسی شے کا چھڑکاؤ کرنا شروع کردیا، ساتھ ساتھ ڈرون آہستہ رفتار سے آگے بھی بڑھتا جارہا تھا۔
یہ ڈرون مورفو نامی بین الاقوامی کمپنی کی ملکیت ہے جو زمین پر زرعی بیجوں کا چھڑکاؤ کرتا ہے۔ مورفو اس علاقے میں 54 ہیکٹر (133 ایکڑ) پر بیج کاشت کرے گی جبکہ اس نے 2030 ء تک دس لاکھ ہیکٹر پر ڈرون ٹیکنالوجی کے ذریعے بیج کاشت کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے اور اسے امید ہے کہ چند برسوں میں یہ پورا رقبہ جنگلات سے ڈھک جائے گا۔
جنگلات کے رقبے میں تیزی سے ہوتی ہوئی کمی بہت سے ممالک میں ایک سنگین مسئلہ بن چکی ہے۔ مثال کے طور پر امیزون جیو ریفرنسڈ سوشا انوائرنمنٹ انفارمیشن نیٹ ورک (آر اے آئی ایس جی) کی 2020 میں شائع ہونے و الی اسٹڈی میں بتایا گیا کہ 2000 سے 2018 کے درمیان برازیل میں اسپین سے بھی بڑے رقبے پر سے جنگلات غائب ہوگئے۔
اسی طرح افغانستان میں برسوں تک جاری رہنے و الی جنگ کے جنگلات پر بھی تباہ کُن اثرات سامنے آئے۔ ورلڈ رین فوریسٹ نامی تحقیقی گروپ کے مطابق 1990 سے 2005 کے دوران افغانستان کے جنگلات کا ایک تہائی تباہ ہوگیا۔
اسی طرح کولمبیا میں خانہ جنگی اور لوگوں کی بڑی تعداد کے بے گھر ہونے کی وجہ سے کسان، گلہ بانوں کے علاوہ مسلح گروپوں نے بھی جنگلات کا رخ کیا ہے، جس کا نتیجہ وسیع رقبے پر سے درختوں کے کاٹے جانے کی صورت میں برآمد ہوا۔ 2016 میں متحارب گروپوں کے درمیان امن معاہدے کی کوششیں ناکام ہوجانے کے بعد درختوں کی کٹائی میں 44 فیصد اضافہ رپورٹ کیا گیا۔ آسٹریلیا، کیلیفورنیا اور بحیرۂ روم کے گردونواح میں جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات بھی تواتر سے پیش آتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے ایک وسیع رقبے پر سے جنگلات کا صفایا ہوگیا ہے۔
کرۂ ارض کی بقا کے لیے جنگلات کلیدی اہمیت رکھتے ہیں، جنگلات ہی گلوبل وارمنگ (موسمی تغیر) کا سدباب کرسکتے ہیں جس کی وجہ سے قدرتی آفات کی شدت بڑھتی جارہی ہے۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کے مطابق دنیا بھر میں ایک ارب افراد اپنی گزربسر کے لیے جنگلات پر انحصار کرتے ہیں۔
اقوام متحدہ نے اقوام عالم پر زور دیا ہے کہ اگر ایکوسسٹم کو تباہ ہونے سے بچانا چاہتے ہیں تو 2030 تک ایک ارب ہیکٹر رقبے پر درخت لگائے جائیں اور اس سلسلے میں ڈرون ٹیکنالوجی بے حد مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔
بیجوں سے پودوں کی پنیری بنانے اور پھر انہیں لگانے کا روایتی طریقہ موثر تو ہے مگر اس کے لیے زیادہ تعداد میں افرادی قوت اور وقت درکار ہوتا ہے۔ دوسری جانب ڈرون کے ذریعے کم وقت میں زیادہ رقبے پر بیج کاشت کیے جاسکتے ہیں۔ ان کی مدد سے خطرناک اور انسان کے لیے ناقابل رسائی جگہوں پر بھی بیج پہنچائے جاسکتے ہیں۔
مورفو کے پاس دو ڈرون ہیں جو 10 سے 30 کلوگرام تک بیج اٹھاسکتے ہیں اور یومیہ 50 ہیکٹر رقبے پر بیج کاشت کرسکتے ہیں۔ ڈرون کے ذریعے جنگلات اگانے کے اس منصوبے کو موثر بنانے کے لیے کمپنی نے اپنی تجربہ گاہ میں ایسے بیج تیار کرنے شروع کیے ہیں جن کے پُھوٹنے کی شرح 80 فیصد ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ درختوں اور پودوں کی ان اقسام پر بھی تحقیق کی جارہی ہے جو گلوبل وارمنگ کے خلاف مزاحمت رکھتی ہیں اور انسانی مدد کے بغیر نشوونما پاتی ہوں تاکہ ان اقسام کے زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جاسکیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کم وقت میں وسیع تر رقبے پر جنگلات لگانے کے ہدف کے حصول کی جانب پیشرفت میں ڈرون ٹیکنالوجی اہم کردار ادا کرسکتی ہے اور اگر ا قوام متحدہ کے مطابق 2030 تک ایک ارب ہیکٹر پر جنگلات لگانے ہیں تو بیج کاشت کرنے و الے ڈرون کے استعمال کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینا ہوگا۔
[ad_2]
Source link