[ad_1]
آئی ایم ایف نے آیندہ مالی سال کے دوران پاکستان کے تجارتی خسارے میں اضافے کی پیش گوئی کر دی ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق اگلے سال پاکستان کا تجارتی خسارہ بڑھ کر 28ارب ڈالر ہو سکتا ہے۔ جب کہ نئے مالی سال میں درآمدات کا حجم 61ارب ڈالر کے قریب رہنے کی پیشگوئی کی ہے۔ اور برآمدات 32ارب ڈالر رہنے کا تخمینہ ہے۔
پاکستانی درآمدات اور برآمدات میں یہ فرق بہت بڑا ہے۔ صرف پٹرول اور گیس پر ہم سالانہ 35ارب ڈالر خرچ کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ زرعی ملک ہونے کے باوجود تیل، دالیں دوسری زرعی اشیاء کی درآمد پر اربوں ڈالر صرف ہوتے ہیں۔ یہ خود ایک بڑا المیہ ہے۔ ہماری درآمدات برآمدات کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں۔ چیمبرز آف پاکستان اور دوسری تمام تجارتی تنظیمیں سراپا احتجاج ہیں کہ انتہائی مہنگی بجلی اور گیس کی وجہ سے پاکستانی تیار کردہ اشیاء بین الاقوامی منڈیوں میں غیر مقابلاتی ہو رہی ہیں۔
برآمدی منڈیاں ہاتھ سے نکل رہی ہیں پاکستان کو ملنے والے برآمدی آرڈرز اب دوسرے ملکوں کو مل رہے ہیں۔ جوآرڈرز ہیں ان کی وقت پر بیرون ملک فراہمی بھی ناممکن ہوتی جا رہی ہے۔ افسوس ناک صورتحال یہ ہے کہ گزشتہ 30سال میں ہماری برآمدات زوال کا شکار ہوئی ہیں۔ جب کہ بھارت اور بنگلہ دیش نے مسلسل اپنی برآمدات میں اضافہ کر کے اپنی معاشی حالت کو انتہائی مستحکم بنا لیا ہے۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ بھارت آج دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن گیا ہے۔
ایک وقت ایسا بھی تھا کہ بھارت ہم سے معاشی طور پر پیچھے تھا۔ ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے اسے سونے کی بڑی مقدار رہن رکھوانی پڑی تھی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب بھارت معاشی ترقی کے میدان میں چھلانگیں مار رہا تھا تو ہماری قیادتیں کہاں سو رہی تھیں۔ ہم اس وقت دوسرے کاموں میں مشغول تھے۔ سیاسی جوڑ توڑ اپنے عروج پر تھا۔ حکومتیں گرائی جا رہی تھیں، نئی بن رہی تھیں۔ ان سب تکلیف دہ باتوں کے باوجود آخر کار وہ خوش آیند لمحہ آگیا جب دنیا نے فلسطین کو تسلیم کرنا شروع کر دیا۔
اسپین، آئرلینڈ اور ناروے نے فلسطین کو بطور ایک آزاد ریاست تسلیم کر لیا۔ جب کہ اسرائیل نے تینوں یورپی ممالک کے اس فیصلے کی شدید مذمت کی ہے۔ آئرلینڈ کے وزیر خارجہ نے کہا کہ یورپی یونین غزہ میں اسرائیلی جنگ پر اسرائیل کے خلاف پابندیوں پر غور کر رہا ہے، اسرائیل عالمی عدالت کا فیصلہ نہیں مانتا تو وہ پابندیوں کے لیے تیار رہے۔
اس طرح فلسطین کو آزاد ریاست تسلیم کرنے والے اقوام متحدہ کے رکن ممالک کی تعداد145ہو گئی ہے۔ ناروے نے فلسطین کو تسلیم کرتے ہوئے اسے ایک تاریخی دن قرار دیا۔ جب کہ فرانس کی پارلیمنٹ نے اجلاس کے دوران فلسطینی جھنڈا لہرانے والے رکن اسمبلی کو معطل کر دیا۔ ہسپانوی وزیر اعظم نے ملکی کابینہ کے اجلاس میں کہا کہ فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنا نہ صرف ایک تاریخی انصاف کا معاملہ ہے بلکہ امن کے حصول کی اہم ضرورت بھی ہے۔
سفارتی سطح پر یہ فلسطینیوں کی بہت بڑی تاریخی کامیابی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ غزہ اور رفح میں فلسطینیوں کا قتل عام نہیں رک سکا۔ لیکن امریکا یورپ سمیت پوری دنیا کے عوام فلسطینیوں کی نسل کشی کی مذمت کر رہے ہیں۔ مغربی رائے عامہ مکمل طور پر اسرائیل کے خلاف ہو چکی ہے۔ امریکا تک جو اسرائیلی جارحیت اور دہشت گردی کا سب سے بڑا سرپرست ہے اس کے لیے بھی اسرائیل کی حمایت ایک بڑا امتحان بن چکی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ امریکی صدر جوبائیڈن بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ اب وقت آگیا ہے کہ یہ جنگ بند کی جائے۔ کچھ عرصہ پہلے ریٹائرڈ امریکی جنرل مارک ملی نے انکشاف کیا کہ دنیا میں سب سے زیادہ انسانوں کا قتل امریکا نے کیا ہے۔ جنوبی افریقہ ہو یا لاطینی امریکا کے ممالک ان کا ظالم اسرائیل کے خلاف کردار سنہری حرفوں سے ہمیشہ یادگار رہے گا۔ انھوں نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات ختم کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جب کہ اسلامی دنیا ٹک ٹک دیدم کی تصویر بنی رہی۔ کولمبیا کے صدر نے غزہ جنگ پر کہا ہے کہ نام نہاد طاقتور جمہوری ممالک غزہ پر اسرائیل کے مظالم کی مخالفت سے قاصر ہیں۔
امریکا ہو یا یورپی ممالک اسرائیلی جارحیت کی حمایت اور عسکری مالی مدد نے ان کا خون آشام چہرہ دنیا پر آشکار کر دیا جسے انھوں نے جمہوریت انسانی حقوق انسانی آزادیوں کے نقاب میں چھپایا ہوا تھا۔ یہ آج بھی جسکی لاٹھی اس کی بھینس کے ہزاروں سال پرانے اس ظالمانہ بے رحم فلسفے پر یقین رکھتے ہیں جس کے نتیجے میں کروڑہا انسانوں کو قتل کر دیا گیا۔
کروڑوں سلام ان مظلوموں پر۔ سلام ان فلسطینیوں پر جنھوں نے بے پناہ قتل و غارت ہولناک تباہی کے باوجود ایک حرف شکایت بھی زبان پر نہیں لائے۔ 1948 کے بعد اور اس سے پہلے فلسطینیوں کا قتل عام ایک طرف، دوسری طرف حماس کا اسرائیل پر حملہ ناقابل معافی ٹھہرا۔ یہ سامراجی طاقتیں غیر مشروط غلامی چاہتی ہیں۔ مزاحمت ناقابل معافی جرم۔
غزہ جنگ کی شدت ٹوٹنے والی ہے جس کا آغاز جون جولائی خاص طور پر جون کے دوسرے اور جولائی کے تیسرے ہفتے سے شروع ہو جائے گا۔
[ad_2]
Source link