[ad_1]
اب ہمارے سامنے دو معاملے ہیں۔ میاں محمد نواز شریف کا ایک بار پھر پارٹی کی قیادت سنبھالنا اور شیخ مجیب الرحمن کی محبت سے لبا لب بھرا ہوا بانی پی ٹی آئی کا ٹویٹ۔ ان دونوں واقعات کے بیچ ایک بات وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے بھی کہی ہے۔ ان تینوں واقعات نے ہمارے سیاسی منظر نامے کو دلچسپ اور کچھ مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ میاں نواز شریف مسلم لیگ ن کی قیادت سنبھال کر کیا کریں گے؟ اس سوال کا ایک سیدھا سا جواب تو یہ ہے کہ انھیں ناجائز طریقے سے پارٹی قیادت سے محروم کیا گیا تھا۔ ان انھیں ان کی امانت واپس لوٹا دی گئی ہے یعنی حق بہ حق دار رسید۔اقبال علیہ رحمہ نے ایسے ہی معاملات کے بارے میں کہہ رکھا ہے
جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے
کوئی مانے یا نہ مانے ، میاں نواز شریف کے ساتھ کچھ ایسا ہی ہوتا آرہا ہے۔ یہ درست ہو گیا لیکن آج پاکستان کی سیاست پہلے سے بڑھ کر پیچیدہ ہو چکی ہے۔ اس کا ایک سبب سیاست کے میدان میں کچھ نئے چہروں کا متعارف ہونا ہے جن میں بانی پی ٹی آئی نمایاں ترین ہیں۔ سابق کرکٹر سیاست میں آنے سے قبل مغربی جمہوریت کی مثالیں کرتے تھے اور خلافت راشدہ کے اسلامی عہد کو اپنا آئیڈیل قرار دیا کرتے تھے۔ کچھ اسی قسم کی باتیں تھیں جن کی وجہ سے وہ نوجوانوں اور ماڈرن طبقات کے علاوہ بعض مذہبی طبقات کو متاثر کرنے میں کامیاب رہے۔
یہ ان کی سیاست کا نظری پہلو تھا۔ عملی پہلو اس کے بالکل برعکس تھا۔ انھوں نے اسٹیبلشمنٹ کا کھلے بندوں سہارا لے کر اقتدار حاصل کیا اور اقتدار حاصل کرنے کے بعد وہ سب کچھ کیا جیسا جبر کی بنیاد پر حکومت کرنے والے کیا کرتے ہیں۔ انھوں نے سیاسی مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائیاں کیں۔ ان کے مالی معاملات اور طرز حکومت میں شفافیت کے سوا سب کچھ تھا۔
انھوں نے جو نئی چیز متعارف کرائی، اس کے کئی پہلو ہیں۔ انھوں نے اور ان کے پیروکاروں نے سیاسی مخالفین کی کردار کشی کی اور ایسا کرتے ہوئے اخلاق کا دامن چھوڑ دیا۔اُن کے خلاف انتقامی کارروائیاں کیں اور ایسا کرتے ہوئے سینے میں دل کی جگہ پتھر رکھ لیا۔ ان کی جاری کردہ روایت کا دوسرا پہلو قول اور فعل میں تضاد تھا۔ ان کی سیاست کا یہ پہلو اقتدار سے محرومی کے بعد زیادہ ابھر کر سامنے آیا ہے۔
اس کی سب سے نمایاں مثال یہ ہے کہ ان دنوں وہ اور ان کی جماعت اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے اب وہ اسے غدار کہنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ سیاست میں اس کی مداخلت کو اب بھی درست سمجھتے ہیں۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ وہ آج بھی حکومت کے بجائے اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔ چند ماہ قبل بانی پی ٹی آئی نے سابق آرمی چیف سے کھلے عام مطالبہ کیا تھا کہ وہ پی ڈی ایم کی حکومت کا خاتمہ کر کے انھیں اقتدار میں واپس لے آئیں۔ ایوان صدر میں ان کی جنرل باجوہ کے ساتھ بات چیت تو ابھی کل کی بات ہے۔
سیاسی جماعتیں ماضی میں بھی پیچیدہ سیاست کیا کرتی تھیں اور مخالفین کو گمراہ کرنے کے لیے پیچیدہ حکمت عملی اختیار کیا کرتی تھیں لیکن پی ٹی آئی نے اس معاملے میں دیگر سیاسی جماعتوں کو اس معاملے میں پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ یہ بالکل ممکن ہے کہ اس جماعت کا اعلانیہ مؤقف کچھ اور ہو اور پالیسی اس کے بالکل برعکس۔ سوال یہ ہے کہ کیا میاں نواز شریف ایک بالکل نئے اور مختلف ماحول میں کوئی کردار ادا کر سکیں گے؟یہ سمجھنے کے ہمیں کسی قدر ماضی میں جانا ہوگا۔
یہ بات کچھ زیادہ پرانی نہیں ہے جب میاں نواز شریف نے کہا تھا کہ میں نظریاتی ہو گیا ہوں۔ یہ وضاحت ضروری ہے کہ وہ کس قسم کے نظریاتی ہوئے تھے۔ میاں صاحب کے نظریے کو سمجھنے کے لیے وہ پس منظر سمجھنا ضروری ہے جس میں میثاق جمہوریت ہوا تھا۔ اس وقت پاکستان کی صف اوّل کی سیاسی جماعتوں نے طے کیا تھا کہ حقیقی جمہوریت کے خواب کی تعبیر کے لیے آئین کی حکمرانی نا گزیر ہے۔
اس معاہدے نے پاکستان کی سیاست کی سمت درست کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا لیکن پی ٹی آئی اور اس کے بانی کے ظہور کے بعد صورت حال بگڑ گئی۔ میاں نواز شریف کا نظریاتی ہونا ان ہی معنوں میں ہے یعنی آئین کی بحالی کے لیے جدوجہد جہاں رکی تھی، وہیں سے اسے دوبارہ شروع کرنا۔
پاکستانی جمہوریت کا سب سے کمزور پہلو اس کی سیاسی جماعتوں کا انتہائی نچلی سطح پر منظم نہ ہونا ہے۔ میاں صاحب کی اس وقت پہلی ترجیح اپنی جماعت کو منظم کرنا ہے۔ ن لیگ کا ایک اپنا کمزور پہلو پنجاب کے علاوہ دیگر تین صوبوں میں کمزور وجود ہے۔ اطلاع یہی ہے کہ پارٹی قیادت سنبھالنے کے بعد وہ ان معاملات پر توجہ دیں گے۔ اگر ایسا ہو جاتا ہے تو مسلم لیگ ن اپنی ہم عصر جماعتوں پر سبقت حاصل کر لے گی۔
اس کا ایک اور فائدہ یہ ہو گا کہ ماضی کی طرح جمہوری جدوجہد میں عوام کی شرکت میں اضافہ ہو جائے گا۔ یہ پیش رفت قومی سیاست میں بلوغت پیدا کر دے گی۔ میاں نواز شریف پارٹی کا صدر بن کر کیا کرنے جا رہے ہیں، اس سوال کا ایک جواب یہ ہے۔ اس سوال کا دوسرا جواب یہ ہے کہ حکومت اور سیاسی مناصب علیحدہ ہو جائیں گے۔ یوں حکومت کی راہ نمائی اور نگرانی دونوں کام ہو سکیں گے جو اچھی حکمرانی کے لیے ضروری ہیں۔
میاں محمد نواز شریف کے انتخاب کے موقع پر وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنے خطاب میں نہایت پر جوش انداز میں ادارہ جاتی چپقلش پر اظہار خیال کیا ہے۔ یہ بات بہت توجہ طلب ہے۔ ایک اہم موقع پر وزیر اعظم کی تقریر میں اس چپقلش کا ذکر کئی معنی رکھتا ہے۔ عام طور پر سوال کیا جاتا تھا کہ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان دکھائی دینے والی کشیدگی میں حکومت کیا کر رہی ہے؟ اس تقریر سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت اس معاملے سے غیر متعلق نہیں تھی۔ وہ اس نازک مسئلے میں اپنے انداز میں خاموشی کے ساتھ کوئی نہ کوئی کردار ادا کر رہی تھی۔ اگر ایسا تھا تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس تقریر کی نوبت کیوں آئی؟ یہ ایک نازک سوال ہے۔
پیچیدہ اور نازک معاملات کے جو پہلو عام طور پر سامنے آتے ہیں، ضروری نہیں ہے کہ ان سے سب کچھ سمجھ میں آ سکے۔ اس کا مطلب ہے کہ اس پیچیدہ معاملے پر مختلف سطحوں پر کوئی نہ کوئی سرگرمی جاری ہے ۔ توقع یہی رکھنی چاہیے کہ جلد اس کے اچھے نتائج سامنے آئیں گے۔قومی منظر نامے پر ایک ساتھ رونما ہونے والے بعض واقعات کو بانی پی ٹی آئی کے شیخ مجیب والے ٹویٹ کی روشنی میں دیکھا جا سکتا ہے۔
شیخ مجیب والی ٹویٹ کے بعد صورت حال بدل گئی ہے اور ملک کے ساتھ وفاداری کا معاملہ پیچیدہ ہو گیا ہے کیونکہ اب ملک کے ساتھ وفاداری کو اس ٹویٹ کے پس منظر میں پرکھا جائے گا۔یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی اب اپنے بانی کی ٹویٹ سے لا تعلقی کا اظہار کر رہی ہے لیکن یہ معاملہ چھچھوندر کی صورت اختیار کر چکا ہے جسے اگلنا ممکن رہا ہے اور نہ نگلنا۔
[ad_2]
Source link