9

ٹرمپ بھی معصوم اور بے گناہ ہے

[ad_1]

کہا جاتا ہے کہ سیاست کی دنیا میں کسی بھی شخص کے پرائیویٹ اور نجی معاملات کو زیر بحث نہیں لایا جاسکتا ہے۔ اس نے ماضی میں کیا کچھ کیا ہے ، کتنے ہی افیئرز چلائے ہیں، یہ اس کا نجی اور ذاتی معاملہ تصور کیا جاتا ہے۔

پاکستان جیسے دیگر ممالک میں شاید اس پر کچھ اعتراض کیا جاسکتا ہے لیکن مغربی ممالک میں تو یہ بالکل ہی برا سمجھا نہیں جاتا ہے، ہاں البتہ وہ اگرکسی بڑے عہدے پر رہتے ہوئے بھی کوئی اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتا ہے تو یہ یقیناً یہ اس کا جرم ہے اور اُسے پروسیکیوٹ کیا جاسکتا ہے۔

ایک سابق امریکی صدر کلنٹن کو اپنی سیکریٹری کے ساتھ ایسے ہی تعلقات قائم کرنے پر قانونی اور عدالتی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا اورآج ایک دوسرے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی کچھ ایسے ہی حالات کا سامنا ہے۔ اُن پر الزام یہ نہیں ہے کہ انھوں نے کیوں کسی کے ساتھ تعلقات قائم کیے بلکہ اعتراض یہ ہے کہ اپنے اِن تعلقات کو چھپانے کے لیے تم نے ایک خطیر رقم اس بدنام زمانہ خاتون کو دی تھی اُسے انھوں نے اپنے کاروباری ریکارڈ میں جعل سازی کے ساتھ دکھایا اور اسے ایک قانونی فیس ظاہرکیا۔

یہ کام انھوں نے کوئی آج نہیں کیا بلکہ اپنے صدر بننے سے قبل الیکشن مہم میں منہ بند رکھنے اور عوام سے چھپانے کی غرض سے ادا کی۔ وہ جانتے تھے کہ ہوسکتا ہے اگر یہ بات دوران الیکشن مہم عوام کو پتہ چل گئی تو شاید اُن کی مقبولیت کو نقصان پہنچ سکتا ہے، وہ اداکارہ اسٹیفنی گریگری کیلیفورڈ ہے جس کے ساتھ جناب ٹرمپ نے 2006 میں تعلقات قائم کیے تھے ۔ حالانکہ اس وقت ٹرمپ کی دوسری شادی بھی ہوچکی تھی اور اسے صرف ایک سال کا عرصہ ہی بیتا تھا۔

اس بات کی خبر سب سے پہلے وال اسٹریٹ جرنل نے 2018 میں پبلک کی تھی۔ ٹرمپ ایک عرصہ تک اپنے اِن ناجائز تعلقات کی تردید کرتے رہے لیکن 2016 میں انھوں نے اس رقم کی ادائیگی کی تصدیق ضرورکی تھی۔ یہ رقم کوئی معمولی بھی نہیں تھی ، ایک لاکھ تیس ہزار ڈالر اس شخص نے اپنی بدنامی سے بچنے کی غرض سے دی اور دیکھا جائے تو بدنامی نے آج بھی اس کا پیچھا نہیں چھوڑا۔

امریکا میں غیر قانونی اور ناجائز تعلقات رکھنا کوئی جرم بھی نہیں ہے اور اسے کوئی برا بھی نہیں سمجھا جاتا ہے لیکن اس کا جرم یہ قرار دیا جا رہا ہے کہ اس عورت کا منہ بند رکھنے کے لیے ٹرمپ نے جو رقم ادا کی تھی اُسے جعل سازی کے ذریعہ کتابچوں میں ظاہر کیا گیا تھا۔

ہمیں سمجھ نہیں آتا ہے کہ ملک کا سب سے بڑا عہدہ رکھنے والے شخص کے ذاتی کردار پر تنقید اور اعتراض کیوں نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اُسے اس کے نجی معاملات کہہ کر پردہ کیوں ڈالا جاتا ہے، اگر ایسا ہی کرنا ہے تو دنیا بعد میں شورکیوں مچاتی ہے جب وہ اقتدار سے بے دخل یا معزول کر دیا جاتا ہے۔

ہمارے یہاں جنرل یحییٰ خان کے بارے میں بھی ایسی باتیں اس وقت آشکار نہیں ہوئیں جب وہ اس ملک اور قوم پر تین سال تک مسلط رہے۔ یہ سب کچھ ان کے جانے کے بعد اخبارات میں خبروں اور سرخیوں کی زینت بننے لگا۔ مشرقی پاکستان کے علیحدہ ہونے کی اور بھی بہت سی وجوہات تھیں لیکن جنرل یحییٰ کا ایسا کردار بھی اُن وجوہات میں سے ایک تھا۔

ہمارے یہاں بھی مغربی ممالک کی طرح کسی سیاسی شخصیت کا بدکردار ہونا کوئی برائی تصور نہیں کیا جاتا ہے۔ اس نے اپنی جوانی میں کیا کچھ کیا یہ اس کا ذاتی عمل کہا جاتا ہے، حالانکہ جس کی جوانی ایسی ہی غلط کارروائیوں میں گزری ہو وہ بوڑھا ہوکر بھی اپنی حرکتوں سے شاید ہی باز آئے۔ مگر ہم آج بھی یہی کہتے ہیں کہ اس نے جو کچھ بھی کیا اس سے ہمیں کیا لینا دینا، وہ آج ہمارا ہیرو ہے۔ ٹرمپ کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے ۔

اس پر جتنی بھی پابندیاں لگیں گی وہ اتنا ہی مقبول اور مشہور ہوتا جائے گا۔ اس پرکی جانے والی عدالتی کارروائیاں اور سزائیں اسے اور بھی معصوم اور مظلوم بنانے لگیں گی اور وہ اگلے الیکشن میں ایک مضبوط حریف بن کر سامنے آسکتا ہے۔ وہ چاہے کیسی بھی حرکتیں کرتا رہے، قوم اسے اپنا ہیرو ماننے لگے گی۔

سیاست میں قید اورجیل سیاستدانوں کے لیے نعمت غیر مترقبہ ہی سمجھی جاتی ہے، ہمارے یہاں تو ہمیشہ ایسا ہی ہوا ہے۔ اپریل 2022 تک عوام اس وقت کی برسر اقتدار پارٹی سے مایوس اور بددل ہوچکے تھے، لیکن عدم اعتماد کی تحریک اور اس کے نتیجے میں بننے والی عارضی حکومت کی وجہ سے وہ پارٹی ایک بار پھر مقبول اور معروف ہوتی چلی گئی اور آج ہمارے کچھ حلقوں کے لیے وہ سر درد بن چکی ہے۔

انھیں سمجھ نہیں آرہا اس کے ساتھ کیسا معاملہ کریں۔ اُن حلقوں کو پہلے سوچنا چاہیے تھا کہ اس پارٹی کو کس نے اتنا طاقتور بنایا ہے۔2011 سے پہلے تک وہ عوام کی کوئی خاص پذیرائی حاصل نہیں کر پائی تھی۔ 1996 سے لے کر ہر الیکشن میں اسے دو تین سیٹوں سے زیادہ کامیابی نصیب نہیں ہورہی تھی، مگر 2011 میں اچانک ایسا کیا ہوگیا کہ وہ عوام کی زبردست حمایت اور پذیرائی کی حامل بن گئی۔ رفتہ رفتہ اس کے اقتدار کے لیے سارے حالات سازگار بنائے گئے۔

2018 کے الیکشن میں اسے کسی بھی طرح جتانے کے لیے RTS بھی بند کر دیا گیا مگر پھر بھی مطلوبہ تعداد میں ارکان اسمبلی نہ ملے تو آزاد ارکان کو خرید خرید کراس کی جھولی میں ڈالا گیا۔ یہ سہولت کاری آج وبال جان بن چکی ہے۔ بات یہ ہے کہ ہماری پرانی سیاسی پارٹیاں ہی اس سہولت کاری میں معاون اور مدد گار بنتی رہی ہیں۔ ایسے نئے فنکاروں کو سینیٹ میں ووٹ دے کر منتخب کروانے والی بھی یہی سیاسی پارٹیاں ہوتی ہیں، جنھیں بعد میں پتا چلتا ہے کہ اُن کے ساتھ بڑا ہاتھ ہوگیا ہے۔

دیکھا جائے تو ہمارے سیاسی عدم استحکام اور معاشی بدحالی کی ایک بڑی وجہ یہی تعفن زدہ سیاسی نظام ہے جس کے تانے بانے کوئی اور بنتا رہتا ہے اور اس کے مہرے کوئی اور لوگ بنتے رہتے ہیں۔ ہم جب تک اس سسٹم سے چھٹکارا حاصل نہیں کرلیتے ہمارے یہاں سیاسی اور جمہوری استحکام اور ترقی و خوشحالی کی ضمانت شاید ہی کوئی دے سکے۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں