8

اسرائیلی مظالم کے خلاف بیداری کی عالمی لہر

[ad_1]

نیویارک میں فلسطینیوں کے حق میں مظاہرہ کیا گیا اور مظاہرین نے بروکلین میوزیم پر دھاوا بول کر فلسطینی پرچم لہرا دیا۔ فوٹو: اے ایف پی

نیویارک میں فلسطینیوں کے حق میں مظاہرہ کیا گیا اور مظاہرین نے بروکلین میوزیم پر دھاوا بول کر فلسطینی پرچم لہرا دیا۔ فوٹو: اے ایف پی

اسرائیلی فوج کی غزہ پر بمباری سے مزید 65 فلسطینی شہید ہوگئے جب کہ لبنان پر اسرائیلی فضائی حملوں میں دو افراد جاں بحق اور پانچ زخمی ہوگئے، ادھر نیویارک میں فلسطینیوں کے حق میں مظاہرہ کیا گیا اور مظاہرین نے بروکلین میوزیم پر دھاوا بول کر فلسطینی پرچم لہرا دیا۔

اسپین نے اسرائیل کی جانب سے ان کے قونصل خانے پر عائد کی جانے والی پابندیوں کو مسترد کردیا۔ دوسری جانب چینی صدر شی جن پنگ نے چین عرب ممالک تعاون فورم کی دسویں وزارتی کانفرنس کی افتتاحی تقریب سے خطاب میں کہا ہے کہ انصاف ہمیشہ کے لیے مفقود نہیں کیا جاسکتا اور دو ریاستی حل کو من مانی سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔

چین کے صدر کا یہ بیان ایسے موقعے پر آیا ہے جب گزشتہ روز ہی اسرائیل کی قومی سلامتی کے مشیر زاچی ہنیگبی نے متنبہ کیا تھا کہ غزہ جنگ اس سال کے آخر تک جاری رہے گی اور اسرائیل حماس کے مطالبے کے مطابق جنگ ختم نہیں کرے گا۔

درحقیقت انصاف کے حامی بڑے حلقے غصے سے بھڑک اٹھے ہیں، یہاں تک کہ مغربی دنیا میں بھی۔ مسلمانوں، عربوں اور ترقی پسند رحجان رکھنے والے یہودیوں کے انتخابی لحاظ سے اہم طبقوں کے ساتھ ساتھ، یونیورسٹیاں نوجوانوں کی سیاست زدہ نسل سے فلسطین کی حامی سرگرمیوں کے لیے اہم مراکز بن گئی ہیں۔

فلسطین کے حالات کی وجہ سے ہر انصاف پسند اور زندہ ضمیر رکھنے والا شخص رنجیدہ ہے۔ بلاشبہ اہل مغرب نے فلسطینیوں، اہل غزہ کی حمایت میں جتنے مظاہرے، احتجاج، ریلیز اور گرفتاریاں، شیلنگ برداشت کرتے ہوئے اس اہم ترین ایشو کو زندہ رکھا ہے، یہ غزہ کی بہت بڑی مدد کے مترادف ہے، جس کے اپنے اثرات ہیں، ان اثرات کا اپنا دائرہ ہے، جو تاریخ کے اوراق میں نمایاں اور روشن دیکھا جاتا رہے گا۔ پیرس، نیویارک، بارسلونا، تیونس اور مانچسٹر سمیت دنیا کے مختلف شہروں میں فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے مظاہرے کیے گئے۔

اسرائیل کا وجود سراپا ناجائز ہے، یہ مکمل ظلم کا نام ہے، اسرائیل جتنے بھی ظلم کرتا آرہا ہے اور آج تک کیے ہیں، ان سب میں امریکا اس کا شریک ہے۔ اسرائیل نے رفح پر بدترین یلغار کر رکھی ہے، پہلے سے اجڑے خیمہ بستیوں میں مقیم مہاجر فلسطینیوں پر جو بم گرائے جا رہے ہیں، وہ امریکا کے فراہم کردہ ہیں۔

امریکا کے عہدیدار امریکی عوام بالخصوص امریکی یونیورسٹیز کے طلباء کی تمام تر مہم و مظاہروں کو پس پشت ڈالتے ہوئے اسرائیل کے دفاع اور فلسطینیوں کی بربادی میں پیش پیش ہیں۔ فلسطینی مزاحمت کے نتیجے میں دنیا میں بیداری، اہل غزہ کی حمایت، مدد اور عالمی سطح پر کمپئین چلی ہے۔ اسرائیل کے حامی مغربی سیاستدانوں چاہے ان کا تعلق حکمران جماعتوں سے ہو یا دوسری جماعتوں سے، ان کا جینا اور چلنا پھرنا دشوار ہو چکا ہے۔

حماس کی کارروائیوں میں مبالغہ آرائی اور بے جا اسرائیلی ہلاکتوں پر تو ایلیٹ مغربی میڈیا نے آسمان سر پر اٹھا رکھا ہوتا ہے مگر فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی رپورٹنگ پر سخت پابندی تھی، جہاں خود اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق غزہ کی تنگ پٹی میں ہزاروں معصوم بچوں اور بے گناہ عورتوں کے لقمہ اجل بن جانے کے باوجود جمہوریت اور انسانی حقوق کے نام نہاد ٹھیکیداران تو بُت بنے بیٹھے رہے، تو وہیں مغربی ملکوں کے لاکھوں عام شہری سڑکوں چوراہوں پر ’فلسطین کی آزادی‘ کے فلک شگاف نعرے بلند کر تے نکلتے رہے۔

مسلمان ملکوں میں نہیں، امریکا، فرانس، برطانیہ، بیلجیئم، اٹلی اور جرمنی میں لاکھوں کی تعداد میں شہری جمع ہوتے اور اسرائیلی مظالم پر بلا رنگ ونسل سراپا احتجاج کرتے رہے ہیں ۔ امریکا کے اندر تو ایک اور دلچسپ صورتحال اس وقت دیکھنے کو ملی جب ایک ’غیر اسلامی‘ تنظیم ’بلیک لائف میٹرز‘ کی جانب سے اسرائیلی مظالم کے خلاف احتجاج کرنے والوں کا کھل کر ساتھ دیا گیا۔ دوسری طرف دنیا بھر کے حکمران طبقات کی جانب سے ’تم ہمارے ساتھ ہو یا ہمارے خلاف‘ والا رویہ اپنایا گیا۔

چنانچہ جہاں ان ایلیٹ گروہوں کے ترجمان نشریاتی اداروں نے فلسطینیوں کے حق میں بات کرنے والے معتبر صحافیوں کو ’دہشت گردوں‘ کا حامی قرار دے کر نوکریوں سے نکالنا شروع کردیا تو وہیں ایلیٹ گروہوں کے مفادات اور اسٹیٹس کو کے نگہبان دانشوروں اور تبصرہ نگاروں نے چوک چوراہوں میں اسرائیلی مظالم پر احتجاج کرنے والوں کو ’ حماس کا حمایتی‘ کہہ کر پکارنا شروع کردیا۔ فرانس، جرمنی اور اٹلی کی حکومتوں نے اسرائیل مخالف مظاہروں پر پابندی عائد کر دی۔

جرمنی کے باب میں تو یہ رویہ قابلِ فہم ہے کہ ان کی پیٹھ پر ماضی کا بوجھ ہے، تاہم آزاد دنیا کہلائے جانے والے دیگر مغربی ممالک کے ساتھ کیا معاملہ ہوا؟ ہم نے دیکھا کہ برطانیہ جیسے جمہوری ملک میں یونیورسٹیوں سے فلسطینیوں کے حق میں آواز اٹھانے والے طلباء کو نکالے جانے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔

امریکا میں دنیا کی صفِ اوّل میں شمار ہونے والی ہاورڈ یونیورسٹی میں اسرائیلی مظالم کے خلاف 33تنظیموں نے متفقہ قرار داد پاس کی تو بڑے امریکی کاروباری اداروں نے یونیورسٹی انتظامیہ سے اس قرار داد پر دستخط کرنے والے طلباء کے نام مانگ لیے۔ امریکی صدر سمیت اہم مغربی ممالک کے سربراہوں یا ان کے نمایندوں نے اسرائیل کے دوروں کی شکل میں نیتن یاہو سے غیر مشروط یکجہتی کا مظاہرہ کیا۔

امریکی یونیورسٹیوں میں اسرائیل مخالف مظاہروں کے بعد ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ مسئلہ فلسطین پر مغربی عوام خصوصاً نوجوانوں کی سوچ بتدریج تبدیل ہورہی ہے۔ کولمبیا یونیورسٹی میں فلسطین کی حمایت میں اٹھنے والی طلبا کی تحریک کئی امریکی ریاستوں کی یونیورسٹیوں میں بغاوت کو جنم دینے کا سبب بنی ہے جو سوشل میڈیا کے سہارے بہت تیزی سے پھیلتی جارہی ہے اور لوگ اسے مغربی پوزیشن میں حقیقی تبدیلی کے آغاز کا نام دے رہے ہیں۔

احتجاج کی مہم میں اہم بڑا موڑ اس وقت سامنے آیا جب کولمبیا یونیورسٹی میں فلسطین کی حمایت میں طلبا کی تحریک نے کئی دیگر امریکی یونیورسٹیوں میں بڑی بغاوت کو جنم دیا۔ مین ہٹن میں کولمبیا یونیورسٹی کا کیمپس غزہ کی پٹی پر اسرائیلی جنگ کو مسترد کرنے والے مظاہرین کے لیے ایک اجتماع کے مقام میں تبدیل ہوچکا ہے۔

اس دھرنے کو طلبا کے احتجاج کا گہوارہ اور مرکزی نقطہ آغاز سمجھا جا رہا ہے جو غزہ پر جنگ روکنے کے لیے دباؤ کا مطالبہ کرنے کے لیے دوسری یونیورسٹیوں تک پھیل گیا۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ یونیورسٹی میں ہونے والے احتجاج میں شامل مظاہرین میں تمام قومیتوں اور مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے موجود تھے، جن میں خود یہودی بھی شامل ہیں۔ یہ یہودی مظاہرین ’ناٹ آن آور نیم‘ (ہمارے نام پر نہیں) کے نعرے لگا کر اس بات پر زور دے تھے کہ غزہ میں جاری مسلسل بمباری کو تمام یہودیوں کی حمایت حاصل نہیں ہے۔

غزہ میں جنگ کے خلاف امریکا میں طلبا کے مظاہروں میں گزشتہ ایک ہفتے کے دوران شدت اور وسعت آئی ہے، جس کے بعد اب کولمبیا اور نیویارک سمیت دیگر یونیورسٹیوں میں بھی احتجاجی کیمپ قائم کر دیے گئے ہیں۔ جیسے جیسے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں، کئی یونیورسٹیوں نے مظاہرین کو گرفتار کرنے کے لیے پولیس کو طلب کیا۔

احتجاجی طلبا غزہ میں مستقل جنگ بندی، اسرائیل کو امریکی فوجی امداد کے خاتمے، اسلحہ فراہم کرنے والوں اور جنگ سے فائدہ اٹھانے والی دیگر کمپنیوں سے یونیورسٹی کو روابط منقطع کرنے کے مطالبات کررہے ہیں۔فلسطین اور اسرائیل کا تاریخی مقدمہ اب نہ تو اسرائیل اور عرب تنازعہ رہ گیا ہے اور نہ ہی اسے اسلام اور یہودیت کے مابین محض مذہبی مخاصمت کا ایک لا متناعی سلسلہ قراردیا جا سکتا ہے۔

مغربی دنیا کہ جہاں کئی پرانی نسلیں ’سفید آدمی کے کندھوں پر بارِ ذمے داری‘کا تصور لیے پروان چڑھی تھیں،انھی معاشروں کی نئی نسل بالخصوص یونیورسٹی طلباء نے محکوم قوموں پر ظلم و جور کے نظام کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اندازہ تو یہ ہے کہ یہ تقسیم صرف مغربی معاشروں تک محدود نہیں رہی، دنیا بھر میں دکھائی دے رہی ہے، جہاں ایک طرف ایلیٹ طبقات صف آراء ہیں تو دوسری جانب یونیورسٹیوں کے طلباء سمیت عام شہری کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ وہ تقسیم ہے کہ جس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔

ایک نیا رد عمل دنیا بھر کے اُن نوجوانوں کی طرف سے دیکھنے میں آیا ہے کہ جو اس وقت بلا تفریق مذہب اور رنگ و نسل اسرائیلی مظالم کے خلاف عالمی دارالحکومتوں میں سراپا احتجاج ہیں۔ جب دنیا کا سب سے بڑا قید خانہ کہلائے جانے والی غزہ کی محدود پٹی کے غیر انسانی محاصرے کے اندر گھرے ہوئے نہتے انسانوں پر اسرائیلی بمباری جاری تھی تو ان انسانیت سوز مظالم کے خلاف آوازیں حکمران طبقات اور ایلیٹ دانشوروں کے محلات سے نہیں بلکہ امریکا اور یورپ کے شہروں کی گلیوں اور چوراہوں سے اٹھی ہے۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں