[ad_1]
پاکستان کے حکومتی اور ادارہ جاتی نظام کا ایک بڑا المیہ معاشرے میں موجود محرومی اور غربت کی سیاست ہے ۔یعنی مجموعی طور پر لوگوں کی ایک بڑی تعداد زندہ رہنے یا بہتر زندگی گزارنے کے لیے بنیادی نوعیت کی سہولیات سے محروم ہے ۔ بنیادی نوعیت کی یہ سہولیات ریاستی نظام کی طرف سے ان لوگوں کو دینا ان پر کوئی احسان نہیں بلکہ ذمے داری کے زمرے میں آتا ہے ۔
1973کے آئین کا پہلا باب بنیادی انسانی حقوق پر توجہ دلاتا ہے، جہاں کچھ ذمے داریاں اگر عوام کی ہیں تو اس سے بڑھ کر کچھ بڑی ذمے داریاں ریاست کی بھی ہیں اور اسی بنیاد کو ریاست اور شہریوں کے درمیا ن عمرانی معاہدہ کہتے ہیں ۔جب کوئی بھی ریاستی نظام معاشرے میں موجود تمام افراد کے مقابلے میں ایک طبقاتی تقسیم کا شکار ہو اور اس کی ترجیحات میں طاقت ور طبقات شامل ہوں تو غریب طبقات میں محرومی کے احساسات پیدا ہونا فطری امر ہوتا ہے ۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس )پائیڈ(کی تازہ ترین تحقیق میں ناصر اقبال اور حنا احسن کی رپورٹ میں پاکستان کی کثیر الجہتی انڈیکس میں تخمینہ غربت سمیت دیگر محرومی کے اعدادوشمار پیش کیے گئے ہیں ۔ اس رپورٹ کے مطابق ملک میں 39.5فیصد لوگ خط غربت کی بنیاد پر اپنی زندگی گزار رہے ہیں ۔ یعنی ایک انسان کو زندہ رہنے کے لیے جو بنیادی ضروریات درکار ہیں وہ اسے حاصل نہیں ۔اسی رپورٹ میں یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ ملک میں تعلیم اور صحت سمیت لوگوں کو اپنے معیار زندگی کے تناظر میں محرومی کا سامنا ہے ۔ہر فرد کو اس ملک میں تقریبا 48.03فیصد غربت یا محرومی کا سامنا ہے۔
ملک میں 40فیصد کے قریب لوگ جن کی تعداد کل آبادی کا دس سے گیارہ کروڑ بنتی ہے ، خط غربت کا شکار ہیں ۔عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر برس ایک کروڑ افراد خط غربت میں اضافہ کا سبب بن رہے ہیں ۔سب سے زیادہ غربت بلوچستان میں 70فیصد، جب کہ کے پی کے میں 48فیصد، سندھ میں 45فیصد اور پنجاب میں 30فیصد ہے ۔شہری علاقوں کے مقابلے میں دیہی علاقوں میں غربت زیادہ ہے جو تقریباً 51فیصد بنتی ہے ۔اسی طرح ملک میں 26.05فیصد رہائشی سہولیات، تعلیمی سطح پر سہولیات کا فقدان 49.04فیصد جب کہ 24.01فیصد صحت کی عدم سہولیات کا شکار ہیں ۔
یہ تصویر یقینی طور پر پاکستان کے ریاستی ، حکومتی اور ادارہ جاتی نظام سمیت فیصلہ سازی میں کلیدی حیثیت رکھنے والے افراد یااداروں کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ ہم کدھر کھڑے ہیں ۔ یہ مجموعی صورتحال پورے نظام کو ہی چیلنج کرتی ہے اور ظاہر کرتی ہے کہ ہماری پالیسیاں یا حکمت عملیاں غربت یا محرومی کی سیاست کے خاتمہ کے بجائے اس میں اضافہ کا سبب بن بنتی چلی آرہی ہیں ۔
جب ہماری پالیسیوں کی بنیاد ہی طاقت ور طبقات کی حکمرانی کے نظام سے جڑی ہوگی تو یہ جو کچھ ہو رہا ہے، اس میں کوئی حیرانی کا پہلو نہیں ہونا چاہیے ۔غربت کے خاتمہ کے نام پر بڑی امداد طاقت ور طبقات کی لوٹ مار کا حصہ بنی ہو اور کوئی کسی بھی سطح پر جوابدہ بھی نہ ہو تو منصفانہ و شفاف نظام حکمرانی کی بحث محض کاغذوں یا کتابوں تک ہی محدود رہ جاتی ہے ۔اصل میں غربت کے خاتمہ کے لیے جو غیر معمولی صورتحال کا سامنا ہمیں ہے، اس میں غیر معمولی یا سخت گیر یا کڑوے فیصلوں یا اقدامات کی بنیاد پر ایک بڑی سرجری درکار ہے ۔
اس سرجری میں طاقت ور افراد کو قابو میں لانا اور قانون کی گرفت میں لاکر محروم اور پسماندہ طبقات کے حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانا ہی ہماری سیاسی ترجیحات کا حصہ بنتی ہے مگر ہم کہیں اور پیش قدمی کررہے ہیں ۔یہ ہی وجہ ہے کہ تسلسل کے ساتھ شہریوں کا ریاستی ، حکومتی اور ادارہ جاتی نظام پر نہ صرف اعتماد ختم بلکہ ایک بڑی خلیج بھی پیدا ہورہی ہے جو خود ریاستی نظام کی بقا کے لیے بڑا خطرہ ہے ۔
معروف ماہر معاشیات اور جامعہ پنجاب میںاسکول آف اکنامکس کے سربراہ ڈاکٹر ممتاز انور چوہدری کے بقول بنیادی مسئلہ ہمارے ریاستی نظام میں تسلسل کے ساتھ جاری سیاسی عدم استحکام ہے ،اسی وجہ سے معاشی پالیسیاں یا اصلاحات کا ہونا ممکن نہیں ہورہا ۔ڈاکٹر ممتاز انور کا موقف ہے کہ مائیکرو اور میکرو معیشت پر مبنی پالیسیاں غربت کا سبب بن رہی ہیں ۔
ڈاکٹر ممتاز انور چوہدری نے بجا فرمایا کہ ہمارے پالیسی ساز کیا واقعی غیر معمولی تبدیلی کی خواہش رکھتے ہیں ؟ پچھلے 25برسوں میں عالمی دنیا سے غربت کے خاتمہ یا کمزور طبقات کی زندگی کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے جو بھی امداد ملی ہو، اس کا آڈٹ ہونا چاہیے کہ یہ رقم کہاں استعمال ہوئی ۔ کیونکہ جب تک عالمی امداد میں ہونے والی کرپشن کا کوئی احتساب نہیں ہوگا تو اس بات کا مستقبل میں بھی کوئی امکان نہیں کہ عالمی امداد شفافیت کی بنیاد پر خرچ ہوتی ہے ۔
ہمارا المیہ یہ بھی ہے ہم عام یا کمزور طبقات کی معاشی حیثیت کو تبدیل کرنے کے بجائے مسلسل اس کو بھکاری بنا کر پیش کررہے ہیں ۔ خیراتی اداروں اور حکومتوں کے خیراتی پروجیکٹس بھی لوگوں کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے بجائے ان کو بھکاری بننے پر مجبور کررہے ہیں۔اس بات کا بھی ہمیں سنجیدگی سے تجزیہ کرنا چاہیے کہ غربت میں کمی کے نام پر جو بھی پروگرام چلائے جارہے ہیں، اس نے غربت میں کمی کی ہے یا اس کے نتیجے میں ہم پیچھے ہی کی طرف جا رہے ہیں ۔
یہ جو ہمارا طاقت ور حکمران طبقہ چاہے وہ سیاسی ہو یا غیر سیاسی اسے ایک بات سمجھنی ہوگی کہ ہمارا ریاستی نظام اپنی اہمیت کھورہا ہے ۔ لوگ ریاستی و حکومتی نظام سے نالاں ہیں ۔
حکومت کسی بھی جماعت کی ہو اور کوئی بھی وزیر اعظم ہو ایسے لگتا ہے کہ کسی کے پاس بھی ایک مضبوط ، مربوط اور پائیدار معاشی نظام کا روڈ میپ نہیں ۔ ہمیں آگے جانا ہے تو ٹھوس بنیادوں پر کم سے کم دس برس کا منصوبہ درکار ہے اور اس کے لیے سخت گیر اصلاحات اور معیشت پر سیاست نہ کرنے کے عمل کو یقینی بنانا ہوگا۔
اسی طرح علاقائی تعاون ،بشمول بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات بھی ہماری ترجیح ہونی چاہیے ۔18ویں ترمیم کے بعد صوبوں کو زیادہ ذمے داری لینی ہوگی اور گورننس کے نظام میں جوابدہی بھی صوبائی حکومتوں پر عائد ہونی چاہیے ۔ اس کا ایک علاج مضبوط ، مربوط اور خود مختار مقامی حکومتوں کے نظام کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنے سے بھی جڑا ہوا ہے ۔
[ad_2]
Source link