13

وزیراعظم کا دورہ چین، معاشی مستقبل کا ضامن

[ad_1]

پاک چین دوستی کے حوالے سے مشہور ہے کہ یہ کوہ ہمالیہ سے بلند، سمندر سے گہری اور شہد سے بھی میٹھی ہے۔ فوٹو: فائل

پاک چین دوستی کے حوالے سے مشہور ہے کہ یہ کوہ ہمالیہ سے بلند، سمندر سے گہری اور شہد سے بھی میٹھی ہے۔ فوٹو: فائل

پاکستان میں چین کے سفیر جیانگ زیڈونگ نے کہا ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف کا دورہ چین دونوں ممالک کے درمیان چاروں موسموں کی اسٹرٹیجک تعاون کو فروغ دینے کے لیے مضبوط تحریک پیدا کرے گا اور دوطرفہ تعلقات کو مزید فروغ ملے گا، وزیر اعظم شہباز شریف، آج سے 5 روزہ دورے پر چین روانہ ہوں گے۔

پاک چین دوستی کے حوالے سے مشہور ہے کہ یہ کوہ ہمالیہ سے بلند، سمندر سے گہری اور شہد سے بھی میٹھی ہے۔ بلاشبہ وزیراعظم پاکستان کا دورہ چین دوطرفہ اقتصادی و تجارتی شراکت داری میں اہم سنگ میل ثابت ہوگا، پاکستان اور چین نے باہمی تعاون بڑھانے اور ترجیحات و مواقع سے نمٹنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔

یہ راہداری لچک، جدت طرازی اور مشترکہ خوش حالی کی علامت ہے، پاکستان امید افزا مستقبل کی دہلیز پرکھڑا ہے، جو متنوع ترقیاتی حکمت عملی کو اپنانے اور چین کے ساتھ مضبوط تعاون کے ذریعے ترقیاتی مواقع کی صورت نت نئے امکانات کی کھوج کا اظہار ہے۔ یہ مشترکہ ترقیاتی نقطہ نظر نہ صرف روشن مستقبل کا اعلان ہے بلکہ پاکستان چین باہمی شراکت داری کی جامعیت کو بھی اجاگر کر رہا ہے۔ سی پیک پاکستان تحریک انصاف کے دور حکومت میں کافی التوا اور سست روی کا شکار رہا، حالانکہ سی پیک منصوبے کی تکمیل پاکستان کی ترقی میں بہت اہمیت کی حامل ہے۔

درحقیقت سی پیک ٹو کے آغاز سے پائیدار ترقی اور سماجی و اقتصادی تبدیلی کے ٹھوس روڈ میپ پر آگے بڑھنے کا عمل جاری ہے اور اسی کے ذریعے پاکستان چین دوستی مزید گہری اور ترقی کے لامحدود امکانات کا مجموعہ دکھائی دے رہی ہے۔ سی پیک سے سی پیک ٹو میں تبدیلی چین اور پاکستان کے درمیان اقتصادی شراکت داری کی فعالیت اور اس کے ارتقا کی عکاسی ہے، جو ترقی اور خوش حالی کو فروغ دینے کے لیے ان کے باہمی عزم کو اجاگر کر رہی ہے۔

چین کی موجودہ تیز رفتار معاشی ترقی کو دیکھتے ہوئے باآسانی کہا جا سکتا ہے کہ سال 2030 کے اختتام تک چین کی معیشت امریکی معیشت سے آگے نکل جائے گی جب کہ دوسری طرف امریکی معیشت تین ہزار ارب امریکی ڈالر کی مقروض ہے۔ موجودہ معاشی صورتحال اور تلخ حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے ضرورت اس امر کی ہے کہ کئی دہائیوں پر مشتمل پاک چین دوستی کو مضبوط معاشی بندھن میں باندھا جائے۔

چین غذائی اعتبار سے بڑی مقدار میں غذا درآمد کرنے والا ایک بڑا ملک ہے جب کہ پاکستان غذائی اجناس برآمد کر کے اپنی معیشت کو بہتر کر سکتا ہے۔ اس وقت سی پیک کے ذریعے چین کی منڈی تک باآسانی رسائی ممکن ہو چکی ہے، اگرچہ پاکستان چین کا پہلے ہی سے بڑا ٹریڈ پارٹنر ہے، تاہم اس پارٹنر شپ کو مزید وسعت دینے کی ضرورت ہے۔

معیشت کے میدان میں آج کی دنیا کی سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ 2010 کے بعد چین کی معیشت جس تیز رفتاری سے بڑھ رہی ہے، دنیا کا کوئی بھی دوسرا ملک اس کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہے۔ امریکا جس وقت افغانستان، عراق، لیبیا اور شام کی جنگ میں مصروف کار رہا، عین اسی وقت چین عالمی تضادات سے خود کو بچاتے ہوئے اپنی معیشت کو بہتر کر رہا تھا اور آہستہ آہستہ وہ دنیا کی کنزیومر مارکیٹ میں اپنے قدم جما رہا تھا۔

معاشی اعتبار سے 2024کا چین سال 2000کے چین سے بہت آگے جا چکا ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح سیاسی اعتبار سے سال 2000 کا امریکا 2024سے بالکل مختلف دکھائی دیتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد 1990میں ہمیں جس یونی پولر ورلڈ کا سامنا تھا۔ سال 2010کے بعد ہماری دنیا یونی پولر ورلڈ سے نکل کر ملٹی پولر ورلڈ کی طرف سرکتی دکھائی دیتی ہے۔ مستقبل کی ملٹی پولر ورلڈ میں ایشیائی ممالک خصوصی اہمیت کے حامل دکھائی دیتے ہیں۔

عالمی شماریاتی اداروں کی ایک ریسرچ کے مطابق 2050تک ایشیائی ممالک کی معیشت یورپ امریکا سے بھی آگے نکل جائے گی، جس میں چین لیڈنگ رول ادا کر رہا ہوگا، چین عالمی معیشت میں پہلے نمبر پر آ جائے گا جب کہ امریکا دوسرے نمبر پر چلا جائے گا جس کے بعد جاپان، جرمنی، برطانیہ اور فرانس کا نمبر آئے گا۔

بین الاقوامی اداروں کی رپورٹ کو سامنے رکھتے ہوئے باآسانی کہا جا سکتا ہے کہ مغربی دنیا کی قومی پیداوار 35% تک رہ جائے گی جب کہ ترقی پذیر ملکوں کی معیشت ورلڈ GDP میں 65% تک بڑھ جائے گی اسی طرح 16 ایشیائی ممالک جن میں بھارت، جاپان، انڈونیشیا، کوریا، ترکی، ویتنام، فلپائن، ایران اور بنگلہ دیش شامل ہیں وہ ایشیاء کی معیشت میں انتہائی اہم حیثیت اختیار کر جائیں گے۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس بدلتی معیشت کی دنیا میں امریکی معیشت نمبر ون سے نیچے جانے کے بعد پاکستان کہاں کھڑا ہو گا؟ ہمیں جو سیاسی و معاشی چیلنجز درپیش ہیں ان سے کیسے نپٹا جا سکے گا؟ جس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ ہمیں بھی ایشیاء کی معیشت کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت ہے شنگھائی گروپ کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو کسی صورت نظرانداز نہیں کیا جا سکتا جس کی طرف ترکی، بنگلہ دیش حتیٰ کہ سری لنکا اور میانمیر بھی اپنا رخ موڑ چکے ہیں۔

سی پیک ٹو پاکستان کے معاشی مستقبل کا ضامن ہے تاہم اسے کئی ایک چیلنجوں کا بھی سامنا ہے۔ جغرافیائی سیاسی تناؤ اور سلامتی کے خطرات اس کی پیش رفت میں خلل ڈال سکتے ہیں، اس لیے پاکستان میں کام کرنے والے چینی اہلکاروں کی حفاظت یقینی بنانا بہت ضروری ہے۔ عالمی مارکیٹ کے اتار چڑھاؤ کی وجہ سے معاشی استحکام الگ قسم کی تشویش ہے۔

سیکیورٹی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ جس نے سی پیک کو متاثر کیا۔ 2022 میں چینی انجینئرز پر ہونے والے حملے کے بعد سی پیک پر کام کرنے والے اکثر انجینئرز کو واپس چین بھیج دیا گیا تھا، جس سے سی پیک پر کام تقریباً رک گیا تھا۔ بن قاسم اسپیشل اکنامک زون کو استعمال کرنے کے بجائے نئے زون بنائے گئے جس کی دلیل یہ تھی کہ چین پاکستان میں انڈسٹری لگائے گا۔

چین میں مزدوری مہنگی ہے پاکستان بہترین متبادل ہو گا، لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ پاکستان رواں سال 300 ملین ڈالرز کے پانڈا بانڈز چینی مارکیٹ میں جاری کرے گا۔ چینی سرمایہ کار پانڈا بانڈز سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور پاکستان کی فنڈنگ کے ذرایع وسیع ہو سکتے ہیں۔

چین پاکستان کی معاشی ترقی میں اہم شراکت دار ہے اور چینی صنعت خصوصاً چینی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو پاکستان میں صنعتیں لگانے کی دعوت دینے سے پاکستان میں ترقی کا عمل تیز ہو گا۔ پاکستان چین کے ساتھ ترجیحی بنیادوں پر زراعت، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور توانائی کے شعبوں میں تعاون بڑھانے اور چین میں پاکستانی مصنوعات کی برآمد میں اضافے کا خواہاں ہے۔ برآمدات بڑھانے کے حوالے سے حکمت عملی ترتیب دینے میں چین پاکستان کا مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔

پاکستان سی پیک کے دوسرے مرحلے کی طرف بڑھنے کے لیے تیار ہے جس کا مقصد تکنیکی ترقی اور زراعت کو فروغ دینا ہے۔ ان منصوبوں میں تاخیر اور دیگر مسائل کو دور کرنے کے لیے خصوصی سہولت کونسل قائم کر دی گئی ہے۔

پاکستان صنعتی پارکس اور ایکسپورٹ زونز بنانے کا منصوبہ بھی بنا رہا ہے، ٹیکسٹائل اور اسٹیل جیسے شعبوں میں چین کے ساتھ مشترکہ منصوبوں کا منتظر ہے، جو چینی ٹیکنالوجی کو پاکستان کی سستی افرادی قوت کے ساتھ جوڑ دیں گے، مشترکہ منصوبوں کے ذریعے زراعت، صنعت، آئی ٹی کے شعبوں میں اعلیٰ معیار کی مصنوعات تیار کی جا سکتی ہیں تاکہ لاکھوں ملازمتیں پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ ہماری پیداوار اور برآمدات میں بھی اضافہ ہو سکے۔

اب خوش آیند بات یہ ہے کہ پاکستان اور چین کے درمیان معاملات آگے بڑھ رہے ہیں، ان شعبوں میں تعاون کی یقین دہانی بھی ہوئی ہے، ملک دشمن عناصر کی تمام تر کوششوں کے باوجود دونوں ممالک کے تعلقات میں دراڑ نہیں آئی۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان اس وقت بے چینی سے بین الاقوامی سرمایہ کاری کی راہ دیکھ رہا ہے، حکومت اس کے لیے پوری طرح متحرک بھی ہے۔

پیچیدہ جغرافیائی سیاسی حرکیات، معاشی اتار چڑھاؤ اور سیکیورٹی چیلنجوں سے بھری دنیا میں سی پیک ٹو کی آمد پاکستان کے لیے اہم سنگ میل کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہے۔

یہ امید کی ایک کرن ہے، جو غیر یقینی صورت حال اور افراتفری کے ماحول میں آگے بڑھنے کی تحریک ہے اور اسی کی بدولت مستقبل کی سمت بڑھتے ہوئے راستہ روشن دکھائی دے رہا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ملک میں سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول کی فراہمی یقینی بنائے تاکہ نہ صرف دوسرے ممالک بلکہ بیرون ملک مقیم پاکستانی اور کاروباری حضرات بھی اس طرف متوجہ ہوں، یہاں سرمایہ کاری پر غور کریں اور معاشی ترقی کا سفر تیزی سے طے ہو سکے۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں