8

مقدمات کی لائیو اسٹریمنگ پر فیصلہ

[ad_1]

سپریم کورٹ میں مقدمات کی لائیو اسٹریمنگ پر ایک مباحثہ سامنے آیا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہو گیا ہے کہ کیا یہ سائل کا حق ہے کہ اس کا مقدمہ لائیو اسٹریم کیا جائے یا یہ سپریم کورٹ کا حق ہے کہ وہ طے کرے کہ کونسا مقدمہ لائیو اسٹریم کیا جائے اور کونسا نہیں کیا جائے گا ۔

کیا مقدمے کا فریق یہ مطالبہ کر سکتا ہے کہ اس کا مقدمہ لائیو اسٹریم کیا جائے؟ کیا لائیو اسٹریمنگ حصول انصاف کا کوئی بنیادی تقاضہ ہے؟ کیا اگر مقدمہ لائیوا سٹریم نہیں ہوا تو مدعی یا متاثرہ فریق کا کوئی بنیادی حق متاثر ہو گیا ہے۔کچھ دوست ایسا تاثر پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جیسے نیب ترامیم کیس میں لائیو اسٹریمنگ کی اجازت نہ دیکر سپریم کورٹ نے کسی فریق کا کوئی بنیادی حق ختم کر دیا ہے۔ جیسے انصاف کا کوئی خون ہو گیا ہے۔

بہرحال سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیس میں یہ بات طے کر دی ہے کہ کونسا مقدمہ لائیو اسٹریم کیا جائے گا اور کونسا مقدمہ لائیو اسٹریم نہیں کیا جائے گا۔ یہ فیصلہ کرنے کا اختیار سپریم کورٹ کے پاس ہوگا۔ یہ بھی طے کر دیا گیا کہ لائیو اسٹریمنگ کو کوئی سیاسی فریق اپنی سیاست کے لیے استعمال نہیں کرے گا۔ سپریم کورٹ نے عدالتوں کے سیاسی استعمال کو نہ صرف نا پسند کیا ہے بلکہ اس کو روکنے کی راہ بھی متعین کی ہے۔

میں سمجھتا ہوں یہ فیصلہ یہ سمت بھی متعین کرتا ہے کہ سپریم کورٹ کے پلیٹ فارم کو کسی بھی سیاسی جماعت اور لیڈر کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ عدالت مقدمات کو قانون کے دائرے میں لڑنے کی جگہ ہے‘یہ سیاسی مقدمہ لڑنے کی جگہ نہیں ہیں۔ لیکن ہمارے دوستوں کا خیال ہے کہ اگر سیاستدان عدالت کا بطور سیاسی پنڈال استعمال کرے تو عدالت کو اس کی نہ صرف اجازت دینی چاہیے بلکہ اس میں سہولت کاری بھی کرنی چاہیے۔ بہر حال میں سمجھتا ہوں عدالت کا یہ فرض ہے کہ وہ عدالت کے پلیٹ فارم کا سیاسی استعمال نہ صرف روکے بلکہ اس بات کو یقینی بھی بنائے کہ یہ پلیٹ فارم سیاسی سہولت کاری کا فورم نہیں ہے۔

پاکستان کا نظام انصاف یکساں انصاف کے اصول پر قائم ہے۔ اس کی بنیاد ہی اس بات پر ہے کہ گورے کو کالے پر، امیرکو غریب پر خاص کو عام پر کوئی ترجیح حاصل نہیں ہے۔ یہ بات بھی سمجھنا ضروری ہے کہ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ مقبول کو غیر مقبول پر بھی کوئی ترجیح نہیں۔ کوئی سیاسی لیڈر عدالت سے صرف اس لیے ترجیحی سلوک کا حقدار نہیں کہ وہ مقبول ہے۔ کسی کے ساتھ اس لیے سختی یا ناانصافی نہیں کی جا سکتی کہ وہ کم مقبول ہے۔ یکساں اور برابر انصاف ہی ہمارے نظام انصاف کی بنیاد ہے۔ یہاں چہرے دیکھ کر نہیں مقدمہ دیکھ کر فیصلہ ہونا چاہیے۔

آپ نیب ترامیم کیس کو ہی دیکھ لیں۔ میں سمجھتا ہوں بانی تحریک انصاف کو وڈیو لنک میں شرکت کی اجازت دینا درست نہیں تھاکیونکہ پاکستان کی عدالتوں میں اس سے پہلے کتنے ملزمان کو وڈیو لنک کے ذریعے دلائل دینے کا موقع دیا گیا ہے۔ اگر ایک کو بھی نہیں دیا گیا تو پھر بانی تحریک انصاف کو یہ خصوصی سہولت کیوں دی گئی؟

یہ درست ہے کہ وکلا کو اب وڈیو لنک کے ذریعے دلائل دینے کی اجازت ہے۔ وکیل لاہور سپریم کورٹ رجسٹری میں موجود ہو کر اسلام آباد میں دلائل دیتے ہیں۔ لیکن گھر سے بیٹھ کر نہیں دیتے۔ تاہم جیلوں سے قیدیوں کو یہ سہولت نہیں دی جاتی۔ جب آپ نے بانی تحریک انصاف کو یہ غیر معمولی سہولت دیگئی ہے تو اسے غیر معمولی سہولت کہا جائے گا۔

میرا سوال ہے کہ کیا آپ بانی تحریک انصا ف کے بعد ہر قیدی کو یہ سہولت دینے کے لیے تیار ہیں۔ جیلوں میں لاکھوں قیدی ہیں۔ ان کے لاکھوں مقدمات ہیں۔ روزانہ ملک بھر میں لاکھوں نہیں تو ہزاروں مقدمات میں قیدی عدالتوں میں پیش ہوتے ہیں۔ کیا ہم سب کو وڈیو لنک سے شریک ہونے کی سہولت دے سکتے ہیں؟یہ اجازت دینا ہی غلط تھاکیونکہ مقدمہ میں ان کا وکیل موجود تھا ۔ پہلے پچاس پیشیوں میں ان کا وکیل شریک تھا۔ جب وکیل موجود تھا تو ان کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ وکیل کی موجودگی میں سائل کو بولنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ عدالتوں کا رویہ ہے کہ وہ کہتی ہیں کہ آپ اپنے وکیل سے بات کریں۔

وکیل عدالت سے بات کرے۔ یہ تو ایک دیوانی کیس ہے۔ فوجداری کیسز میں جہاں فریق کی زندگی موت کا معاملہ ہوتا ہے،عدالت میں وکیل کیس لڑتا ہے‘ ملزم جیل میں ہوتا ہے۔ یہ عدلیہ کا فرض ہے کہ عدالتوں کو سیاسی اکھاڑا نہ بننے دے۔ عدالتوں میں فریقین اور وکلاء کو سیاسی گفتگو نہ کرنے دی جائے۔ دلائل کو قانون کے دائرے میں رکھا جائے۔ میں سمجھتا ہوں ججز کے ریمارکس قانونی نقاط سے باہر نہیں ہونے چاہیے۔ ججز کو بھی ذو معنی سیاسی باتیں نہیں کرنی چاہیے اور نہ ہی کسی کو عدالت میں کرنے دینا چاہیے۔ اگر ہم نے عدالتوں کو سیاسی میدان بنا دیا تو نظام انصاف سیاسی ہو جائے گی۔

کچھ دوستوں کی رائے کہ اگر بانی تحریک انصاف نے عدالت میں مقدمہ سے ہٹ کر کوئی سیاسی بات کر بھی دی تھی تو کونسی قیامت آگئی تھی۔ عدالت کو ان کی بات سننی چاہیے تھی۔ میرا سوال کہ پھر صرف ان کی غیر متعلقہ بات ہی کیوں تحمل سے سننے کا مشورہ دیا جا رہا ہے۔ مجھے بھی کسی بھی عدالت میں جا کر غیر متعلقہ بات کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔

کوئی بھی سیاستدان کسی بھی کیس میں عدالت کے سامنے غیر متعلقہ سیاسی بات کرے، سرخیاں بنائے ، پوائنٹ اسکورنگ کرے اور گھر چلا جائے۔ عدالت اس کا منہ دیکھتی رہ جائے۔ پہلی بات ہی یہ ہے کہ جو کیس عدالت کے سامنے ہے آپ نے اپنے دلائل اور اپنی بات اس کیس تک محدود رکھنی ہے۔ اگر عدلیہ اس اصول کی پاسداری نہیں کروا سکتی تو عدالتوں کا ڈسپلن ہی ختم ہو جائے گا۔ کیس کوئی ہوگا، بات کوئی ہوگی۔

بہر حال لائیو اسٹریمنگ کا فیصلہ عدالتی تاریخ میں ایک انتہائی اہم فیصلہ سمجھا جائے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ عدالت نے لائیو اسٹریمنگ پر فیصلہ دے کر بالکل ٹھیک کیا ہے۔ عدلیہ کو سیاسی میدان بننے سے روکنا بھی ہر صورت عدلیہ کا کام ہے۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں