[ad_1]
لاہور: پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں سنگل یوز پلاسٹک کے استعمال پر 5 جون سے ایک بار پھرپابندی لگائی جارہی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پلاسٹک کے بڑھتے ہوئے استعمال سے ماحولیاتی آلودگی، انسانی صحت، آبی حیات کے خطرات، کچرے کے انبار میں اضافہ اور اقتصادی نقصان جیسے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔
لاہورویسٹ مینجمنٹ کمپنی کے چیف ایگزیکٹوآفیسر صاحب دین نے ایکسپریس نیوز کو بتایا کہ سنگل یوز پلاسٹک کی وجہ سے ہمارا سیوریج سسٹم بری طرح متاثرہوتا ہے، نالے اورڈرینیں بلاک ہوجاتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ایل ڈبلیوایم سی کے سروے کے مطابق لاہور میں جمع ہونے والے کچرے میں روزانہ 400 ٹن پلاسٹک شامل ہوتا ہے جو ڈمپنگ سائٹ پرلایا جاتا ہے۔
صاحب دین نے کہا کہ پلاسٹک کوڈی کمپوز بھی نہیں کیا جاسکتا اور سیکڑوں برس تک کوڑے میں دبا رہنے کے باوجود یہ ختم نہیں ہوتا اوریہ مٹی اور پانی کو آلودہ کرتا ہے۔ یہ آلودگی زرعی پیداوار کو نقصان پہنچاتی ہے اور ہماری غذا کی فراہمی کو متاثر کرتی ہے۔
ماہرماحولیات ڈاکٹرسعدیہ خالد نے ایکسپریس نیوز کو بتایا کہ دریاؤں، جھیلوں، اور سمندروں میں پلاسٹک کی موجودگی آبی حیات کے لیے مہلک ثابت ہوتی ہے۔ مچھلیاں اور دیگر آبی جاندار پلاسٹک کے ذرات کو خوراک سمجھ کر نگل لیتے ہیں، جو ان کی موت کا سبب بنتے ہیں۔ اس کے علاوہ، سمندری پرندے اور دیگر جانور بھی پلاسٹک کے جال میں پھنس کر ہلاک ہو جاتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ پلاسٹک کی مصنوعات میں موجود کیمیکلز، جیسے کہ بی پی اے اور فیتھیلیٹس، انسانی صحت کے لیے انتہائی نقصان دہ ہیں۔ یہ کیمیکلز ہارمونل تبدیلیوں، بانجھ پن، کینسر، اور دل کی بیماریوں کا باعث بن سکتے ہیں۔ پلاسٹک کے ذرات ہوا، پانی اور خوراک کے ذریعے انسانی جسم میں داخل ہو کر مختلف بیماریوں کا باعث بنتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پلاسٹک کے استعمال کی عادتیں ہمیں سماجی ذمہ داری سے دور کر دیتی ہیں۔ عوام میں شعور کی کمی کی وجہ سے لوگ پلاسٹک کی اشیاء کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں اور انہیں صحیح طریقے سے ٹھکانے نہیں لگاتے۔
اس رویے کو تبدیل کرنے کے لیے تعلیمی اور آگاہی مہمات کی ضرورت ہے۔ پلاسٹک کے استعمال کے منفی اثرات معاشرے اور ماحول پر بہت گہرے ہیں۔ ہمیں اس مسئلے کو سنجیدگی سے لینا ہوگا اور پلاسٹک کے استعمال میں کمی، ری سائیکلنگ، اور متبادل مواد کے استعمال کو فروغ دینا ہوگا۔
پنجاب کی سینئروزیر مریم اورنگزیب کا کہنا ہے کہ حکومت پنجاب بھر میں پلاسٹک بیگز پر مکمل پابندی عائد کررہی ہے۔ اس پابندی کو سختی سے نافذ کیا جائے گااور متبادل بایوڈی گریڈایبل بیگز کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔
ری سائیکلنگ انفرااسٹرکچر کی ترقی کے لیےری سائیکلنگ کے مراکز قائم کیے جائیں گے اور عوام کو پلاسٹک کی مصنوعات کو صحیح طریقے سے ری سائیکل کرنے کے طریقوں سے آگاہ کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ، ری سائیکلنگ کی صنعت کو فروغ دینے کے لئے معاونت فراہم کی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ پلاسٹک ویسٹ مینجمنٹ کے لیے سخت قوانین بنائے جائیں گے اور ان قوانین پر سختی سے عمل درآمد کیا جائے گا۔ پلاسٹک ویسٹ کو درست طریقے سے ٹھکانے لگانے کے لیے عوام کو تربیت دی جائے گی اور اس حوالے سے جرمانے اور سزائیں مقررہوں گی۔
مریم اورنگزیب نے کہاکہ 5 جون سے پلاسٹک کی غیرقانونی مصنوعات بنانے والی فیکٹریوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا اغاز کیا جائے گا، ہوٹلوں، ریسٹورنٹس اوردیگرفوڈ پوائنٹس پر گاہکوں کوپلاسٹک بیگ میں کھانا دینے پر سخت پابندی ہوگی۔
سینئر صوبائی وزیر مریم اورنگزیب نے بتایاکہ قانون کے مطابق 75 مائیکرون سے کم حجم کے پولیتھین بیگز کے استعمال اورسنگل یوز پلاسٹک کے برتنوں پر مکمل پابندی ہے اورپلاسٹک کے عدم استعمال پرعوام کے لیے ”پلاسٹک موت ہے” کے موضوع پرآگاہی مہم کا اغاز کیا جائے گا۔
عالمی ماحولیاتی اداروں کی رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر 2040 تک خارج ہونے والی 19 فیصد زہریلی گیسوں کا اخراج پلاسٹک کی وجہ سے ہوگا۔ مارچ 2022 میں 193 ممالک نے پلاسٹک کی آلودگی کے خاتمے پر اتفاق کیا تھا ۔ اس وقت دنیا بھر میں ہر سال 43 کروڑ ٹن پلاسٹک مصنوعات تیار کی جاتی ہیں، ان میں سے دو تہائی مصنوعات کی زندگی مختصر ہوتی ہے جس کے بعد وہ کچرے کا حصہ بن جاتی ہیں۔
[ad_2]
Source link