12

کیا سر جوڑ کر بیٹھنا ضروری ہے؟

[ad_1]

ملک کے بااثر حلقوں اور افراد کی جانب سے اکثر یہ تجویز پیش کی جاتی ہے کہ اس وقت پاکستان کو قومی سطح پر ایک مکالمے کی شدید ضرورت ہے تاکہ تمام ادارے، سیاسی جماعتیں، دانشور اور مختلف طبقات کی نمایندگی کرنے والی تنظیمیں ایک میز پر بیٹھ کر یہ طے کریں کہ ملک کے نظام کو مستقبل میں کس سمت پر کس طرح چلانا اور آگے بڑھانا ہے۔ عام طور پر اس طرح کے مکالمے کوگرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کا نام دیا جاتا ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ کچھ لوگوں کے ذہن میں اس نوعیت کے ڈائیلاگ یا مکالمے کی ضرورت کیوں محسوس کی جارہی ہے اور کیا درحقیقت حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ آگے بڑھنے کے لیے اس کے علاوہ کوئی اور چارہ کار نہیں ہے۔

اس نوعیت کے مکالمے عموماً ایسے ملکوں میں منعقد ہوتے ہیں جہاں نیم یا مکمل خانہ جنگی جیسے حالات پائے جاتے ہیں۔ قومی مکالمہ ایسی ریاست میں ہوتا ہے جہاں سیاسی تقسیم اس قدر بڑھ چکی ہوتی ہے کہ اُسے ختم کرنے کے لیے متحارب فریقین کے علاوہ دوسرے اداروں اور طبقات کو بھی اپنا کردار ادا کرنا پڑتا ہے۔

گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کی ضرورت ان ممالک میں بھی ہوسکتی ہے جہاں کسی فردِ واحد یا مخصوص نظریاتی جماعت کا بنایا گیا آئین مسلط ہو، جس میں بحرانوںکو حل کرنے کی لچک یا گنجائش موجود نہ ہو۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا پاکستان میں یہ تینوں صورتیں پائی جاتی ہیں؟ اس کا جواب نفی میں ہوگا۔ امن و امان کی صورت حال یقیناً اطمینان بخش نہیں ہے، دہشت گردی کے واقعات بھی رونما ہوتے ہیں لیکن سماج میں نراج اور انتشارکی صورت نہیں ہے۔ تاہم، بعض حلقوں کی جانب سے یہ دلیل پیش کی جاتی ہے کہ ملک پر معاشی، سیاسی اور سماجی اعتبار سے جمود کی کیفیت طاری ہے جسے توڑنے کے لیے اس طرح کے وسیع تر قومی مکالمے کی ضرورت ہے۔

یہ بات درست ہے کہ ہمارا نظام یقیناً جمود کا شکار ہے اور کسی بھی شعبے میں کوئی نمایاں پیش رفت نہیں ہو رہی ہے لیکن جنوبی ایشیاء کے دیگر تمام ملکوں میں اس طرح کی کیفیت موجود نہیں ہے۔ ہندوستان کا تو ذکر جانے دیں، اب وہ ایک عالمی معاشی طاقت بن رہا ہے۔ بنگلہ دیش جوکبھی ہمارا حصہ تھا آج جس تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے اس پر ماہرین حیران ہیں۔ نیپال اور بھوٹان جیسے چھوٹے ملک بھی کئی اشاریوں کے حوالے سے ہم سے بہتر ہیں۔

اس حقیقت سے ظاہر ہوتا ہے کہ جمود کی جس صورت حال سے ہم دوچار ہیں، وہ کوئی علاقائی اور بین الاقوامی مظہر نہیں ہے۔ اب دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ہم جمود کا شکار کیوں ہیں؟ ہمارا نظام فرسودہ کیوں ہوگیا ہے؟ ترقی کی راہ میں کیا رکاوٹیں ہیں؟ سماجی اور سیاسی بحران کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ کیوں جاری ہے؟ لاکھ جتن کے باوجود معیشت رُوبہ زوال کیوں ہے؟ یہ وہ اہم سوالات ہیں جن کے جواب تلاش کیے بغیر جمود کی موجودہ صورت حال سے باہر نکلنا ممکن نہیںہوگا۔ کیا ان سوالات کے جواب کے لیے قومی سطح پر کسی بڑے مکالمے کی ضرورت ہے؟

میری ناقص رائے میں اپنی ترقی کی راہ میں خود ہم ہی سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ سب سے پہلے اس امر کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کے پاس ایک متفقہ آئین موجود ہے۔ یہ ایک ایسا عمرانی معاہدہ ہے جسے وفاق کی تمام اکائیوں نے بڑے غور و خوص کے بعد تخلیق کیا ہے۔ اس آئین میں وقتاً فوقتاً تبدیلیاں اور ترامیم کی جاتی رہی ہیں۔ ان میں سے کچھ ترامیم بہتر تھیں اور چند ایسی تھیں جو نہ کی جاتیں تو زیادہ اچھا ہوتا۔ بہرحال، 1973 کا یہ آئین نہ صرف جدید دورکے زیادہ تر تقاضوں کو پورا کرتا ہے بلکہ وفاق کو متحد اور منظم رکھنے کا بنیادی ذریعہ بھی ہے۔

اس آئین میں زیادہ تر امور اور معاملات طے کر دیے گئے ہیں۔ ریاست کے تمام اداروں کے دائرۂ کار اور اختیار کا تعین کردیا گیا ہے، وفاق اور صوبوں کے درمیان وسائل کی تقسیم کی وضاحت موجود ہے، یہ بھی آئین میں درج ہے کہ صوبوں کو کتنی داخلی خود مختاری حاصل ہے۔ ایک ایسے جامع آئین کے ہوتے ہوئے ملک میں کوئی سیاسی بحران پیدا نہیں ہونا چاہیے لیکن ایسا کیوں نہیں ہوتا؟ بحران پیدا اس لیے ہوتا ہے کہ ملک کو آئین کے مطابق چلنے نہیں دیا جاتا۔ 75 سال سے بحرانوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ صرف اس وقت ختم ہوگا کہ جب تمام ادارے اور محکمے یہ طے کرلیں گے کہ وہ اپنی ذاتی خواہش یا مفاد کو آئین پر کسی بھی صورت ترجیح نہیں دیں گے۔

ملک میں سیاسی بحران کتنا بھی شدید اور طویل کیوں نہ ہوجائے اُسے ختم کرنے کے لیے ماورائے آئین کوئی اقدام نہیں کیا جائے گا۔ ابتداء میں بنگلہ دیش کی بات ہوئی تھی، اس کی مثال سامنے ہے۔ ایک دور تھا کہ یہ ملک بھی بدترین سیاسی بحران کی زد میں تھا، ہڑتالوں، جلاؤ اور گھیراؤ کا سلسلہ رُکنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ عام ہڑتالوں کا سلسلہ کئی کئی مہینوں تک لگا تار جاری رہتا تھا لیکن کسی بھی مرحلے پر ریاست کے کسی ادارے نے سیاسی عمل میں مداخلت کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ایک وقت آیا جب سیاسی طوفان دم توڑ گیا اور بنگلہ دیش میں دیرپا استحکام آگیا۔ بدترین اور انتہائی طویل بحران کے دوران بھی بنگلہ دیش میں کسی گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔

عام انتخابات اپنے مقررہ وقت پر ہوتے رہے اور ترقی کا سفر بھی جاری رہا۔ ہمارا نظام جمود کا شکار اس لیے ہے کہ سیاسی عمل میں بار بار مداخلت کی جاتی ہے، ملک کو آئین کے بجائے اپنی منشاء اور مرضی کے مطابق چلایا جاتا ہے، اگر آئین کی بالادستی اور پارلیمنٹ کو قبول کیا جائے تو سیاسی بحران کا خاتمہ ہوجائے گا۔احتجاج، جلسے، جلوس، مظاہرے اور ہڑتالیں جمہوری عمل کا حصہ ہیں۔

ان سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں، کوئی قانون کی خلاف ورزی کرے تو اس کی سخت گرفت کی جائے۔ عوام بالآخر خود فیصلہ کرلیں گے کہ احتجاج اور ہڑتالیں ان کے مفاد میں ہیں یا نہیں۔ انتخابی عمل میں کسی بھی طرح سے مداخلت نہ کی جائے۔ پارلیمنٹ میں موجود جماعتیں اور دیگر اہم اسٹیک ہولڈرز الیکشن کمیشن کو اتنا آزاد اور خود مختار بنائیں کہ کوئی سیاسی جماعت دھاندلی کا الزام نہ لگا سکے اور لگائے تو اُسے ثابت نہ کرسکے۔

ہندوستان میں عام انتخابات چند دنوں پہلے مکمل ہوئے ہیں، ان انتخابات میں 97 کروڑ ووٹرز تھے۔ سات مرحلوں میں ہونے والے دنیا کے یہ سب سے بڑے پارلیمانی انتخابات ڈیڑھ ماہ تک جاری رہے۔ بیلٹ باکس میں ووٹ ہفتوں بند رہے لیکن کسی نے بھی دھاندلی کا الزام عائد نہیں کیا۔ یہ کام ہمارے ملک میں بھی ہوسکتا ہے، ہماری پارلیمنٹ الیکشن کمیشن میں بہتر اصلاحات کے ذریعے الیکشن میں دھاندلی کے امکانات کو ہمیشہ کے لیے باآسانی ختم کرسکتی ہے۔ پارلیمنٹ کی بالادستی سب قبول کریں، سیاسی استحکام آجائے گا۔ کیا اس کے لیے سب کا سر جوڑ کر بیٹھنا ضروری ہے؟



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں