[ad_1]
1990 میں کہنے کو تو پنجاب کے وزیراعلیٰ، غلام حیدر دائیں صاحب تھے، مگر تمام اہم معاملات شہباز شریف صاحب کے دائرہ اختیار میں تھے، اور افسروں کی پوسٹنگ اور ٹرانسفر کے فیصلے تو مکمل طور پر شہباز صاحب ہی کیا کرتے تھے۔ وائیں صاحب صرف انگوٹھا لگاتے تھے۔ لاہور میں جرائم کی روک تھام اور امن و امان کی نگرانی بھی براہِ راست شہباز شریف صاحب کے کنٹرول میں تھی۔
اس سلسلے میں ایک با اختیار کرائم کنٹرول کمیٹی قائم کی گئی تھی جس کے سربراہ شہباز شریف صاحب تھے اور میاں اظہر صاحب ، ارشد لودھی ، میاں محمود الرشید (جو اُس وقت مسلم لیگ کے ایم پی اے تھے اور اب پی ٹی آئی کے رہنما ہیں) اس کے ممبر تھے ، اس کی ہر روز صبح سات بجے الحمرا آرٹس کونسل کے کانفرنس روم میں میٹنگ ہوتی تھی ، جس میں لاہور کے کمشنر ، ڈی آئی جی ، ایس ایس پی ،ڈی سی ، ایس پی سٹی اور ایس پی کینٹ کے لیے شریک ہونا لازم تھا۔ شہباز شریف صاحب سیکیورٹی اور پروٹول کے بغیر ایک سفید رنگ کی سوزوکی کلٹس میں پھرتے تھے اور صبح سات بجے سے پہلے الحمرا پہنچ جاتے تھے۔
اس وقت وہ بڑے Hard Task Master سمجھے جاتے تھے اور بلاشبہ وہ اپنے ٹارگٹ کے حصول کے لیے بڑے جوش و جنون سے پیچھے پڑ جاتے تھے۔ وہ خود صبح بہت جلد اٹھنے کے عادی ہونے کی وجہ سے سات بجے سے پہلے ہی میٹنگ روم میں پہنچ جاتے مگر پولیس افسروں کے لیے جنھوں نے رات دو تین بجے تک پٹرولنگ کرنی ہو، صبح تیار ہو کر اتنی جلدی پہنچنا بڑا مشکل تھا۔ میں پہلے روز کرائم کنٹرول کمیٹی کی میٹنگ میں ذرا تاخیر سے پہنچا تو شہباز شریف صاحب نے میری طرف خشمگیں نظروں سے دیکھا اور لیٹ آنے پر ناراضگی کا اظہار کیا۔ ہم نے ایک دو بار میٹنگ کا وقت آگے کرنے کی درخواست کی جو نہ مانی گئی، نہ انھوں نے میٹنگ کا وقت بدلا اور نہ ہم نے تاخیر سے پہنچنے کی روایت بدلی۔ اس لیے تقریباً ہر روز شہباز شریف صاحب کی ’’گھوریوں‘‘ کا سامنا کرنا پڑتا لیکن انھیں نظر انداز کر کے میں یوں سانس درست کرنے لگتا جیسے گھر سے ہی دوڑتا ہوا آیا ہوں۔
شہباز شریف صاحب مجھے لیٹ پہنچنے پر تنبیہ کررہے ہوتے کہ ایس ایس پی اسرار صاحب (جو مجھ سے بھی پانچ سات منٹ لیٹ پہنچتے) بھی ہانپتے ہوئے کمرے میں داخل ہوتے۔ روزانہ کا کم و بیش یہی معمول تھا۔میں پولیس کلب سے نکلتے ہی ڈرائیور سے کہتا ’’گاڑی بھگاؤ، آج ہر صورت شہباز شریف سے پہلے پہنچنا ہے‘‘۔الحمرا میں اترتے ہی میں نظر دوڑاتا کہ شاید سفید کلٹس ابھی نہ پہنچی ہو مگرنہ پہنچنے والی حسرت کبھی پوری نہ ہو سکی۔ سفید کلٹس پہلے پہنچی ہوتی، جسے دیکھتے ہی میں کانفرنس روم کی طرف دوڑ پڑتا اور ہانپتا ہوا کمرے میں داخل ہوتا۔ میاں اظہر صاحب بڑے شریف النفّس آدمی تھے ، بات کرتے ہوئے ذراہلتے تھے ، ان کا بدن Stable نہیں رہتا تھا۔ انھیں میری صاف گوئی اور جارحانہ پولیسنگ کا انداز پسند آگیا اور وہ مجھے سپورٹ کرنے لگے۔ لودھی صاحب جعلی قسم کے ارسطو تھے اور کوئی موثر گفتگو نہیں کر سکتے تھے ۔ ایک بار وہ اپنے ضلع ساہیوال کے ایس ایس پی (اب ڈی پی او )کو کوئی کام نہ کرنے پر تبدیل کرانا چاہتے تھے تو انھوں نے اس طرح کی کہانی گھڑی کہ ’’جناب میاں صاحب ! ہماری پارٹی کے ضلعی صدر ورکروں کا کوئی مسئلہ لے کر ایس ایس پی ساھیوال کے دفتر گئے تو ایس ایس پی آگے سے جامنوں (جامن ) کھارہا تھا، اب دیکھیں جی یہ کوئی بات ہے کہ پولیس والے جامنوںکھاتے رہیں اور ہمارے ورکر ذلیل ہوتے رہیں ۔
دوسری بار پھر گیا تو پھر جامنوں کھا رہا تھا۔ اس پر اسرار صاحب نے کہا ’’جامنوں وی لُون لایاں بغیر کھاریا سی ، ایہہ واقعی جرم بندا اے (جامنوں کو نمک لگائے بغیر کھارہا تھا، یہ تو واقعی اس کا جرم ہے) شہباز صاحب یہ پسند نہیں کرتے تھے کہ باقاعدہ میٹنگ میں کوئی افسر لطیفہ بازی یا غیر سنجیدہ بات کرے، لہٰذا انھوں نے افسروں کو سیریس رہنے کی تنبیہہ کی ۔ ایک روز لاہور میں دو تین سنگین وارداتیں ہوگئیں، صبح میٹنگ میں آتے ہی شہباز شریف کی اخبارات کے تراشوں پر نظر پڑی تو اُن کا پارہ چھت سے ٹکرانے لگا ، انھوں نے پولیس افسروں پر چڑھائی کردی اورخاصے غصّے کا اظہار کیا ۔ میٹنگ کے بعد ایس ایس پی نے پولیس لائینز میں تمام پولیس افسروں کی میٹنگ بلائی جس میں انھوں نے پولیس افسروں کو کیس ٹریس کرنے کے خصوصی احکامات دیے ۔ اس کے بعد انھوں نے ایس پی سی آئی اے کو علیحدہ بلا کر کچھ ’’خصوصی ہدایات ‘‘بھی دیں ۔
دوسرے روز ایس پی سی آئی اے چوہدری اصغر (جو رینکس سے پروموٹ ہوا تھا) بھی اسرار احمد صاحب کے ساتھ آیا ۔ میٹنگ شروع ہوتے ہی اسرار صاحب نے کہا سر !آپکی خصوصی ہدایات پر ہم نے پولیس کی چھ سات ٹیمیں بنا دی ہیں جو مجرموں کے پیچھے لگ گئی ہیں انشاء اللہ سارے مجرم پکڑ لیے جائیں گے۔ فی الحال ایس پی سی آئی اے چوہدری اصغر کو کافی کامیابی حاصل ہوئی ہے اور انھوں نے کئی خطرناک گینگ پکڑ لیے ہیں ۔
اس پر شہباز شریف صاحب بڑے خوش ہوئے اور انھوں نے چوہدری اصغر کو شاباش دی اور کہا ’’چوہدری صاحب بتائیں کون کون سے گینگ پکڑے ہیں، اور وہ لاہورکی کون کون سی وارداتیں مانے ہیں ؟ ‘‘ اس پر چوہدری اصغر (جو صرف پنجابی میں ہی بات کرسکتا تھا) شروع ہوگیا ’’جناب اساں دو گینگ پنڈدادن خان دے اِک ڈیرے توں پھڑے نیں‘‘ (جناب ہم نے مجرموں کے دو گینگ پنڈدادن خاں کے ایک ڈیرے سے پکڑے ہیں) ، اچھا تو وہ کیا کیا مانے ہیں؟’’جناب اوہ پنج وارداتاں چکوال دیاں تے اٹھ وارداتاں جہلم دیاں من گئے نیں‘‘ (جناب وہ پانچ وارداتیں چکوال اکی اور آٹھ وارداتیں جہلم کی مان گئے ہیں) ، اور بتاؤ شہباز صاحب نے مزید پوچھا ’’جناب! اس توں علاوہ اساں چار گینگ سوہاوے توں پھڑلیے نیں‘‘ (جناب اس کے علاوہ چار گینگ سوہاوے سے پکڑے ہیں) وہ کہاں کہاں کی وارداتیں ما نے ہیں؟
شہباز شریف صاحب نے پوچھا ’’جناب اوہ چار وارداتاںپنڈی دیاں من گئے نیں ، تے آٹھ وارداتاں گوجرخان دیاں من گئے نیں‘‘ (جناب وہ چار واتیں پنڈی کی اور آٹھ وارداتیں گوجر خان کی مان گئے ہیں) اس پر شہباز شریف صاحب غصّے میںآگئے اور کہنے لگے ’’او چوہدری! تم تو جہلم اور گوجر خان میں ہی پھر رہے ہو، اس سے آگے بھی آؤ ، ہم توقّع کر رہے تھے کہ لاہور کی وارداتیں ٹریس ہوئی ہوںگی مگر تم ہمیں صرف سوہاوہ اور گوجرخان کی کہانیاں سناتے پھر رہے ہو‘‘۔ ایس پی سی آئی اے کی اینٹری بے سود ثابت ہوئی، بلکہ embarrasment کا باعث بنی۔ میٹنگ سے باہر نکلے تو چوہدری اصغر نے اسرار صاحب سے کہا ’’سر جی! شہباز شریف پہلاں بھولا جیا ہُنداسی پر ہون چالاک ہوگیا اے (شہباز شریف پہلے بھولا بھالا ہوتا تھا مگر اب تیز ہوگیا ہے، ہر چیز سمجھتا ہے)۔
ایک بار ہم نے ٹاؤن ہال کے سبزہ زار پر اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرنیوالے پولیس افسروں کو انعامات دینے کی تقریب منعقد کی۔ شہریوں نے خوشگوار حیرت سے دیکھا کہ پولیس کے جونیئر ملازمین کو انعام دینے والے پولیس کے ایس پی یا ڈی آئی جی نہیں بلکہ یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر صاحبان اور محترم مجید نظامی، جناب اشفاق احمد خان، ایس ایم ظفر اور الطاف حسن قریشی صاحب جیسے صاحبان علم ودانش ہیں، آئی جی چوہدری سردار محمد جو خود بھی صاحبِ ذوق تھے، یہ منظر دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور انھوں نے اپنی تقریر میں اس تقریب کو یادگار اور تاریخی تقریب قرار دیا۔
1990کے انتخابات میں میاں نوازشریف وزیراعظم بنے تو اس کے کچھ ہی عرصے بعد عیدالفطر تھی۔ پرائم منسٹر نے عید کی نماز بادشاہی مسجد میں ادا کرنا تھی، چوہدری سردار محمد صاحب پنجاب کے آئی جی تھے۔ ایک روز علی الصبح ان کا فون آیا کہنے لگے ’’میاں صاحب نے بحیثیت پرائم منسٹر پہلی بار بادشاہی مسجد جانا ہے، آپ بادشاہی مسجد کے امام مولانا عبدالقادر آزاد صاحب سے ملیں اور انھیں کہیں کہ اس موقع پر وہ اپنی تقریر میں پولیس کی خدمات اور قربانیوں کا بھی ذکر کردیں‘‘۔
اس کے بعد میں نے مولانا آزاد سے مل کر کیا کہا اور انھوں نے کیا جواب دیا اور خود پرائم منسٹر کے کیا ریمارکس تھے، اس کا پھر کسی نشست میں ذکر کروں گا۔ پچھلے کالم کے بعد کچھ قارئین لکھا ہے کہ ’’اُس دور میں بازارحسن پر ریڈ ہوا تھا، اس کی اور ہالہ فاروقی اسکینڈل کی تفصیل بھی ضرور تحریر کریں‘‘۔ جب میں ایس پی سٹی تھا، اس وقت ریڈ لائٹ ایریا پر پولیس کا ریڈ ہوا تھا اور وہ شاید اس جگہ پر پولیس کا آخری ریڈ تھا۔
اس میں کچھ فلمی ایکٹرسیں بھی گرفتار ہوئیں، میرے دفتر کے باہر جن کے سفارشیوں کی کاروں کی میلوں لمبی لائن لگ گئی تھی۔ مجھ سے بہت سے لوگ ملنا چاہتے تھے مگر میں صرف دو افراد سے ملا، ان ملاقاتوں میں کیا ہوا اور صبح کرائم کنٹرول کمیٹی میں اس ریڈ پر کس ردِّعمل کا اظہار کیا گیا، اس پر بھی تفصیل سے بات ہوگی مگر پھر کسی نشست میں، فی الحال کوتوالِ شہرِلاہور کی یادوں کو یہیں ختم کرتے ہیں۔
[ad_2]
Source link