[ad_1]
بہت پہلے ایک لطیفہ سنا تھا کہ ایک دوست دوسرے دوست کو اپنے والد کی وفات پر خرچے کی بابت بتا رہا تھا، کچھ خرچوں کا رونا رو رہا تھا اور کچھ شیخیاں بگھار رہا تھا۔ کہنے لگا، ’’ ابا کے مرنے پر آٹھ من گھی خرچ ہوا ہے۔‘‘ دوست کا منہ حیرت سے کھلے کا کھلا رہ گیا اور بے اختیار اس نے سوال کیا۔ ’’ کیا تم نے اپنے ابا کو تل کر دفن کیا ہے؟‘‘ یہ فقط ایک لطیفہ نہیں ہے بلکہ ہمارے آج کے دور کی بہترین عکاسی کرتا ہوا طنز ہے۔
چند برس قبل ہمارے پاس ایک ملازم تھا، اس زمانے میں اس کی تنخواہ پانچ ہزار روپیہ تھی جو کہ اس نے منہ مانگے مقرر کی تھی۔ اس کے والد کا انتقال ہو گیا تو اس نے چھٹی کے ساتھ کچھ رقم بطور قرض بھی مانگی، ہم نے اسے دو ماہ کی تنخواہ کے برابر مزید رقم دے دی کہ چلو اپنے باپ کا مرنا اچھا کر لے گا، دل میں اس دھڑکے کے ساتھ کہ جانے وہ لوٹ کر آئے گا بھی کہ نہیں۔ اس سے سوال کیا کہ وہ کتنے دنوں میں لوٹ کر آئے گا تو کہنے لگا کہ کم از کم دسواں کر کے۔ اسے سمجھانے کی ایک ناکام کوشش کی کہ وہ ان تیجے، پانچویں اور دسویں کے چکروں میں کیوں پڑتا ہے۔
اپنا خرچہ ہی بڑھائے گا۔ کہنے لگا، ’’ ہم باپ کا مرنا اچھا نہیں کریں گے تو ہماری بے عزتی ہے، لوگ کہیں گے کہ ان میںدم نہیںہے۔‘‘ اسے بہت سمجھایا کہ اپنا نقصان کرنے سے بہترہے کہ لوگوں کی باتوں کو نظر انداز کریں ۔ مگر وہ مصر رہا اور مزید دو ماہ کی تنخواہ ساتھ لے کر وہ روانہ ہوا۔ اپنے مرحوم والد کا دسواں کر کے وہ لوٹا تو اس کے کندھے اس فخر سے چوڑے ہو رہے تھے مگر سر قرض کے بوجھ سے جھکا ہوا تھا۔
’’ کافی تھی رقم آپ کے پاس اپنے والد صاحب کی وفات کے بعد ساری رسومات پورے کرنے کے لیے؟‘‘ اس سے اظہار افسوس کے بعد میں نے سوال کیا۔
’’ نہیں باجی، میں نے پچیس ہزار کا مزید قرض بھی اٹھایا ہے، بہت بڑی برادری ہے نا، اس لیے مجھے کسی سے پکڑ کر رقم خرچ کرنا پڑی۔‘‘ اس نے شرمندگی سے کہا، ’’ اب آپ مہربانی کریں اور مجھے پچیس ہزار مزید دے دیں، ہر مہینے میری تنخواہ میں سے یہ رقم آپ تھوڑی تھوڑی منہا کر لیں۔‘‘ اس نے التجائیہ لہجے میں کہا۔ ایسا کرنا پڑا، ظاہر ہے کہ ملازمین کو رکھنا ہو تو ان کے نخرے بھی اٹھانا پڑتے ہیں۔ اس نے وہ رقم دو سال سے بھی زائد عرصے میں تنخواہ میں سے کٹوائی کبھی ہزار کٹواتا، کبھی پانچ سواور کبھی پندرہ سو۔
گزشتہ چند دنوں میں ہمارے گاؤں میں اور اس کے قرب و جوار میں چند ایسے لوگوں کی وفات ہوئی جن کی معمولی سی بیماریوں کا علاج کروانا بھی ان کے اختیار میں نہ تھا کیونکہ ان گھروں میں غربت بہت زیادہ تھی اور گھروں کے کفیل ہی جب بیمار پڑ جائیں تو ان گھروں کا چولہا جلنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ ان گھروں میں جب افسوس کے لیے گئے تو حالات یہ تھے کہ ان گھروں میں تنگی اور عسرت اتنی کہ کسی کو اپنے گھر میں بٹھا بھی نہیں سکتے ، محلے میں کوئی ایسا گھر ہو کہ جہاں مناسب جگہ ہو تو ان گھروں میں میت رکھی جاتی ہے۔
مرگ کا کھانا چند روز تک قریبی رشتہ دار بناتے ہیں کہ یہی رسم ہے۔ وہ تمام رشتہ دار جو ان حالات میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں، ایک نے پہلے دن مرغی اور روٹی دی تو دوسرے نے اگلے دن مرغی کے ساتھ چاول، اگلے دن مرغی کا سالن اور روٹی اور ساتھ زردہ… اس سے اگلے دن بکرے کے گوشت کا سالن اور زردہ۔ اس مر جانے والے کے بعد رشتہ داروں میں مقابلے کی وہ دوڑ لگی ہوتی ہے کہ اگر یہ دوڑ انسانوں کی خوشنودی اور واہ واہ حاصل کرنے کے بجائے، اللہ کی رضا کے لیے ہوتی تو شاید مرنے والا بھی چار دن سکھ کے دیکھ لیتا۔
[ad_2]
Source link