[ad_1]
برصغیر کا ایک مسلمان بادشاہ جس نے دہلی میں اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی قطب الدین ایبک ایک مرتبہ شکار کھیلنے گیا، جب اس نے تیر چلایا تو وہ شکار کے بجائے نشانہ خطا ہونے کی وجہ سے ایک نوجوان کو جا لگا جس سے اس کی موت واقع ہو گئی۔
بادشاہ نے اس نوجوان کے لواحقین کے بارے میں معلومات حاصل کیں تو پتا چلا کہ وہ قریب کے ایک گاؤں میں رہائش پذیر بوڑھی خاتون کا واحد سہارا تھا جو جنگل سے لکڑیاں چن کر بازار میں بیچتا اور جو پیسے ملتے اسی سے اپنا اور بوڑھی ماں کا پیٹ پالتا تھا۔ قطب الدین ایبک اس نوجوان کی ماں کے پاس گیا اور اسے بتایا کہ شکار کرتے ہوئے میرا پھینکا ہوا تیر غلطی سے تیرے بیٹے کو لگ گیا جس سے اس کی موت واقع ہوگئی ہے۔
یہ سن کر بوڑھی ماں صدمے سے نڈھال روتے روتے بے ہوش ہوگئی۔ قطب الدین ایبک نے خود کو قاضی کے حوالے کر دیا اور اپنا جرم بتاتے ہوئے اسے اپنے خلاف مقدمہ چلانے کی آزادی دے دی۔ قاضی نے نوجوان کی بوڑھی ماں کو عدالت میں بلوایا اور کہا کہ’’ تم جو سزا کہو گی وہ اس مجرم کو دی جائے گی۔‘‘ بوڑھی عورت نے کہا کہ ’’ ایسا انصاف پسند بادشاہ پھر کہاں ملے گا جو اپنی ہی سلطنت میں خود اپنے ہی خلاف مقدمہ چلائے۔ بے شک ! میرے بیٹے کی جان گئی، میں اس غلطی کے لیے جو اس نے جان بوجھ کر نہیں کی، اسے معاف کرتی ہوں۔
آج سے قطب الدین ایبک ہی میرا بیٹا ہے۔‘‘ بوڑھی ماں کی بات سن کر قاضی نے قطب الدین کو قتل کے اس مقدمے سے بری کر دیا اور بادشاہ سے کہا کہ ’’ اگر تم نے عدالت میں ذرا بھی اپنی بادشاہت کا رعب دکھا کر عدالت پر دباؤ ڈالا ہوتا تو میں اس بڑھیا سے پوچھے بغیر تمہیں خود ہی سخت ترین سزا دیتا۔‘‘ قاضی کی اس بات پر قطب الدین ایبک نے اپنی کمر سے خنجر نکال کر قاضی کو دکھاتے ہوئے کہا کہ ’’ اگر تم نے مجھ سے مجرم کی طرح رویہ نہ اپنایا ہوتا اور میری بادشاہت کا لحاظ اور خیال کیا ہوتا تو میں تمہیں اس خنجر سے موت کے گھاٹ اتار دیتا۔‘‘
یہ ہے اصل حکمرانی، حقیقی انصاف اور اسلام کی تعلیمات بھی کہ اگر نبی کی بیٹی بھی چوری کرے تو اس کے بھی ہاتھ کاٹ دیے جائیں، یہی تو عدل کا اصل پیمانہ ہے۔ عادل ہمہ وقت عادل ہوتا ہے، اس کی بات عدالت، اس کی خاموشی عدالت، اس کی گواہی عدالت، اس کے فیصلے عدالت، اس کا خیال عدالت، اس کا عمل عدالت، اس کی زندگی عدالت اور اس کی موت بھی ایک بڑی عدالت۔
بعینہ انصاف پسند عادل حکمران بھی اور قانون پسند شہری بھی اعتراف جرم کرکے خود کو عدالت کے سامنے پیش کر دیتے ہیں اور کھلے دل و دماغ سے اپنے جرم کی سزا کو قبول کر کے خود کو عدالت کے روبرو سرنگوں کر دیتے ہیں۔ یہی باضمیر لوگوں کا شیوہ ہے، یہی اعلیٰ ظرفی ہے، یہی قانون کا احترام ہے۔ اسی کو عدالت اور قاضی کی تعظیم کہتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں واقعی عدل و انصاف کا ایسا کوئی نظام موجود ہے جہاں عدل کرنے والے اور جرم کرنے والے دونوں کے دلوں میں خوف خدا موجود ہو؟ جہاں سچ اور جھوٹ کو صرف عدل کی کسوٹی پر پرکھا جائے؟ جہاں ہر دو فریق دودھ کو دودھ اور پانی کو پانی کہنے کی جرأت اور حوصلہ رکھتے ہوں؟ جہاں عدلیہ، قانون اور منصفوں کا احترام کیا جات ہو؟ جہاں ملزموں اور مجرموں کو ان کے بنیادی حقوق کا تحفظ حاصل ہو؟ جہاں منصف صرف اپنے فیصلوں میں بولتے ہوں اور مجرم اپنے جرائم خاموشی سے قبول کر لیتے ہوں؟
افسوس کہ ایسے بہت سے سوالوں کا جواب ایک واضح نفی میں ہے۔ صرف پاکستان نہیں امریکا جیسے مہذب ملک میں بھی عدل و انصاف کی ایسی ہی صورتحال نظر آ رہی ہے جس کی تازہ مثال امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو جعل سازی کے 34 الزامات میں مجرم قرار دے دیا گیا ہے۔ انھیں 11 جولائی کو سزا سنائی جائے گی۔
صدر ٹرمپ نے سزا قبول کرنے کے بجائے جج کو کرپٹ، متعصب اور عدالتی کارروائی کو دھاندلی والی سماعت قرار دیا اور ساتھ ہی یہ کہا کہ اصل فیصلہ5 نومبر کو عوام کریں گے۔ واضح رہے کہ 5 نومبر کو امریکا میں صدارتی انتخابات ہونے جا رہے ہیں اور صدر ٹرمپ اس میں امیدوار ہیں۔ حالیہ مقدمے اور سزا کے باوجود وہ انتخابات میں حصہ لینے کے لیے نااہل نہیں ہیں اور انتخاب جیتنے کی صورت میں جیل میں بھی صدر کا حلف اٹھا سکتے ہیں۔ صدر ٹرمپ کی سزا امریکی نظام عدل کے حوالے سے موضوع بحث بنی ہوئی ہے اور صدر ٹرمپ کا عدلیہ کے حوالے سے بیان بھی سوالات کو جنم دے رہا ہے کہ عدل کی کسوٹی کیا ہے؟
وطن عزیز بھی اسی جنجال میں گھرا ہوا ہے۔ ہمارا نظام عدل دنیا کے 128 ممالک میں 120 ویں نمبر پر ہے، کیوں؟ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم کبھی ’’نظریہ ضرورت‘‘ کو جنم دیتے ہیں اور کبھی بھٹو جیسے سیاستدان کو دباؤ کے تحت پھانسی چڑھا دیتے ہیں پھر اس فیصلے کو غلطی تسلیم کر لیتے ہیں۔ کبھی اہل سیاست کو سسلین مافیا قرار دیا جاتا ہے اور کبھی انھیں تاحیات نااہل قرار دے دیا جاتا ہے اور کبھی نااہلی کو ختم کر دیا جاتا ہے۔
ہمارے حکمران بادشاہوں کا طرز عمل بھی کبھی مثالی نہیں رہا۔ نظام عدل کے حوالے سے انھیں بھی ہمیشہ تحفظات رہے ہیں۔ بہت کچھ کہا سنا جاتا رہا ہے جو سب تاریخ کا حصہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سارا کھیل مفادات کا ہے۔ ہم سب مفادات کے اسیر ہیں، ملکی مفادات کے تحفظ، نظام عدل میں توازن، معیشت کے استحکام، جمہوریت کے تسلسل اور عوامی مسائل کے حل میں کون سنجیدہ ہے؟ جب تک ہم اپنے اپنے مفادات کے غلام بنے رہیں گے یہ ملک بھی جی کا جنجال بنا رہے گا۔
[ad_2]
Source link