11

بلوچی ادب، تاریخ۔ مست توکلی

[ad_1]

بارہویں صدی میں جب بلوچوں نے میر جلال کی سربراہی میں مکران کے علاقے میں مرکزیت قائم کی تو وہاں سے سیاسی اور ادبی سفر شروع ہوا۔

دنیا کی تاریخ یہ ثابت کرتی ہے کہ زبان و ادب ریاست کی مدد سے جلدی ترقی کی منازل طے کرتا ہے۔بلوچی زبان و ادب نے بارہویں صدی عیسوی میں مکران کی آزاد فضاؤں میں اپنے سفر کا آغاز کیا۔ بلوچی کلاسیکل ادب کی ابتدا یہیں سے ہوئی۔

بلوچی ادب میر چاکر رند کے دور تک پہنچتے پہنچتے کٹھن حالات میں بلوغت کی جانب رواں دواں رہا،البتہ بلوچی ادب کے دستیاب خزانے کا تعلق پندرھویں صدی میں میر چاکر رند کے دور سے ہے۔ادبی محققین کی رائے میں میر چاکر رند کے دور میں یہ ادب شروع نہیں ہوا بلکہ یہ پہلے سے چلی آ رہی خوبصورت روایت کا ایک تسلسل ہے۔

15ویں صدی کے منظوم پاروں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ بلوچی زبان میں لکھنے کا رواج بہت پہلے سے چلا آ رہا تھا لیکن زمانے کی دست برد کے ہاتھوں اس کے آثار باقی نہیں رہے۔ مقامِ حیرت ہے کہ جو گویے میر چاکر رند اور گوہرام لاشاری کے زمانے کے اشعار زبانی گا کر موجودہ دور تک منتقل کرتے آئے ہیں،ایسے لوگوں نے میر چاکر سے پہلے کے زمانے کے ادب کو کیونکر زندہ نہ رکھا۔

قبائلی نظامِ حیات چند بنیادی رسوم و روایات پر قائم ہوتا ہے۔ان روایات میں سخاوت، شجاعت،  مہمان نوازی،اچھی ہمسائیگی اور اخلاصِ عمل بہت نمایاں ہوتے ہیں۔بلوچی ادب انھی روایات کو آگے بڑھاتا رہا ہے۔18ویں صدی عیسوی میں جب پہلی بار بلوچی ادب کو ضبطِ تحریر میں لانے کی کاوش شروع ہوئی تو اس کے لیے عربی اور فارسی رسم الخط استعمال کیا جانے لگا۔بلوچی شاعری میں خود داری،انانیت،قوم پرستی اور عسکریت کا سبق ملتا ہے۔بلوچ شاعر فطرت سے اثر پذیر نظر آتا ہے اور فطرت کی ترجمانی کرتا ہے۔اس کی شاعری میں تلواروں کی جھنکار بھی ہے،محبت سے لبریز دلوں کی پکار بھی ہے،کامیابی کی فتح پر جشن بھی ہے، ناکامی و مایوسی کی آہ بھی ہے اور کھُلتے موسم کی امنگ بھی ہے۔

عہدِ چاکری سے لے کر بیسویں صدی میں پچاس کی دہائی تک بلوچی ادب نے بڑے نشیب و فراز دیکھے۔ واحد بخش بزدار لکھتے ہیں ’’ چاکری عہد سے لے کر قیامِ پاکستان سے چند سال پہلے تک بلوچی شاعری محبت و مزاحمت کے شعری رویوں اور رجحانات کی غماز تھی۔قیامِ پاکستان کے بعد محبت و مزاحمت کا یہی رویہ ایک نئی رومانیت اور نئی مزاحمت میں ڈھلتا گیا۔یہ نئی رومانیت اور نئی مزاحمت پورے بنی نوع انسان سے محبت،استحصال،عدم مساوات،طبقاتی جبر اور ہر قسم کی بد صورتی کے خلاف ایک اجتماعی اور عالمگیر اظہار کی علامت ہے۔بلوچی ادب کے فروغ کی باقاعدہ اور شعوری جدو جہد کا آغاز ہمیں بیسویں صدی کی پانچویں اور چھٹی دہائی میں تحریک پاتا دکھائی دیتا ہے۔

کوئٹہ اور کراچی سے ریڈیو پر بلوچی نشریات کا آغاز اور بلوچی زبان و ادب کے فروغ کے لیے تنظیموں کا قیام اور بلوچی رسالوں اور مجلوں کے اجرا نے بلوچی زبان کے نثری ادب کو نئی جہتوں سے آشنا کیا۔کراچی میں اسی دہائی میں بلوچی تنظیمیں قائم ہوئیں۔اس دوران کراچی ریڈیو سے بلوچی نشریات نے ان بلوچی ادبی تنظیموں کے تخلیقی عمل کو تقویت دی۔اس ماحول میں نئے اور جدید ادب کو فروغ ملا اور نثر اور نظم میں نئی اصناف متعارف ہوئیں مثلاً غزل،رباعی،فیچر،افسانہ ، ڈرامہ،مقالہ وغیرہ۔پھر کراچی میں 1957میں بلوچی ادبی دیوان کے نام سے ایک ادبی ادارہ بنایا گیا۔اس ادبی ادارے نے میر گل خان نصیر کا شعری مجموعہ گلبانگ شائع کیا۔

یوں ریڈیو اور اخبارات و رسائل کے ذریعے بلوچی تحریری ادب نے نئے سفر کا آغاز کیا جو اب تک جاری و ساری ہے۔بلوچی اکیڈمی کوئٹہ بلوچی زبان و ادب اور بلوچی ثقافت کے فروغ کا سب سے بڑا ادارہ ہے جس نے اپنے قیام سے اب تک کم و بیش 6سو کتابیں شائع کی ہیں۔بلوچی اکیڈمی کے علاوہ تین درجن سے زائد ادبی رسالے و مجلے ،ایک درجن کے قریب ادارے اور ایک ویب سائٹ بلوچی زبان اور ادب و ثقافت کے فروغ میں جدو جہد کر رہے ہیں۔  بلوچی زبان و ادب پر ایک سرسری سی نگاہ ڈالنے کے بعد اب ہم بلوچی ادب کے ایک بڑے نام مست توکلی کا تذکرہ کرتے ہیں۔

مست توکلی 19ویںصدی کا ایک بلوچ صوفی شاعر اور ریفارمسٹ تھا۔مست کو بلوچی ادب کے بانیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔فیوڈل سسٹم اور بلوچ سرداروں و حکمرانوں کی مطلق العنان حکمرانی کا مخالف، یہ عظیم شاعر سوسائٹی کے ان طبقات کی بات کرتا ہے جو سراسر محرومی کی زندگی گزارتے ہیں۔مست توکلی انگریز راج کا بھی شدید مخالف تھا۔ نو آبادیاتی نظام کا یہ مخالف اپنی شاعری میں نو آبادیاتی نطام کی قباحتوں کو اپنا موضوع بناتا ہے۔اسے اس بات پر بہت خراج، تحسین پیش کیاجاتا ہے کہ اس نے آپسی بھائی چارے، امن،برداشت اور عالمگیر محبت کی بات کی ہے۔مست توکلی نے بلوچستان کے علاقے کوہلو میں کاہان کے قریب منک بند میں غالباً 1825 میں جنم لیا۔

مست توکلی تقریباً28سال کی عمر میں ایک شادی شدہ خاتوں سمو سے ملا۔ریوڑ چراتے ہوئے شدید طوفان نے اسے آ گھیرا۔ اور وہ طوفان سے بچنے کے لیے پناہ گاہ تلاش کرنے لگا۔ قریب ہی اسے ایک گھر نظر آیا۔اس نے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔دروازہ گھر کی مالکن سمو نے کھولا۔کہا جاتا ہے کہ مست توکلی سمو کو دیکھتے ہی ہوش کھو بیٹھا اور دل ہار گیا۔

اس واقعہ کے بعد اس نے اپنی ساری زندگی ایک Vagabondکی طرح گزاری۔اسی دوران اس نے شاعری شروع کر دی۔اس نے عظیم یونانی شاعر ہومر کی طرح اپنی شاعری کو گیتوں کی شکل میں گانا شروع کر دیا۔سمو کو دیکھنے کے بعد پہلے پہلے اس نے معمول بنا لیا کہ وہ اپنے ریوڑ کو سمو کے گھر کے قریب لا کر چھوڑ دیتا اور خود سمو کے دروازے پر نظریں گاڑ دیتا کہ شاید سمو کسی وقت دروازے پر آئے اور اسے دیدار کی نعمت نصیب ہو۔سمو کے گاؤں والوں کو مست کا یہ انداز پسند نہ آیا اور انھوں نے اسے وہاں نہ آنے کی تلقین کی۔

مست توکلی پر اس تلقین کا کوئی اثر نہ ہوا کیونکہ وہ دل کے ہاتھوں مجبور تھا۔توکلی کے رویے سے تنگ آ کر سمو کے خاوند نے سمو کو ساتھ لیا اور وہ گھر اور گاؤں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر کہیں چلا گیا۔سمو کے منظر نامے سے غائب ہونے پر مست توکلی کی زندگی اندھیر ہو گئی۔اس کی زندگی کا کوئی واضح مقصد نہ رہا۔شروع میں اس نے قریہ قریہ گھومنا اور گانا شروع کیا اور پھر ایک درگاہ کے احاطے میں قیام پذیر ہو گیا۔ یہاں اس نے شاعری کے ذریعے معاشرے کو سدھارنے کی طرف توجہ دی۔اسی حالت میں سمو کی محبت سے بلند ہو کر خالق سے لو لگا لی۔کہتا ہے۔

نندوں کاہاں آ بیثاغوں کوہانی مری،وا رضا بیثو بہانہ گاہے سمو اے کٹی ء ی۔میں کاہاں کا ایک عام سی مری ہوں،میرے رتبے کی بات نہ کرو۔میں نے خدا کو حاصل کر لیا ہے،سمو تو بس ایک بہانہ بنی۔

مست توکلی 1892میں67سال کی عمر میں اس دارِ فانی سے کوچ کر گیا،لیکن اپنے اشعار اور نغموںسے بلوچی ادب کو مالا مال کر گیا۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں