[ad_1]
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ چین کی ترقی ہم سب کے لیے قابل تقلید مثال ہے، پاکستانی کمپنیاں چینی ماڈل اپنائیں، اپنی مصنوعات کو بہتر انداز میں دنیا کے سامنے پیش کریں، حکومت مکمل تعاون کرے گی۔
بزنس کانفرنس کے موقعے پر پاکستانی اور چینی کمپنیوں کے درمیان بزنس ٹو بزنس میٹنگز کے بعد مختلف شعبوں میں 32 مفاہمت کی یاد داشتوں پر دستخط کیے گئے، بزنس کانفرنس میں پاکستان سے ایک سو بیس کمپنیوں نے شرکت کی جب کہ چین کی پانچ سو سے زائد کمپنیوں اور ممتازکاروباری شخصیات کی پاکستانی کمپنیوں کے ساتھ بزنس ٹو بزنس میٹنگز ہوئیں۔
وزیراعظم شہباز شریف کا دورہ چین انتہائی کامیابی سے جاری ہے اور روزانہ کی بنیاد پر ہمیں خوش کن خبریں سننے کو مل رہی ہیں، بلاشبہ چینی سرمایہ کاری سے ملکی معاشی منظر نامے میں تبدیلی آئے گی۔ 32 معاہدوں اور مفاہمتی یاد داشتوں پر دستخط ہونے کے بعد کہا جا رہا ہے کہ اِن معاہدوں کے دور رس اور ٹھوس نتائج برآمد ہوں گے، روزگار کے مواقعے میسر آئیں گے اور معاشی سرگرمیوں کو مزید فروغ ملے گا۔
اِس وقت پاکستان کو مختلف شعبوں میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی اشد ضرورت ہے اور اِس حوالے سے وزیر اعظم کے دورہ چین کو ایک بڑی پیش رفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ گزشتہ ماہ کے آخری عشرے میں یہ خبر آئی تھی کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے غیرملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہونے لگا ہے اور قریباً دو سال بعد پاکستان میں قریباً 26 کروڑ ڈالرکی براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری پاکستان آئی۔
سرکاری اعداد وشمار کے مطابق اِس براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری سے ماہانہ بنیادوں پر 100 فیصد اضافہ ہوا۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کے علاوہ بھی معیشت کے لگ بھگ سب ہی اشارے مثبت ہیں، معیشت درست سمت میں گامزن ہے تاہم ابھی منزل بہت دور ہے، یہ ہرگز نہیں کہا جا سکتا کہ تمام تر مسائل پر قابو پا لیا گیا ہے، حکومت کو ایک طویل کٹھن سفر طے کرنا ہے۔
اس کے اثرات عام آدمی تک پہنچنے میں وقت درکار ہے۔یہ خبر بھی خوش آیند ہے کہ ایشیائی ترقیاقی بینک نے پاکستان میں پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کے تحت دوسوپچاس ملین ڈالر(پچیس کروڑ ڈالر) قرض کی منظوری دیدی ہے، اے ڈی بی کے مطابق پاکستان کو ملنے والا قرض بنیادی ڈھانچے اور خدمات میں سرمایہ کاری کے لیے ہے۔
چین پاکستان اقتصادی راہداری بہترین منصوبہ ہے، ترقیاتی منصوبوں میں چین کا کردار قابل تحسین ہے، چینی کمپنیوں کے پاکستان میں کام کرنے پر روزگارکے مواقعے فراہم ہوئے، اب دونوں ممالک سی پیک کے دوسرے مرحلے میں داخل ہورہے ہیں، دوسرے مرحلے میں اسپیشل اکنامک زونز کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے، چین اور پاکستان مل کر سی پیک کے ذریعے فاصلوں کو سمیٹ رہے ہیں۔
گوادر پورٹ آیندہ آنے والے دنوں میں مصروف ترین بندرگاہ ہوگی، سی پیک کو کامیابی سے ہمکنارکرنے کے لیے چین اور پاکستان کی حکومتوں، کمپنیوں اور تمام سماجی شعبوں کی مشترکہ اور ان تھک کوششوں کی ضرورت ہے۔ اس کی تعمیر کے عمل میں دونوں فریقوں نے سائنسی منصوبہ بندی کے اصولوں، تسلسل سے عمل درآمد، مشاورت کے ذریعے اتفاق رائے، باہمی فائدے اور وِن وِن ریزلٹس کے ساتھ ساتھ معیار اور حفاظت کو یقینی بنانے پر بھی اتفاق کیا ہے۔ دونوں فریقوں نے ترجیحی یا ارلی ہارویسٹ منصوبوں کی فہرست مرتب کرنے کے ساتھ ساتھ سی پیک کے لیے طویل المدتی منصوبہ بنانے پر اتفاق کیا ہے۔
سی پیک ایک طویل المدتی منصوبہ بندی پر محیط منصوبہ ہے جس کی مکمل طور پر تکمیل 2030کو ہو جائے گی۔ سی پیک کی منصوبہ بندی اور تعمیر کے عمل میں دونوں فریقوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ دونوں ممالک کی حکومتوں کو رہنمائی فراہم کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور کمپنیوں کو مارکیٹ کے قوانین کے مطابق سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔ مزید برآں دونوں حکومتیں اور کمپنیاں کام کی واضح تقسیم کے ساتھ ساتھ باہمی تعاون کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں تاکہ مستقبل میں سی پیک کی ترقی کو فروغ دیا جاسکے۔
سی پیک کے مرکزی کردار کے ساتھ ساتھ گوادر بندرگاہ، توانائی، نقل و حمل کے بنیادی ڈھانچے اور صنعتی تعاون سمیت چار اہم شعبوں کو ملحوِظ نظر رکھا گیا ہے تاکہ وِن ٹو وِن نتائج اور مشترکہ ترقی کو فروغ دیا جاسکے۔
درمیانی مدت سے طویل المدتی منصوبہ بندی میں دونوں فریقین فنانشل سروسز، سائنس و ٹیکنالوجی، سیاحت، تعلیم، غربت کے خاتمے اور سٹی پلاننگ جیسے شعبوں میں باہمی تعاون کو فروغ دینے کے مواقع تلاش کریں گے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس میں توسیع کریں گے تاکہ چائنہ پاکستان آل راؤنڈ کوآپریشن کے دائرہ کار میں مزید توسیع کی جاسکے۔
سی پیک کے جنوبی سرے میں سمندری دہانے پر واقع گوادر بندرگاہ میگا پراجیکٹ کے اہم منصوبوں میں سے ایک ہے۔ صنعتی تعاون سی پیک کا ایک اہم ترین شعبہ ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعاون کو وسعت دینے اور بڑھانے کے ساتھ ساتھ ترقی کی نئی راہیں ہموار کرنے کے لیے صنعتی تعاون نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ اس شعبے میں تعاون کے فروغ کے بڑے مواقع کو بروئے کار لاکر روشن مستقبل کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں چین کو تجربہ، ٹیکنالوجی، فنانسنگ اور صنعتی صلاحیتوں کا امتیاز حاصل ہے جب کہ پاکستان اپنے وسائل، افرادی قوت اور مارکیٹ کے سازگار حالات سے استفادہ کر سکتا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک صنعتی تعاون کو مزید فروغ دینے کے لیے آگے بڑھ کر باہمی مفادات اور و ن ٹو وِن نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔چین اپنے دیرینہ دوست اور فریق ملک پاکستان کو اعلیٰ معیار کی صنعتی صلاحیتیں فراہم کرنے اور معروف چینی کمپنیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کی ترغیب دینے کا خواہاں ہے۔ پاکستان خصوصی اقتصادی علاقوں کے مقامات کا خوش اسلوبی اور سوچ بچار کے ساتھ تعین کر رہا ہے اور ان میں باہمی اتفاق رائے والے خصوصی اقتصادی علاقوں میں ترجیحی پالیسیاں وضع کرنے کے ساتھ ساتھ سازگار ماحول اور سہولیات فراہم کر رہا ہے۔
اِسی دورے کے دوران چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے دوسرے مرحلے کا باضابطہ افتتاح متوقع ہے۔ اِس کے علاوہ سب سے اہم مسئلہ پاکستان پر واجب الادا پاور سیکٹر کا 15 ارب ڈالر کا قرض رول اوور کرانا بھی ہے، وزیراعظم اپنے دورے کے دوران بھرپور کوشش کریں گے کہ اِس میں کامیابی ہوجائے۔
سی پیک کے ذریعے زراعت کے شعبہ کی ترقی اور بہتری پر بھی خصوصی توجہ دی جائے گی، زراعت کا شعبہ پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، چینی اسٹڈی گروپ کے ساتھ مل کر زرعی تحقیق پر کام ہورہا ہے، چینی کمپنیاں کارپوریٹ فارمنگ میں دلچسپی لے رہی ہیں، ہمارے بزنس ہاؤسز اور چائنیز کمپنیاں مل کر کام کر رہی ہیں۔
ملک میں توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات شروع کیے گئے ہیں تاکہ ملک کے ہر شہری کو سستی اور گرین انرجی مہیا کی جاسکے۔ سی پیک کے تحت 5.4ارب ڈالرکی لاگت سے تعمیر ہونے والا مین لائن۔ ریلوے ایم ایل ون سے 90 فی صد سے زائد پاکستانیوں کو روزگارکے مواقعے پیدا ہوں گے۔ مین لائن ون ٹریک سے ریلوے حادثات پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔
یہ کراسنگ فری ٹریک ہوگا جس سے کراچی سے لاہور تک کے سفری دورانیے میں سات گھنٹے کی کمی آئے گی، ایم ایل ون ایک انقلابی منصوبہ ہے جس سے پاکستان ریلوے کا پورا ڈھانچہ بہتر ہوگا، اربوں ڈالر مالیت کا یہ منصوبہ چین کی مدد سے پانچ سے آٹھ سال کی مدت میں مکمل ہوگا۔
عظیم طاقتوں کے ہمراہ پاکستان کے تعلقات اگرچہ انتہائی متضاد دکھائی دیتے ہیں، تاہم بیجنگ یا واشنگٹن دونوں میں سے کسی ایک کی جانب سے بھی محض انھی کے ساتھ تعلقات قائم رکھنے کا مطالبہ نہیں کیا گیا ہے۔ مستقبل قریب میں چین کی جانب سے پاکستان سے وابستہ امیدوں میں نمایاں اضافے کا امکان ہے، خاص کر اس صورت میں کہ جب پاکستان چین پر معاشی طور پر انحصار شروع کردے۔
انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کی ہدایات کے تحت بنائے گئے بجٹ میں عوام کو فوری ریلیف ملنا مشکل نظر آ رہا ہے، اِس کے لیے حکومت کو نہ صرف اپنے اخراجات میں کمی کرنا ہو گی بلکہ اپنی گورننس کو بھی بہتر بنانا پڑیگا، عوام کو ہر ممکن ریلیف دینے پر غور کرنا ہو گا۔ اْمید ہے کہ وزیرِاعظم کا دورہ چین نہ صرف دونوں ممالک کی دوستی کو نئی بلندیوں کی طرف لے جائے گا بلکہ پاکستان کے لیے بھی نئے راستے کھولنے کا سبب بنے گا تاکہ پاکستان خود اپنے پیروں پر کھڑا ہو سکے۔
[ad_2]
Source link