11

خدارا، ایسا نہ کیجیے – ایکسپریس اردو

[ad_1]

بستی سے دور ایک گرو کا آشرم تھا، تحصیل علم کے بعد ایک شاگرد اپنے گرو کا آشیرواد لے کر شہر کی طرف روانہ ہوا، گھومتا ہوا وہ ایک بستی میں جا نکلا، وہاں پہنچا تو لوگوں سے پتا چلا کہ اس بستی کا نام ’’اندھیر نگری‘‘ ہے اور وہاں ہر چیز ٹکے سیر بک رہی ہے۔

کھویا بھی ٹکے سیر اور ساگ بھی ٹکے سیر۔ مٹھائی بھی ٹکے سیر اور سبزی بھی ٹکے سیر، اس کو بڑا تعجب ہوا کہ ایسی بستی جہاں مکھن ملائی بھی ٹکے سیر بک رہی ہے اس کا نام ’’اندھیر نگری‘‘ کیوں ہے، وہ وہیں ٹھہرگیا اور مزے سے رہنے لگا۔

کھویا، ملائی اور مٹھائی کھا کھا کر خوب توانا اور تندرست ہوگیا، ایک دن وہ بازار سے گزر رہا تھا کہ اچانک دو سپاہیوں نے آ کر اسے پکڑ لیا اور ایک دوسرے سے کہنے لگے ’’ یہ موٹا تازہ ہے، پھندا اس کی گردن میں فٹ آئے گا۔‘‘ شاگرد نے پوچھا کہ ’’ اسے کس جرم میں پکڑ رہے ہو؟‘‘ تو وہ بولے ’’ ابھی بتاتے ہیں‘‘ اور اسے لے کر کوتوال کے پاس آئے، پتا چلا کہ کسی چور نے چوری کی نیت سے کسی گھر میں نقب لگائی تو وہاں گھر کا مالک سو رہا تھا، چور اس پر کود گیا جس سے مالک مر گیا۔

اس لیے اب اس چور کو پھانسی دی جا رہی ہے، لیکن پھانسی کا پھندا بڑا ہے اور چور کی گردن پتلی۔ اس لیے راجہ نے حکم دیا ہے کہ جس کی گرن میں پھانسی کا پھندا فٹ آجائے اسے پھانسی دے دو تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہو سکیں۔ پھندا شاگرد کی گردن میں فٹ بیٹھ رہا تھا اس لیے اسے پھانسی گھاٹ پہ لے جایا گیا، تو شاگرد نے کہا کہ ’’اب میری سمجھ میں آیا کہ اس بستی کو ’’ اندھیر نگری‘‘ کیوں کہتے ہیں، قصور کسی کا اور پھندا کسی اور کی گردن میں۔‘‘

اس کہاوت کو بیان کرنے سے میری مراد وہ خبر ہے جو 29 مئی کے اخبارات میں پہلے صفحے پر نمایاں طور پر شایع ہوئی ہے جوکہ سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ اور پنشن اصلاحات کے حوالے سے ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ریٹائرمنٹ کی عمر 62 سال کرنے اور پنشن کی مدت صرف 20 سال کرنے کے ساتھ ساتھ بیوہ کو صرف 10 یا 15 سال پنشن ملے گی۔

بیٹی کی پنشن سرے سے ختم کرنے کی تجاویز لائی جا رہی ہیں کیونکہ ’’بڑے بقراطوں‘‘ کے مطابق پنشن قومی خزانے پر بوجھ ہے۔ اس لیے اسے ختم کیا جائے، اسی پہلے صفحے پر سب سے اوپر سرخی لگی ہے کہ سیاسی دباؤ کی وجہ سے 8 پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کو فارغ کرنے کا فیصلہ روک دیا گیا، جب کہ 589 ارب کے نقصانات کے باعث ڈائریکٹرز کو ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا تھا، ڈائریکٹرز نے مستعفی ہونے سے انکار کر دیا ہے۔

لہٰذا سب سے موٹی گردن والوں کے گلے میں پھندا چھوٹا پڑ رہا تھا، اس لیے سب سے پتلی گردن ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کی نظر آئی جس میں پھندا اسی طرح فٹ ہو گیا ہے جیسے اس شاگرد کی گردن میں ہوا تھا۔ کیا ہم بھی کسی ’’ اندھیر نگری‘‘ میں رہ رہے ہیں جہاں ’’چوپٹ راج‘‘ ہے؟

میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آئی ایم ایف کو کبھی ارکان اسمبلی کے الللے تللے نظر نہیں آتے، آئی ایم ایف نے کبھی یہ نہیں کہا کہ ارکان اسمبلی کی تنخواہیں بند کی جائیں کیونکہ یہ تو سارے زمیندار، جاگیردار اور سرمایہ دار ہیں، پھر بھی ان کی بھوک نہیں مٹتی، ہوس ختم نہیں ہوتی کہ سارا ملک ہڑپ کرنے کے باوجود یہ اسمبلی پہ بھی ڈاکے ڈالتے ہیں۔

اب آئیے پنشن اصلاحات کی طرف جو جولائی سے نافذ ہونے والی ہیں۔ (1)۔ ریٹائرمنٹ کے بعد صرف 20 سال پنشن ملے گی، اگر بندہ بیس سال سے زیادہ زندہ رہ گیا اور اس کی پنشن بند ہوگئی تو 82 سال کی عمر میں وہ کیا کرے گا؟ اسے اس عمر میں کہیں نوکری ملے گی؟ یا وہ 82 سال کی عمر میں نوکری کرنے کے قابل ہوگا؟

(2)۔ بیوہ کی پنشن 10 یا 15 سال ملے گی۔ اس کے بعد کیا ہوگا؟ وہ غریب کیسے زندہ رہے گی، کیا کرے گی؟ عورت ویسے ہی ہمارے ملک میں ایک کمزور اور بے بس ہستی ہے، یہ بیوائیں کسی زمیندار، جاگیردار، ارکان اسمبلی کی بیوائیں نہیں، یہ تو عام سرکاری ملازمین کی بیوائیں ہوں گی، جن کو جیتے جی مارنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔

(3)۔غیر شادی شدہ بیٹی کی پنشن بھی بند کی جا رہی ہے، بعض گھرانوں میں غیر شادی شدہ بیٹیاں ہوتی ہیں، بعض معذور بھی ہوتی ہیں، بعض بیٹے بھی معذور ہوتے ہیں، ان کا کیا ہوگا؟

جناب وزیر اعظم صاحب! آپ ایک سمجھدار اور ہمدرد انسان ہیں، ایسا نہ کیجیے۔

حکومت کو ارکان اسمبلی کی کرپشن نظر نہیں آتی، رشوت اور بدعنوانی سے کمائے ہوئے پیسے کا کوئی حساب نہیں۔ اربوں روپے دبئی منتقل کر دیے جاتے ہیں، اس کا کوئی سوال نہیں کیا جاتا، ایک عام آدمی تھوڑا تھوڑا کرکے جمع کرتا ہے اور برے وقت کے لیے بینک میں رکھواتا ہے تو بینک حساب پوچھتا ہے کہ ’’اس پیسے کی Source of Incomeکیا ہے؟ اب وہ ہزار کہہ رہا ہے کہ یہ میں نے بچت کی ہے، لیکن بینک ماننے کو تیار نہیں، کئی لوگوں کی اچھی رقم بینکوں نے ہڑپ کر لی کیوں کہ رشوت خور مگرمچھ بینکوں سے قرضہ تو لیتے ہیں لیکن بینکوں میں رقم رکھتے نہیں، بینک میں بھی رقم رکھتا ہے تو عام آدمی، جب کہ یہ کالا دھندا کرنے والے مگرمچھ ڈالر خریدتے ہیں، دبئی میں پراپرٹی بناتے ہیں، زمینوں پہ قبضے کرتے ہیں، پلازے اور ہاؤسنگ سوسائٹیاں بناتے ہیں، بیواؤں اور یتیموں کی زمینوں پہ قبضے ’’بڑے مگرمچھ‘‘ اور طاقتور گروہوں کی آشیرواد سے ہوتے ہیں، لیکن کسی مائی کے لال کی کیا مجال جو انگلی اٹھائے۔

ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ حکومت کے ہاتھ بھی بندھے ہوئے ہیں، فیصلے کہیں اور سے آتے ہیں اس کو تو صرف ان فیصلوں کی توثیق کرنی ہوتی ہے، لیکن اتنا اختیار تو وہ بھی رکھتی ہے کہ اس ظلم کو روکے اور پنشن اصلاحات کے نام پر سرکاری ملازمین کی گردن میں پھندا نہ ڈالے۔ سرکاری ملازم کا سارا سرمایہ اس کی پنشن ہوتی ہے، اسے اطمینان ہوتا ہے کہ اگر وہ مر بھی گیا تو اس کی بیوہ کو تاحیات پنشن ملتی رہے گی۔

البتہ آپ DMG افسران کی شاہانہ شان کو کم کر کے بھی بچت کر سکتے ہیں، تمام سرکاری ملازمین سے گاڑیاں واپس لے لی جائیں، ان کی خدمت کے لیے دیے گئے گھریلو ملازم ختم کر دیے جائیں تو بھی سرکاری خزانے کی بچت ہو سکتی ہے۔ آپ افسران کے AC بند کروایے، دفتر میں لوگ کام کرنے آتے ہیں ناکہ ٹھنڈے کمروں میں آرام کرنے کے لیے۔ عمران خان کے دور میں بھی یہ واویلا اٹھا تھا کہ ’’ پنشن ختم کر دی جائے‘‘ ۔

خدارا ! رحم کیجیے۔ لوگ بہت پریشان ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جن کی تنخواہ سے پہلے انکم ٹیکس کٹتا ہے پھر تنخواہ ملتی ہے۔ حکومت ٹیکس چوروں کو پکڑے اور آئی ایم ایف کے اس مطالبے کو نہ مانے، البتہ گھوسٹ ملازمین کو ختم کیجیے، اندرون سندھ اور پنجاب میں بہت سے گھوسٹ ملازمین ہیں، بلوچستان اور کے پی کو بھی نہ چھوڑیے، لیکن پنشن اصلاحات کے نام پر سرکاری ملازمین کا معاشی قتل عام بند کیجیے۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں