[ad_1]
کراچی: کراچی میں اسٹریٹ کرائم کی بڑھتی وارداتوں اور اس کے نتیجے میں متعدد افراد کی جانیں جانے پر سندھ اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن ارکان نے سخت احتجاج کیا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق جمعہ کو ایک طویل عرصے بعد سندھ اسمبلی کا اجلاس اسپیکر اویس قادر شاہ کی زیر صدارت شروع ہوا۔ ایوان میں محکمہ داخلہ سے متعلق وقفہ سوالات تھا، وزیر داخلہ ضیاالحسن لنجار نے ارکان کے مختلف تحریری اور ضمنی سوالوں کے جوابات دیئے۔
ایوان کی کارروائی کے آغاز ہی میں ماحول اس وقت کشیدہ ہوگیا جب اپوزیشن ارکان نے صوبہ سندھ خاص طور پر کراچی میں بدامنی کے واقعات پر سخت سوالات کے علاوہ ایوان میں شور شرابہ شروع کردیا۔ اپوزیشن ارکان نے احتجاج کے دوران ان مقتولین کی تصاویر بھی اٹھارکھی تھیں جو حالیہ ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں ہلاک ہوئے ہیں۔
اپوزیشن کے کئی ارکان اپنی نشستوں سےاٹھ کھڑے ہوئے جس پر اسپیکر نے کہا کہ ایوان میں وہ روایات نہ دہرائیں جو ماضی میں رہی ہیں، آپ لوگ سوال پوچھیں ایوان کا ماحول خراب نہ کریں۔
وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ جو اس وقت ایوان میں موجود تھے انہوں نے بھی اپوزیشن کے اس طرز عمل پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ طریقہ درست نہیں ہے اور یہ بات بھی مناسب نہیں کہ اپوزیشن لیڈر کھڑے ہو جائیں۔
ایم کیوایم رہنما اور سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر علی خورشیدی نے ارکان کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ کراچی میں امن وامان ہمارے لئے بہت اہم مسئلہ ہے، یہ کسی ایک شخص کے قتل کا معاملہ نہیں، شہر میں 70 جانوں کا مسئلہ ہے، جو اسٹریٹ کرمنلزکے ہاتھوں مارے گئے۔
ایم کیو ایم کی رکن سندھ اسمبلی قرہ العین نے کہا کہ کراچی میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کو قتل کیاجارہا ہے،بچے شہر میں قتل ہورہے ہیں،موبائل نقدی چھیننے کے بعد شہریوں کو قتل کردیا جاتا ہے۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ ان واقعات پر انہیں بھی دکھ ہے اور کوئی بھی شعور رکھنے والا شخص خوش نہیں ہوسکتا۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ ہلاک ہوئے ہیں ان کے لواحقین کو حکومت معاوضہ بھی دیتی رہی ہے ہم سے جہاں تک ممکن ہوتا ہے متاثرہ فیملی کی سپورٹ بھی کرتے ہیں سرکار اپنی ذمہ داری نبھارہی ہے۔
پیپلز پارٹی کی سعدیہ جاوید نے دریافت کیا کہ کیا کراچی میں بوری بند لاشیں پیپلز پارٹی بند کرانے میں کامیاب ہو گئی ہے؟ جس پر وزیر داخلہ نے کہا کہ بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ کراچی میں بند کر دی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب سے میں وزیر داخلہ بنا ہوں ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ملزمان کو گرفتار بھی کیا گیا ہے، کراچی میں اب وہ دن نہیں ہیں جب بارہ مئی جیسے واقعات ہو تے تھے اور نہ ہی ایک دن میں سو لاشیں گررہی ہیں۔
وزیرداخلہ کی تقریر کے دوران اپوزیشن کے شور شرابے پر وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن نے کہا کہ اگر کوئی سوال آیا ہے اور وزیر داخلہ جواب دے رہے ہیں تو سب کو سننا چاہیے اس پر اسپیکر نے شرجیل میمن کو ہدایت کی کہا وہ اپنی نشست پر بیٹھ جائیں۔
وزیرداخلہ نے اپوزیشن کی جانب سے پولیس کی ناکامیوں پر کڑی تنقید کے جواب میں کہا کہ میں اپنی پولیس کی تذلیل برداشت نہیں کروں گا، وزیر داخلہ نے کہا کہ اپوزیشن والے بوری بند لاشوں کے ذکر پر جذباتی نہ ہوں کیونکہ انہوں نے یہ کام نہیں کیا ہے۔
اپوزیشن کے شورو غل پر اسپیکر نے تنبیہ کی کہ اگر آپ لوگوں نے ایوان کے نظم وضبط کا خیال نہ کیا تو وہ اجلاس 20منٹ کے لئے ملتوی کردیں گے۔ انہوں نے کہا کہ آپ لوگ سمجھ دار ہیں، بیٹھ جائیں اورہاﺅس کو چلنے دیں۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ ایک زمانے میں کراچی میں ٹارچر سیل بھی ہوا کرتے تھے، اس حوالے سے ہم ایم کیو ایم کو تو کچھ نہیں کہہ رہے تو وہ پرسنل کیوں ہورہے ہیں۔ ماروی راشدی نے وقفہ سوالات کے دوران کہا کہ ایوان میں ایم کیو ایم کا غیر سنجیدہ رویہ قابل مذمت ہے ، ان کے ارکان کو پارلیمانی روایات کا علم ہی نہیں،یہ پہلی بار ایوان میں آئے ہیں۔
اس موقع پر ماروی راشدی نے کہا کہ اجمل پہاڑی اور صولت مرزا جیسے ٹارگٹ کلرز کا تعلق کس سے تھا سب کو معلوم ہے، یہ اپوزیشن والے شریف لوگ ہیں ہم تو انہیں کچھ نہیں کہہ رہے جو ماضی میں تھے ۔ ماروی راشدی بولیں کہ یاد ماضی عذاب ہے یارب۔وقفہ سوالات کے دوران ایوان میں وقفے وقفے سے شور شرابے کا سلسلہ جاری رہا اور ایوان مچھلی بازار کا منظر پیش کررہا تھا۔
اپوزیشن لیڈر علی خورشیدی نے کہا کہ حکومتی ارکان یہ نہیں چاہتے کہ ہم کراچی کے امن و امان پر بات کریں۔انہوں نے اسپیکر سے شکایت کی کہ وزیر داخلہ انہیں بولنے کا موقع ہی نہیں دے رہے ہیں۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ میں تو صرف ماضی یاد دلارہا ہوں جس پر یہ برا منارہے ہیں۔
وزیر داخلہ نے کہا اجمل پہاڑی اس وقت کہاں ہے اس کا انہیں علم نہیں البتہ ہماری پولیس نے اسے گرفتار کیا تھا، صولت مرزا کو بھی سندھ پولیس نے گرفتار کیا تھا وہ کئی معصوم لوگوں کے قتل میں ملوث تھا۔ ضیا الحسن لنجار نے کہا کہ ان کے علم نہیں کہ اجمل پہاڑی کو کورٹ نے رہا کیا یا ایگزیکیٹو آرڈر کے ذریعے رہائی عمل میں آئی۔
ایم کیو ایم کی رکن بلقیس مختیار نے اپنے تحریری سوال میں کہا کہ رحمان ڈکیر، عزیر بلوچ لوگوں کے سروں کے ساتھ فٹبال کھیلتے تھے ، اب لیاری کی امن کمیٹی کہاں گئی ؟ جس پروزیر داخلہ نے جواب دیا کہ رحمان ڈکیت کراچی کے شہریوں کا قاتل ہے جسے سندھ پولیس نے مارا ہے عزیر بلوچ پر مقدمات ہیں وہ جیل میں ہے۔
انہوں نے کہا کہ سندھ میں کمسن بچیوں کی شادی پر جو قانون موجود ہے جو لوگ خلاف ورزی کرتے ہیں ان کے خلاف اس قانون کے تحت سخت کارروائی کی جاتی ہے۔ پیپلز پارٹی کی ندا کھوڑو کے سوال کے جواب میں وزیر داخلہ سندھ نے بتایا کہ جو پولیس افسران دوران ڈیوٹی زخمی یا معذور ہو جاتا ہے اس اہلکار کو پانچ لاکھ روپے دیئے جاتے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے رہنما امداد پتافی کے سوال پر وزیرداخلہ نے کہا کہ پولیس کے شہداکے کواحقین کے لئے پولیس ویلفئیر فنڈ موجود ہے، خوشی اورغمی کے واقعات میں پولیس ویلفئیر فنڈ سے مدد کی جاتی ہے۔
وزیرِ داخلہ نے ایوان کو بتایا کہ چار سو نئے پراسیکوٹر بھرتی کیے جارہے ہیں تاکہ مقدمات جلد از جلد نمٹائے جاسکیں۔ وزیرداخلہ نے کہا کہ اندرن سندھ حالات بہت بہتری کی طرف جارہے ہیں، جیکب آباد سے کشمور تک بھی سفر باآسانی کیا جاسکتا ہے حالیہ دنوں میں جو لوگ اغوا ہوئے وہ ہنی ٹرپ کا شکار ہوئے بہت سے مغویوں کو پولیس نے بازیاب بھی کرالیا، کراچی میں مئی کے مہنے میں کوئی ٹارگٹ کلنگ نہیں ہوئی۔
پیپلز پارٹی کی ہیر سوہو نے جب سندھ میں گیس کی مسلسل لوڈ شیڈنگ کے خلاف ایوان میں اپنی تحریک التوا پیش کی تو اس وقت میں ایوان میں شور و غوغا جاری تھا۔ ایوان نے اس تحریک التوا کو بحث کے لئے منظور کرلیا۔ ایم کیو ایم کے ارکان اس موقع پر ایوان سے واک آﺅٹ کرگئے۔
اجلاس کے دوران سیفی برھانی یونیورسٹی بل ایوان میں پیش کیا گیا جسے اسپیکر نے مزید غور کے لیے متعلقہ مجلس قائمہ کے سپرد کردیا۔ بعدازاں اسپیکر ایوان کی کارروائی پیر10 جون تک ملتوی کردی۔
[ad_2]
Source link