[ad_1]
اگرچہ نریندر مودی نے لگاتار تیسری بار لوک سبھا انتخابات جیت کر پنڈت جواہر لال نہرو کا ریکارڈ برابر کر دیا۔مگر پنڈت جی نے آزادی کے بعد سے انیس سو باسٹھ تک جو تین حکومتیں تشکیل دیں ان میں کانگریس کی کسی اور جماعت کے ساتھ ساجھے داری نہیں تھی۔مگر مودی کو تینوں بار این ڈی اے ( نیشنل ڈیموکریٹک الائنز ) کے پلیٹ فارم سے انتخاب لڑنا پڑا۔
وہ الگ بات کہ دو ہزار چودہ اور انیس میں بی جے پی کو بطور سنگل جماعت سادہ اکثریت مل گئی۔لہٰذا اگر این ڈی اے نہ بھی ہوتا تو بی جے پی کے اقتدار کو کوئی بقائی خطرہ لاحق نہیں تھا۔چنانچہ مودی اور ان کے دستِ راست امیت شاہ نے جم کے دونوں بار این ڈی اے کو اعتماد میں لیے بغیر تمام اہم فیصلے کیے۔
لیکن اب ’’ مودی ہے تو ممکن ہے ‘‘ کے نعرے کی میعاد شاید پوری ہو چکی ہے۔نعرہ تو اس بار ’’ اب کی بار چار سو پار ‘‘ کا بھی لگایا گیا مگر بی جے پی کی نشستیں گزشتہ انتخابات ( تین سو تین ) کے مقابلے میں بھی تریسٹھ کم ہیں ( دو سو چالیس )۔جب کہ این ڈی اے کو ملا کے کل نشستیں دو سو پچاسی بنتی ہیں اور حکومت برقرار رکھنے کے لیے کم ازکم دو سو بہتر نشستیں درکار ہیں۔لہٰذا بی جے پی اتحادیوں کو خوش رکھے بغیر پانچ برس کی مدت پوری نہ کر پائے گی۔
بی جے پی کو ہر روز این ڈی اے میں شریک دو بڑی جماعتوں آندھرا پردیش کے وزیرِ اعلیٰ چندرا بابو نائیڈو کی تلگو دیشم پارٹی ( سولہ نشستیں ) اور بہار کے وزیرِ اعلیٰ نتیش کمار کی جنتا دل یونائیٹڈ ( بارہ نشستیں ) کی ضرورت پڑے گی تاکہ پانچ سو تینتالیس کے ایوان میں سادہ اکثریت بنی رہے۔ جب کہ اتحاد میں شامل وہ جماعتیں جن کی دو دو تین نشستیں ہیں۔وہ بھی اپنی حمائیت کے عوض بوٹی کے بدلے پورا بکرا مانگ سکتی ہیں اور مودی جی کو غصہ ظاہر کیے بغیر فرمائشی بکرا دینا پڑے گا۔
مگر مودی اٹل بہاری واجپائی نہیں جو ہر طرح کے سیاسی حالات میں آسانی سے خود کو ڈھال سکے۔ مودی جی نے ریاست گجرات میں بطور وزیرِ اعلیٰ تیرہ برس اور مرکز میں دس برس بادشاہ سلامت کی طرح جو چاہا سو کیا اور خود کو سپرمین جانا۔ ’’ کبھی کبھی تو لگتا ہے مجھے بھگوان نے کوئی خاص کام لینے کے لیے پیدا کیا ہے۔انتھک محنت کی جو صلاحیت مجھے بخشی گئی ہے وہ ایک عام انسان سے زیادہ ہے ‘‘۔یعنی کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ اپنیچ ہی بھگوان ہے۔
اب اس ’’ خاص انسان ‘‘ کو ناقابلِ تسخیر برانڈ مودی کی چمک ماند پڑنے کے بعد لوک سبھا میں دو سو چونتیس ارکان کی اپوزیشن کا شور سہنا پڑے گا۔جس شخص نے دس برس میں ایک بھی پریس کانفرنس کا سامنا نہ کیا ہو اب اسے یہ ثابت کرنے کی آزمائش درپیش ہے کہ وہ بادشاہ سلامت نہیں بلکہ ایک ایسا سیاستدان ہے جو مخلوط حکومت برقرار رکھنے کے لیے مینڈکوں کو بھی کامیابی سے ترازو میں تول سکتا ہے۔
اگرچہ انتخابی نتائج سے سب سے بڑی مسلمان اقلیت نے سکھ کا سانس لیا ہے۔مگر پچھلے دس برس میں بھارتی مڈل کلاس کو بی جے پی نے جس طرح تعصب کا خون پلایا ۔اس کے اثرات راتوں رات زائل ہونا ممکن نہیں۔
بی جے پی نے پچھلے دس برس میں تعلیمی نصاب کو ’’ ہندوتوا ‘‘ کا بھرپور ٹیکہ لگایا۔ بھارت کے مسلمان ہیروز کو درسی کتابوں سے نکال باہر کیا۔عدلیہ میں ہم خیال نظریاتی ججوں کو نیچے سے اوپر تک ترقی دی اور میڈیا کو سنگھی نظریے پر اندھا یقین رکھنے والے صحافیوں کے ذریعے گیروا رنگ چڑھا دیا۔
تعصب نچلی سطح تک اس قدر پھیل گیا ہے کہ مودی مخالف سیکولر جماعتیں بھی اب ملک کی سب سے بڑی اقلیت کی زبوں حالی کا پہلے کی طرح کھل کے ذکر کرنے اور اسے انتخابی مدعا بنانے سے ہچکچاتی ہیں۔ انھیں اپنا ہندو ووٹ بینک خطرے میں دکھائی دیتا ہے۔مثلاً نہرو جی نے بھارت کو سیکولر آئین دیا۔اب نہرو جی کے پر نواسے (راہول گاندھی) کا عالم یہ ہے کہ وہ یہ تو کہتے ہیں کہ پسماندہ طبقات اور دلتوں نے بھارتی آئین کو بی جے پی کے ہاتھوں مسخ ہونے سے بچانے کے لیے ہمارا بھرپور ساتھ دیا مگر وہ سب سے بڑی مسلمان اقلیت کا نام لیتے ہوئے شرماتے ہیں۔
حالانکہ مسلمانوں نے بحیثیت قوم حزب اختلاف کے اتحاد ’’انڈیا‘‘ کا بھرپور انتخابی ساتھ نبھایا۔بالخصوص سب سے بڑی ریاست اتر پردیش میں یہ پندرہ سے بیس فیصد مسلمان ووٹ بینک ہی تھا جس نے بی جے پی کی پچھلی بار حاصل کردہ اسی میں سے باسٹھ نشستوں کو اس بار تینتیس تک محدود کر دیا۔
دوہزار انیس کے انتخابات میں بی جے پی مخالف جماعتوں نے ایک سو پندرہ مسلمانوں کو ٹکٹ دیے۔اس بار صرف اٹھتر مسلمان امیدوار تھے۔ان میں سے صرف بائیس منتخب ہوئے۔آزادی کے بعد کسی بھی پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی تعداد اتنی کم نہیں رہی۔گزشتہ لوک سبھا میں بھی پانچ سو تینتالیس کے ایوان میں ستائیس مسلمان ارکان تھے۔ بی جے پی نے دو ہزار انیس میں کسی مسلمان کو ٹکٹ نہیں دیا۔اس بار صرف ایک مسلمان نے بی جے پی کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑا۔
مہاراشٹر میں ایک کروڑ مسلمان بستے ہیں۔وہاں بی جے پی مخالف اتحاد نے کسی مسلمان کو ٹکٹ نہیں دیا۔اتر پردیش میں چار کروڑ مسلمان ہیں۔مگر سماج وادی پارٹی نے صرف چار مسلمانوں کو ٹکٹ جاری کیا۔مسلمانوں کو سب سے زیادہ ٹکٹ مایا وتی کی بہوجن سماج پارٹی ( بی ایس پی ) نے دیے۔یعنی پورے بھارت میں پینتیس ٹکٹ ۔ان میں یوپی کے سترہ ٹکٹ بھی شامل ہیں۔
بہار میں دو کروڑ مسلمان ہیں۔لیکن صرف ایک جماعت تیجسوی یادو کی راشٹریہ جنتا دل نے دو مسلمانوں کو ٹکٹ دیا۔ جنوبی ریاست کیرالہ جس کی ایک چوتھائی آبادی مسلمان ہے۔ تاہم وہاں کی سیاست پر غالب کیمونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ ) کے بیس امیدواروں میں چار مسلمان تھے۔مغربی بنگال میں برسرِ اقتدار ترنمول کانگریس نے پانچ مسلمان امیدوار کھڑے کیے۔حالانہ ریاست کی ایک تہائی آبادی مسلمان ہے۔
فروری دو ہزار بائیس میں بی جے پی کے بھڑکائے گئے دلی دنگوں میں تریپن مسلمان جاں بحق اور ہزاروں بے گھر ہوئے۔سیکڑوں دوکانیں اور گھر جل گئے۔تب سے دلی پر اروند کیجری وال کی عام آدمی پارٹی اور کانگریس کی مخلوط حکومت ہے۔ پر دونوں جماعتوں نے آج تک کھل کے ان واقعات کی مذمت نہیں کی۔
حزبِ اختلاف اتحاد میں شامل چھ بڑی جماعتوں نے اپنے انتخابی منشور میں ایک بار بھی لفظ مسلمان نہیں چھاپا۔مسلمانوں نے یوپی میں سماج وادی پارٹی کو بھرپور ووٹ دیا۔مگر پارٹی منشور میں مسلمانوں کا تذکرہ کچھ یوں ہے۔( پسماندہ طبقات ، دلت اور دیگر اقلیتیں )۔صرف مغربی بنگال کی وزیرِ اعلیٰ ممتا بینرجی کے منشور میں مودی سرکار کا نافذہ کردہ مسلمان مخالف شہریت کا قانون واپس لینے اور پورے ملک کے لیے ایک ہی عائلی قانون کے مطالبے کی مخالفت کی گئی۔
مسلمانوں کو درپیش مسائل کو اس لیے بھی منشور اور تقاریر میں اہمیت نہیں دی جاتی کیونکہ حزب ِ احتلاف کو یقین ہے کہ مسلمان بی جے پی کو تو ووٹ دینے سے رہے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)
[ad_2]
Source link