7

افسروں کے اثاثوں کا پورٹل

[ad_1]

سماجی ترقی کے لیے ریاست کے تمام معاملات میں شفافیت لازمی ہے۔ امریکا اور یورپی ممالک نے ریاستی امور میں شفافیت کے اصولوں پر سختی سے عمل کر کے اور بدعنوانی کے ہر عنصر کو ختم کر کے ترقی کی منزلیں طے کی ہیں۔

ملک کے بانی بیرسٹر محمد علی جناح نے 11، اگست 1947کو آئین ساز اسمبلی کے اجلاس میں اپنی اساسی تقریر میں جہاں ریاست کے جدید سیکولر خیالات کو اجاگرکیا تھا، وہیں بدعنوانی کے خطرناک عنصریت کے خاتمے کی طرف توجہ دلائی تھی مگر آزادی کے 76 سال گزرنے کے باوجود شفافیت کے مسلمہ اصولوں پر مکمل طور پر عملدرآمد کے لیے کوئی ادارہ اور فرد تیار نہیں ہے۔

سرد جنگ کے دوران جب پاکستان سوویت یونین کے خاتمے کے پروجیکٹ میں ایک فریق تھا تو بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے لیے اس بات کی اہمیت نہیں تھی کہ ان کی فراہم کردہ امداد اور قرضوں کے استعمال میں شفافیت ہے یا نہیں۔

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ I.M.F نے گزشتہ اسٹاف ارینجنمٹ معاہدے کے وقت یہ شرط بھی عائد کی تھی کہ اراکین پارلیمنٹ، عسکری اور سویلین افسران کے اثاثے عوام کے سامنے مشتہرکیے جائیں مگر حکومت نے اس پر عمل درآمد نہیں کیا ۔ روزنامہ ایکسپریس اسلام آباد کی ایک رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف نے ایک بار اپنے مطالبے کا اعادہ کیا ہے۔

اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آئی ایم ایف نے سرکاری فنڈز میں بدعنوانی کے خاتمے کے لیے سخت اقدامات کرنے کی تجویز دی ہے اور عوامی عہدہ رکھنے والے رہنماؤں اور سرکاری افسروں کے اثاثے عوام کے سامنے ظاہر کرنے کا دوبارہ مطالبہ کیا گیا ہے۔ آئی ایم ایف کے افسروں کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے تحت وفاقی حکومت اراکینِ پارلیمنٹ اور افسروں کے اثاثے پبلک کرنے کے لیے پورٹل بنانے کی پابند ہے مگر وفاقی حکومت نے اس شرط پر عملدرآمد کے لیے اقدامات نہیں کیے ۔

اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ آئی ایم ایف کی ہدایات کی روشنی میں ایک پرو فارمہ بنایا گیا تھا اور ہر افسر کو اس پرو فارمہ کو بھرنا تھا مگر افسروں نے پرو فارمہ بھرنے میں دلچسپی ظاہر نہیں کی۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بینک سرکاری افسروں سے نئے اکاؤنٹ کھولتے وقت اثاثوں کی تفصیلات دینے کے پابند ہیں۔ یہ بھی اس رپورٹ میں تحریرکیا گیا ہے کہ ریاستی ٹیکس جمع کرنے کے ادارے ایف بی آر نے اراکینِ پارلیمنٹ سمیت تمام ٹیکس دہندگان کی ٹیکس ڈائریکٹری شایع کرنے کا سلسلہ شروع کیا تھا، مگر اب یہ سلسلہ بند ہوگیا ہے۔

آئی ایم ایف کی اس شرط پر عملدرآمد کے کئی فائدے حاصل ہوسکتے ہیں۔ جب اراکینِ پارلیمنٹ اور سرکاری افسروں کے اثاثے پورٹل پر وائرل ہونگے تو متعلقہ فرد اثاثوں کے بارے میں وضاحت ضرور کرے گا۔

دنیا بھر میں موجود کوئی بھی شخص اس پورٹل کو کھولتا ہے اور اس کے علم میں یہ بات آتی ہے کہ متعلقہ افسروں کی کوئی جائیداد جس کا ذکر متعلقہ افسر نے ڈیکلریشن میں نہیں شامل کیا، بعدازاں اس کا علم ہونے پر ایف بی آر اس کی شکایت ایف آئی اے سے کرسکتا ہے، یوں Whistle blower کا ادارہ مستحکم ہوگا اور حکومت اطلاعات فراہم کرنے والے کا نام افشا نہ کرنے اور اثاثے کی مالیت کے حوالے سے انعام دینے کا فارمولہ طے کرتی ہے اور حکومت روایتی میڈیا کے علاوہ سوشل میڈیا کے تمام پلیٹ فارمز پر انعام دینے کی پیشکش کی تشہیرکرتی ہے تو پھر بہت سارے کیس ظاہر ہونگے مگر معاملہ صرف اطلاع عامہ ہونے کا نہیں ہے بلکہ بدعنوانی کے مرتکب منتخب اراکین اور افسروں کو قرار واقعی سزا دینے کی روایت شروع ہوسکتی ہے۔

ابھی گزشتہ ہفتے کی بات ہے کہ سندھ اینٹی کرپشن ڈائریکٹریٹ کے افسر اعلیٰ نے جو سپیریئر سروس سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک بیان میں کہا کہ ان کے محکمہ میں رشوت کا ایک مضبوط نیٹ ورک کام کررہا ہے۔ اس نیٹ ورک کا نگران ایک پرائیوٹ شخص ہے۔ ا ن کا کہنا تھا کہ محکمہ اینٹی کرپشن کے افسران حکومت سندھ کے دیگر محکموں کے افسروں سے کروڑوں روپے کا ماہانہ بھتہ وصول کرتے ہیں۔ حکومت سندھ نے اس اعلیٰ افسر کے الزامات کی تحقیقات کے لیے کوئی اقدام کرنے کے بجائے ایک مختصر بیان میں کہا کہ اس افسر کا تبادلہ کردیا گیا تھا اس بناء پر وہ یہ الزام لگا رہے ہیں۔

پیپلز پارٹی کی سابق چیئر پرسن بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے درمیان 2005 میں لندن میں میثاقِ جمہوریت پر اتفاق ہوا تھا۔ اس میثاق میں دونوں رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ ریاستی اداروں سے بدعنوانی کے خاتمے کے لیے پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹیوں کو زیادہ بااختیار کیا جائے گا اور کمیٹی میں حکمراں جماعت کے علاوہ حزب اختلاف کے اراکین کو بھی شامل کیا جائے گا۔ کمیٹی کا سربراہ قائد حزب اختلاف کو مقررکیا جائے گا۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی بدعنوانی کے تدارک کا سب سے اعلیٰ ادارہ ہے۔

اس کمیٹی میں جو مقدمات جاتے ہیں ان کو ختم کرنے اور بدعنوانی کے مرتکب افراد پر جرم ثابت ہونے کی صورت میں مقدمات ایف آئی اے اور نیب کو بھیج دیے جاتے ہیں۔ اس فیصلے پر 2008ء سے عملدرآمد شروع ہوا۔ اس وقت قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف چوہدری نثار تھے، وہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے پہلے چیئرمین تھے، پھر خورشید شاہ کو یہ عہدہ ملا۔ تحریک انصاف کے دورِ حکومت میں دلچسپ صورتحال پیدا ہوئی۔ قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف نیب کی حراست میں تھے۔

اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے شہباز شریف کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین بنانے کی خاصے عرصہ مخالفت کی۔ بعد ازاں شہباز شریف کو یہ عہدہ دیدیا مگرکچھ عرصے بعد میاں شہباز شریف نے اپنی بیرون ممالک مصروفیات کی بناء پر ایاز صادق کو اس عہدے کے لیے نامزد کیا مگر 8 فروری کو قومی  اسمبلی کے انتخابات ہونے کے باوجود اب تک حزب اختلاف کے کسی رکن کو اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین کا عہدہ نہ دینے سے ایک دفعہ پھر شفافیت کے عمل کو دھچکا لگا ہے۔

خیبر پختون خوا، پنجاب اور بلوچستان اسمبلیوں میں اس پر عمل ہوا مگر سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین کا عہدہ قائد حزب اختلاف کو دینے سے انکار کیا۔ پیپلز پارٹی کے اکابرین کا کہنا ہے کہ کیونکہ ایم کیو ایم اور تحریک انصاف میثاق جمہوریت میں شامل نہیں اس بناء پر یہ عہدہ قائد حزب اختلاف کو نہیں دیا جاسکتا ۔

گزشتہ حکومت میں سندھ کے اکثر وزراء کے خلاف کرپشن کے مقدمات درج تھے مگر پیپلز پارٹی کے اکابرین بدعنوانی کے خاتمے کی اہمیت پر یقین ہی نہیں رکھتے۔ سندھ میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی ایک مفلوج ادارہ بن کر رہ گئی ہے۔ اس ملک میں اچھی اور بری روایات یورپ سے آتی ہیں، اگر بین الاقوامی مالیاتی ادارے شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے ان شرائط پر عملدرآمد کرتے ہیں تو ترقی کا عمل تیز ہوسکتا ہے۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں