[ad_1]
یہ بہت پرانے زمانے کی بات ہے جب ایک سالک نے کہا تھا کہ
’’دھوپ‘‘ میں نکلو گھٹاؤں میں نہا کردیکھو
زندگی کیا ہے ’’کتابوں‘‘ کو ہٹا کر دیکھو
اس زمانے میں ہوتا یوں تھا کہ حکمران کے پہلو میں ایک دانشور بھی بیٹھا ہوتا تھا اوراس کا کام یہی ہوتا تھا کہ حکمرانوں یعنی ’’اہل سیف‘‘ کے اعمال وافعال، عیاشیوں، فحاشیوں اورلوٹ مار کے لیے ’’کتاب‘‘ سے جوازات نکال کردیتا تھا ۔وہ کتاب کیا تھی ؟ کیسی تھی؟ کہاں تھی؟ یہ کسی کو معلوم نہیں تھا لیکن اس میں حکمرانوں کے تمام اعمال کاجواز کہیں نہ کہیں مل جاتا تھا پھر اس کتاب کی چھتر چھایا تلے جب عوام کالانعام صبح اٹھتے تو اس کا نام کتاب سے بدل کر بیان یا بیانات رکھ لیا گیا ۔اسی زمانے میں ایک اور دانشور نے کہا کہ
کھڑا ہوں آج بھی ’’روٹی‘‘ کے چار حرف لیے
سوال یہ ہے کتابوں نے کیا دیا مجھ کو
چنانچہ کتابوں کو ہٹا کر بیانات کاسلسلہ شروع ہوگیا یا یوں کہیے کہ کتاب نے اپنا نام بدل کر بیان وبیانات رکھ لیا
’’من مسمی کتاب نے اپنا نام بدل کر بیانات رکھ لیا ہے ،آیندہ مجھے اس نئے نام سے پکارا اور لکھا جائے، نیز سرکاری کاغذات میں بھی درستگی کی جائے‘‘ ۔
المشتہر بیانات سابقہ کتاب
تب سے کتابوں کا منصب بیانات کو حاصل ہوگیا یعنی پہلے جو کام کتاب سے لیا جاتا تھا، اب وہ بیان سے لیا جانے لگا ، ان دونوں شعروں میں بھی کتابوں کی جگہ بیانوں کو کردیاگیا ، یعنی بیانوں کو ہٹاکردیکھو ۔ یا بیانوں نے کیادیا مجھ کو مثلاً اب تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ اگر بیانوں کو دیکھا جائے تو سب کچھ ہے اوراگر بیانوں کو ہٹا کر دیکھاجائے تو کچھ بھی نہیں ہے جس پر ایک جدید دانشورہ فریدہ خانم نے کہا ہے کہ ؎
سب کچھ ہے کچھ نہیں ہے حالت بھی خوب ہے
’’لوٹ ماریوں‘‘ کا نام سیاست بھی خوب ہے
بیانات کو ہٹا کر دیکھا جائے تو جگہ جگہ سرکاری دسترخوان بچھے ہوئے ہیں اورڈھونڈ ڈھونڈکر اس خوان یغما (ایسا دسترخوان جس سے خاص و عام سب مستفیض ہوں،نعمت جو مفت لٹائی جائے) کے لیے جوان پیدا کیے جارہے ہیں بٹھائے جارہے ہیں ،چرائے جارہے ہیں، چگھائے جارہے ہیں ۔ مقررہ فیس دے کر مادر شیر سمجھ کر نوکریوں، تبادلوں پروجیکٹوں اورٹھیکوں کے نیلام گھر کھلے ہوئے ہیں، اس ہاتھ دے اوراس ہاتھ لے ، والا سلسلہ چل رہا ہے، فنڈز یوں بانٹے جارہے ہیں جیسے بندروں کو ’’استرے‘‘ مل گئے ہوں، عہدے یوں دیے جارہے ہیں جسے حلوائی کی دکان پر داداجی کی فاتحہ پڑھی جا رہی ہو ۔
لیکن یہ سب کچھ بیانات کے پردے کے نیچے ہورہاہے جب کہ پردے کے اوپر بیانات ہیں۔ فردوس گم گشتہ ملنے کی خوشخبریاں ہیں ، ہرطرف دودھ اورشہد کے تلکے لگے ہوئے ہیں ، پھل دار تو پھل دار جو غیر پھل دار درخت ہیں وہ بھی پھلوں سے لدے ہوئے ہیں ، انصاف ہرگھر کی دہلیز پر ہاتھ میں ترازو لیے بیٹھا ہے، قانون کندھے پر بندوق رکھ کر گھرگھر کی چوکیداری کررہاہے، وزیر اولیا بن گئے ہیں، مشیر عابد وزاہد بن چکے ہیں ،معاون مبلغ کاکام کر رہے ہیں، منتخب نمایندے خدائی خدمت گار ہوچکے ہیں ۔
سرکاری دفتر عبادت خانے اوراہل کار خدام الدین بن چکے ہیں، مطلب چوں کہ لوگوں کے لیے کوئی کام باقی نہیں رہا ہے ،کیوں کہ وزیروں، مشیروں، معاونوں اورمنتخب نمایندوں نے ہرہرمقام پر اپنے منتخب نمایندے گھسا کر ہرکام کا کام تمام کردیا ہے اس لیے لوگ شغل کے طورپر سونا اچھال اچھال کر کھیل رہے ہیں بکری اورشیر ایک ہی بوتل میں ’’اسٹرا‘‘ ڈال کر منرل واٹر پی رہے ہیں،
سحرزہاتف غیبم رسید مژدہ بگوش
کہ دار شاہ شجاع است می دلیر بنوش
پیام نورتجلی است رائے انورشاہ
کہ مست گوش دلش محرم پیام سروش
خلاصہ اس کلام کایہ ہے کہ ہاتف غیبی کی طرف سے یہ مژدہ سنایاگیاہے کہ شاہ شجاع کادورہے شراب جی بھر کر اورنڈر ہوکر پؤ
یہ ’’ہاتف غیبی‘‘ ہی دراصل بیانات ہیں ۔ لیکن بیانات کی یہ نعمت عظمیٰ یافردوس گم گشتہ اتنی آسانی سے نہیں ملی ہے ’’کتابوں‘‘ اور دانشوروں کادائرہ محدود تھا جب کہ بیانات کاسلسلہ لامحدود ہوگیاہے کیوں کہ پاکستانی موجدوں اورسائنس دانوں نے بیانات کی مشینیں بھی ایجاد کرلی ہیں جن کو مقامی طورپر ’’معاون خصوصی‘‘ کا نام دیاگیاہے اورپھر ان میں بھی جو خاص الخاص ،ا سپیشل کری ایشن اورعالم میں انتخاب بیانات کی آٹو میٹک اورملٹی پرپزمشینیں ہوتی ہیں ان کو خصوصی عہدے دیے جاتے ہیں۔
زباں پہ بار خدایا یہ کس کا نام آیا
کہ میرے نطق نے بوسے مری زباں کے لیے
اسلحہ جات کے ماہرین جانتے ہیں کہ جب کسی آتشیں اسلحہ کی نالی گرم ہوجاتی ہے تو پھر وہ گولی کو دور تک نہیں پہنچاپاتی اورنالی سے نکلتے ہی قے ہوجاتی ہے۔کلاشنکوف کے ساتھ بھی یہی ہوتاہے اگر دوچار برسٹ مارے جائیں تو نالی گرم ہوجاتی ہے اورگرم ہونے پر پھیل کر ڈھیلی ہوجاتی ہے ، گولی کو زورسے نہیں دھکیل پاتی اورمطلوبہ ہدف تک پہنچنے کے بجائے قریب ہی ٹھنڈی ہوکر گرپڑتی ہے ۔
یہ سارا قصہ ہم نے اس لیے بیان کیا ہے کہ بیاناتی مشینوں کامعاملہ بھی تقریباً ایسا ہی ہوتا ہے اگر بندوق اچھے اور خالص لوہے کی بنی ہو تو ریپڈ فائرنگ سے بھی نالی گرم نہیں ہوتی اورگولی ٹھیک ٹھیک ہدف تک پہنچاتی ہے۔ اس سلسلے میں ہم ریاست پٹودی کی معاونہ خصوصی برائے اطلاعات محترمہ ،ڈاکٹرہ، پروفیسرہ ، لائرہ، بیرسٹرہ ،کرینہ سیف علی خان کی مثال دیں گے جو پہلے بھی کچھ کم نہ تھی لیکن اس دوسرے ٹرم میں تو کلاشن کوف سے ’’مشین گن‘‘ ہوگئی ۔ چاروں اطراف میں برسٹ پر برسٹ ماررہی ہے لیکن مجال ہے جو نالی ذرا بھی گرم ہوجائے ۔
[ad_2]
Source link