[ad_1]
ملک کے حقیقی حالات کیا ہیں۔ اس پر موجودہ صورتحال میں غیر جانبدار بحث ممکن نہیںرہی۔ پاکستان کے سوا دنیا کا کوئی ایک ملک گنوا دیجیے جو کوشش کر رہا ہو کہ اس نے ترقی نہیں کرنی۔ کسی بھی بین الاقوامی ادارے کی مستند ترین رپورٹ اٹھا کر پڑھ لیجیے۔
آپ کو اپنا ملک‘ خاک آلود سانچے میں ڈھلا ہوا نظر آئے گا۔اب تو دل نہیں چاہتا کہ کسی مستند بین الاقوامی ادارے کی کوئی بھی رپورٹ پیش کروں۔ حددرجہ دگرگوں معاملات سے دل اکتا سا چکا ہے۔ معاشی ترقی پر خیر کیا بات کرنی۔ اتحادی حکومت نے اٹھارہ ماہ میں ہر لحاظ سے ملک کا بھرم ختم کر ڈالاہے۔
ایک مجہول سا بیانیہ دینے کی کوشش کی ہے کہ ہم نے سیاست قربان کر کے ریاست کو بچا لیا ہے۔ اس نکتہ پر ا گر دلیل سے بات کی جائے تو آپ کو ذاتی مصائب میں ڈال دیا جاتا ہے۔ ذمے داری سے عرض کر رہا ہوں کہ ملک کی معیشت دم توڑ نہیں رہی بلکہ دم توڑ چکی ہے۔ ڈھائی برس سے ملک میں ایک بھی نیا کارخانہ نہیں لگ سکا۔ صنعت کا پہیہ رک چکا ہے۔ اب معیشت کی بحالی کے لیے کون سا ادارہ کام کر نے کی اہلیت رکھتا ہے۔
شاید کوئی بھی نہیں ۔ پورے ملک میں آج کی تاریخ میں ایک بھی ایسا ادارہ موجود نہیں‘ جو صنعتی لحاظ سے مردہ معیشت کو دوبارہ زندہ کر سکے۔ دشمن ممالک‘بھرپور طریقے سے ہماری ناکامی پر قہقہے لگا رہے ہیں۔ میرے پاس قلم کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ لکھنے کے علاوہ کچھ اور کام ڈھنگ سے آتا بھی نہیں ہے۔ ہاں‘سچ لکھنے پر پورے ملک میں سات دہائیوںسے پابندی ہے۔
یہ کوئی ایک دو سال یا دو دھائیوں کا معاملہ نہیں‘ ستر برس کے ناکام سفر نے ملک کو دلدل میں غرق کر ڈالا ہے۔ متانت اور سنجیدگی تو نظام سے ختم کر دی گئی ہے۔ اب صرف برہنہ خواہشات ہیں اور ان کی تکمیل کے لیے طاقت کا ننگا استعمال ۔ یہی کہانی ہے۔ یہی سچ ہے ۔ دوبارہ عرض کرونگا کہ یہ سب کچھ قیام پاکستان سے جاری و ساری ہے۔
جو لکھ رہا ہوں۔ اس میں کوئی بھی ایسی نئی بات نہیں جو آپ کو معلوم نہ ہو۔ مگر کیا کروں۔ درد دل اور اس ملک سے عشق کی کیفیت رکھنے کے سوا میرے پاس کوئی جذبہ نہیں ہے۔ پورا نظام ہی مفلوج ہے۔ اب بین السطور بات کرنا بھی ممکن نہیں رہا۔ کیا آپ کے علم میں ہے کہ بریگیڈیئرایوب خان کو تقسیم برصغیر کے وقت مسلمان مہاجرین کی حفاظت سے منتقلی کا کام سونپا گیا تھا۔ کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ جب پنجاب میں خون ہی خون تھا۔ تو یہ شخص کہاں تھا۔ یہ ایک عیش گاہ میں ‘ حد درجہ خوبصورت ریاستی شہزادی کے ساتھ تھا۔
چودہ لاکھ کے قریب لوگ قتل ہوئے۔ مگر اس شخص کو لاپروائی کی کوئی سزا نہیں ملی۔ اوائل پاکستان سے جب ایک آدمی کے حوصلے اتنے بلند ہوجائیں۔ اسے اندازہ ہو کہ اس کی کوئی پکڑ نہیں ہے۔ توخود اندازہ لگا لیجیے کہ اسے پورے نظام کو یرغمال بنانے سے کون روک سکتاتھا۔جنرل ایوب خان کی حد درجہ مصنوعی ترقی نے پاکستان توڑنے کی بنیاد فراہم کر دی۔
مورد الزام تو یحییٰ خان ٹھہرا‘ مگر بربادی کی بنیاد تو ایوب خان نے رکھی تھی۔ اسے کیا سزا ملی۔کیا کوئی اسے کٹہرے میں لے جانے کی جرأت کر پایا۔ جو سرکاری ملازم‘ قائداعظم کو یہ کہہ سکتا ہے کہ سر سویلین‘ معاملات کو درست طریقے سے نہیں چلا پا رہے۔ اور پھر جناح صاحب کے خوف سے مشرقی پاکستان بھاگ گیا ہو۔ کیا آپ اس کی منفی استطاعت پر کوئی شک کر سکتے ہیں۔
پاکستان کی ابتدا سے ہی ہم ملک کو درست ڈگر پر نہیں چلا پائے۔ عام آدمی کا ان حالات کی زبوں حالی سے کوئی تعلق نہیں رہا۔ خواص‘ اس ملک کو راجواڑے کی طرح چلاتے رہے۔ اور یہ معاملہ آج بھی بالکل اسی طرح چل رہا ہے۔ نہ ادارے ہیں۔ نہ اداروں کے سربراہ‘ دولت کمانے کی ہوس سے بالاتر ہیں۔ نہ سیاست ہے اور نہ ہی ملک سے محبت کرنے والے سیاست دان۔ باتیں ہیں‘ بیانات ہیں‘ اور لاپرواہی کی انتہا ہے۔ بھٹو صاحب نے آئین منظور کروایا تھا۔ مگر اس آئین کی پاسداری انھوںنے ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں کی۔ لوگوں کے بنیادی حقوق کو سلب کرنے کی روایت‘ آئین کی منظوری کے چند گھنٹے بعد کی ہی رہی۔ یا شاید چند دن بعد میں۔ بہر حال‘ بنیاد کو ہی صحیح طریقے سے استوار نہیں کیا گیا۔
وہ لوگ اور جماعتیں جنھوں نے پاکستان بنانے کو گناہ کے برابر قرار دیا تھا۔ سب کو دھوکا دے کر ملک کے اقتدار پر قابض ہو گئیں۔ وہ مذہبی جماعتیں‘ جو قائداعظم کا نام تک لینا پسند نہیں کرتی تھیں۔ ہمارے ملک کی کرتا دھرتا بن گئیں۔ اس نازک معاملہ پر ہمارے ہاں کوئی سنجیدہ بات کرنے کے لیے تیار نہیں۔ مذہبی جماعتوں کے سامنے پورا نظام بے بس ہے۔ کوئی ادارہ ان کے خلاف کوئی جائز قدم بھی نہیں اٹھا سکتا۔
پاکستان میں گسٹاپو کی طرز پر کام کرنے والا‘ احتساب کا ادارہ‘ مذہبی جماعت کے قائد کو تفتیش کے لیے دفتر بلانے کی ہمت نہیں کر سکا۔ اس لیے کہ اس جماعت کے پاس مدارس کی وہ قوت ہے ‘ جس سے وہ شہروں اور شاہراہوں کو منجمد کر سکتی ہے۔ پھر یک دم‘ پردہ سیمی پر ایک اور منظر پیش کروا دیا گیا۔ جس میں ہیرو کو ولن اور ولن کو ہیرو بنا دیا گیا۔ یہ ڈھائی سال قبل کی عرض داشت نہیں۔ یہ ستر برس سے ہو رہاہے۔
وہ لوگ جنھوںنے پاکستان اپنی جدوجہد سے بنایا تھا۔ انھیں غدار اور ملک دشمن کا خطاب تک دیا گیا۔ ملک کے آئینی سربراہان کی ملک بدری کو ایک معمول بنا دیا گیا۔ جس سیاسی لیڈر نے تھوڑی سی بھی مزاحمت کی‘ اسے نشان عبرت بنا دیا گیا۔ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا ملک کے سارے وزراء اعظم ہی غلط تھے۔
دہائیوں سے یہ سن سن کر کان پک چکے ہیں کہ فلاں وزیر اعظم نے ملک کو برباد کر ڈالا۔ اس کی آل اولاد ارب پتی ہو گئی۔ مگر یہ ذلت کا تمغہ صرف وزیراعظم کے لیے کیوں مخصوص ہے؟ کیا ان کے لانے والے‘ تخت پر بٹھانے والے‘ پھر اتارنے والے معصوم ہیں۔ نہیں صاحب!یہ تالی دونوں ہاتھوں سے نہیں بلکہ کئی ہاتھوں سے بجتی ہے۔ مگر عجیب بات ہے کہ اس کی آواز سنائی نہیں دیتی۔
سب کچھ ایک طرف ‘ مگر جو سیاسی شعور اور آگاہی‘ نوجوان نسل کو حاصل ہو چکی ہے۔ شاید وہ ملک کی قسمت بدل ڈالے۔ شاید کا لفظ استعمال کر رہا ہوں۔ اس لیے کہ مجھے تو ملک‘ خوشحالی اور ترقی کے مدار میں داخل ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ پر یہ سب کچھ نوجوان نسل کے لیے بے معنی ہے۔ ان میں سے اکثریت ‘ اپنے مستقبل کو خود بہتر بنانا چاہتی ہے۔ مگر ملکی نظام ان کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ یہاں تو خاندانی تناظر سے باہر کچھ بھی تقسیم کرنا گناہ کبیرہ بنا دیا گیا ہے۔
اگر وزیراعظم کے بعد ‘ کسی نے اس کی جگہ سنبھالنی ہے تو وہ خاندان سے ہی ہو گا۔ آل شریف‘ آل زرداری ‘ آل مفتی محمود اور آل ولی خان اس کی واضح مثالیں ہیں۔ نوجوان نسل کو تو شاید گورنر جنرل غلام محمد‘ او رسکندر مرزا کا نام تک معلوم نہ ہو۔ جنھوں نے اپنے اقتدار کی خاطر ہروہ سازش کی‘ جس سے ملک کا شیرازہ بکھر کر رہ گیا۔ قیامت یہ بھی ہے کہ غلام محمد اور سکندر مرزا تو دنیا سے رخصت ہو گئے۔ مگر ان کی سوچ آج بھی پورے نظام پر حکومت کر رہی ہے۔
اقتدار پر قبضہ کرنے سے لے کر اقتدار سے نکالنا‘ سب کچھ اب صرف اور صرف سازش کے ذریعے ممکن ہے۔ عام لوگ تو صرف تماشائی ہیں۔ ویسے ہی جیسے سرکس دیکھنے والے لوگ‘ ہاتھی کو سائیکل چلاتے دیکھ کر خوش ہوتے ہیں کہ واہ کیا کمال نظارہ ہے۔ مگر وہ یہ نہیں دیکھ پاتے کہ ہاتھی کو سائیکل مجبوری میں چلانا پڑ رہا ہے۔ اس کے پیچھے ایک بندہ ہنٹر لے کر کھڑا ہوتا ہے۔
شیر جیسے طاقتور جانور کو آگ کے ہالے میں سے چھلانگ لگانے کے پیچھے بھی ایک سرکس والے کا ڈنڈا ہوتاہے۔ جو شیر کو طاقت کے باوجود چوہا بنا دیتاہے۔ ہمارا ملک بھی ایک سرکس ہے۔ جس میں ظلم کے زور پر جو کر‘ ایک پہیہ کی سائیکل چلا رہا ہے۔ اور ریچھ‘ چھوٹی سی ٹرین پر سفر کر رہا ہے جادوگر مونہہ سے آگ کے گولے نکال رہا ہے۔ پتہ نہیں‘ ہمارے مقدر سے اس سرکس نے کب ختم ہونا ہے۔ شاید کبھی بھی نہیں!
[ad_2]
Source link