[ad_1]
ویب ڈیسک: قارئین کرام شاید آپ کو بھی اس عنوان پر حیرت ہورہی ہوگی کہ یہ کیا بات ہوئی، پہلے تو عنوان قائم کیا، ”حیرت پر حیرت“، پھر اُس پر شوشہ لگا کر اُسے تخلص بنادیا۔ بات ہی کچھ ایسی ہے۔ ایک مشہور شعر ہے:
آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں
سامان سَو بَرس کے ہیں، پل کی خبر نہیں
(سامان سو برس کا ہے، غلط مشہور ہے)
اس ضرب المَثل شعر کے خالق تھے حیرتؔ الہ آبادی جو آتش لکھنوی کے شاگر د میرزا اعظم علی اعظمؔ کے شاگرد تھے اور اُن کا اصل نام محمد جان خان تھا، جب کہ وطن الہ آباد تھا۔ یہ صاحب ِ دیوان شاعر 1892ء تک زندہ تھے یعنی ان کی وفات کا سن معلوم نہیں۔(بحوالہ”غز ل اُس نے چھیڑی۔اردو غزل گو شعراء کا منتخَب کلام: دورِقدیم سے دورِجدید تک“، جلد اوّل از محمد شمس الحق ; ”اردو کے ضر ب المثل اشعار۔ تحقیق کی روشنی میں“ از محمد شمس الحق، ایک سوچارسالہ بزرگ محقق: پیدائش 1920)۔
ہوا کچھ یوں کہ ایک واٹس ایپ حلقے ’کاشانہ ادب‘ میں کسی صاحب نے انٹرنیٹ کی مدد سے اس مشہور شعر کی پوری غزل لکھ بھیجی، راقم بہت حیران ہوا کہ یہ کہاں سے ملی۔ انھوں نے غالباً ریختہ ڈاٹ آرگ سے نقل کی۔ یہی غزل فیس بک پر، خصوصاً ایک حلقے بعنوان ’اردو کلاسیک‘ میں موجودہے، مگر دونوں جگہ بہت بڑا سہو یہ ہوا کہ حیرتؔ الہ آبادی نامی قدیم شاعرکا مشہورشعراور ان کے ہمنام ہمارے بزرگ معاصر، جدید شاعر(مرحوم) کا کلام خلط ملط کر دیا گیا اور تصویر بھی ہمارے جدید حیرت الہٰ آبادی کی جوانی کی نیز تاریخیں، اُن ہی کی پیدائش اور وفات کی لگادی ہیں مزید کھوج لگائی تو پتا چلا کہ یہ تو وہی نقل درنقل بلا استعمال ِ عقل کا سلسلہ ہے جو یوٹیوب پر بھی جاری ہے۔
خاکسارنے تو مرحوم کو باریش دیکھا تھا، مگر ظاہر ہے کہ یہ تصویر جوانی کی ہے جب وہ بے ریش تھے۔ اس مضمون کے لکھنے کی تحریک یوں ہوئی کہ جب راقم نے حلقہ مذکور میں اُن صاحب کو صوتی پیغام بھیجا تو تھوڑی ہی دیر میں، بزرگ معاصر ڈاکٹر آفتاب مضطر ؔ صاحب کی کال آگئی۔ انھوں نے اس بابت توجہ دلائی کہ غزل کا ماخذ ڈھونڈنا تو اپنی جگہ اہم ہے، مگر قدیم شاعر حیرتؔ کی جگہ جدید شاعر حیرتؔ الہ آبادی کی تصویر اور کوائف درج یا نقل کردیے گئے ہیں۔
آفتاب صاحب کراچی کے مشّاق شعراء میں شامل ہیں تو ظاہر ہے کہ اپنے ہی محکمے (پاکستان کسٹمز) کے رفیق(سابق) اور معاصرشاعر جناب حیرتؔ کے ساتھ کئی مشاعرے بھی پڑھ چکے ہیں، اس لیے اُن کی بات ہرلحاظ سے توجہ طلب ہے۔اثنائے گفتگو، حیرتؔ صاحب کے ایک اور رفیق ہمارے محترم، بزرگ معاصر سہیلؔ (سہیل احمد خاں) غازی پوری (مرحوم)کا نام بھی یادوں کا حصہ بنا کہ وہ اس ہیچ مدآں پر بہت شفقت فرماتے،نظم وغزل، نعت اور ہائیکو گوئی میں خوب حوصلہ افزائی فرماتے اور جب کہیں مشاعروں میں یا کال پر بات چیت ہوتی تو ’سہیل اسکوائر‘کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔(بات کہیں اور نکل جائے گی، مگر کہے بغیر رہا نہیں جاتا کہ خاکسار نے اَورنگی ٹاؤن میں تین مشاعروں میں شرکت کی۔
اوّل اوّل،سہیل ؔ غازی پوری مرحوم کی صدارت میں،میرے ایماء پر ایک تاریخی ہائیکو مشاعرہ ہوا جس میں مجھ سے مشاورت کے علاوہ، بصد اِصرار مجھے مہمان خصوصی بنادیا گیاکہ اس صنف کے فروغ میں بحمداللہ خاکسارکا کام سب سے زیادہ ہے۔یہ سن 2001ء کی بات ہے۔اس کے بعد ایک طرحی غزلیہ اور پھر طرحی نعتیہ مشاعرے میں بھی شریک ہوا۔نعتیہ مشاعرے میں سہیلؔ صاحب صدرِمحفل تھے اور مہمان خصوصی عارف منصور عرف منصور مُلتانی مرحوم تھے۔ (دونوں بزرگوں نے نعت پیش کرنے پر مجھے بہت سراہا اور کہا کہ بھئی نعت بھی کہا کرو، کیوں نہیں کہتے ہو)۔
پہلے ہم وہ مشہور مطلع والی غزل دیکھتے ہیں جو قدیم شاعر حیرتؔ الہ آبادی کی تخلیق ہے، پھر دیگر باتیں ہوں گی:
غزل: حیرت ؔالہ آبادی
آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں
سامان سَو بَرس کے ہیں، پل کی خبر نہیں
آ جائیں رعب ِغیر میں،ہم وہ بشر نہیں
کچھ آپ کی طرح،ہمیں لوگوں کا ڈر نہیں
اک تو شبِ فراق کے صدمے ہیں جاں گداز
اندھیر اُس پہ یہ ہے کہ ہوتی سحر نہیں
کیا کہیے اِس طرح کے تلوّن مزاج کو
وعدے کا ہے یہ حال، اِدھر ہاں، اُدھر نہیں
رکھتے قدم جو وادیئ الفت میں بے دھڑک
حیرتؔ سِواء تمھارے کسی کا جگر نہیں
قدیم شاعرحیرتؔ الہ آبادی کا تذکرہ،انیسویں صدی کے اردو شعراء کے قدیم تذکروں میں بمشکل ایک مولوی عبدالغفور نسّاخؔ کے ”تذکرہ سخنِ شعراء“ میں شامل ہے جو 1864-1865ء میں مکمل ہونے کے بعد اکتوبر 1874ء میں منصہ شہود پرآیا۔اس کتاب میں مؤلف نے حیرتؔ الہ آبادی کا یہ واحد شعر نقل کیا ہے جو دیوانِ حیرتؔ سے لیا گیا ہے:
مرقد سے میرے اُٹھ کے بگولا جو رَہ گیا
کہنے لگے وہ،خاک کسی ناتواں کی ہے
کیا کہنے صاحبو! اس شعر میں مضمون آفرینی واقعی لاجواب ہے۔البتہ حیرت ؔ کے دیوان بعنوان”آئینہ حیرتؔ“،مطبوعہ الہ آباد میں دوسرے مصرع میں لفظ ’وہ‘ کی جگہ ’یہ‘ لکھا ہوا ہے۔
بعد کے تذکروں میں تذکرہ خُم خانہ جاویداَز لالہ سری رام،جلددُوَم، مطبوعہ لاہور: 1911ء،انتخاب ِ سخن اَز حسرتؔ موہانی جلد ہفتم، تذکرہ جواہرِ سخن(جلد چہارم) از کیفی چریا کوٹی، ”اکبرؔ الہ آبادی اَز طالبؔ الہ آبادی،تذکرہ نادرؔاَز مسعودحسن رضوی ادیبؔ (مطبوعہ 1957ء)،دبستانِ آتشؔ ازڈاکٹر شاہ عبدالسلام، قصیدہ نگارانِ اُتّرپردیش اَز علی جواد زیدی (مطبوعہ 1978)،گُلِ رعنا از حکیم سید عبدالحئی،اربابِ سخن مؤلفہ حسرت ؔ موہانی اور دیگر متعدد شامل ہیں۔انتخابِ کلام حیرتؔ الہ آبادی از ڈاکٹر کاظم علی خان بھی آنلائن دستیاب ہے۔
اب آتے ہیں جدیدشاعر حیرتؔ الہ آبادی (مرحوم) کی طرف جن کی تصویراور کوائف وکلام قدیم شاعر حیرتؔ سے ملادیا گیا۔ہمارے مرحوم بزرگ معاصر، سید مہدی حسن حیرتؔ الہ آبادی 28 اکتوبر 1926ء کواَپنے وطن الہ آبادمیں پیداہوئے اور 16 ستمبر 2006ء کو ’شہرِ نگاراں‘ کراچی میں فوت ہوئے۔انھیں غزل و قطعہ گوئی کے علاوہ نعت گوئی میں شہرت ملی۔اُن کے والد سید ظفر حسن عبرتؔ الہٰ آبادی کاشماراپنے عہد کے معروف شعراء میں ہوتا تھا۔(بروایت ِ آفتاب مضطرؔ صاحب) وہ سہیل ؔ غازی پوری کے اُستاد بھی تھے، جبکہ خود حیر ت ؔ صاحب نے اپنے والد کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا۔کسٹمز کی نوکری سے سبکدوش ہونے کے بعد حیرتؔ صاحب نے فرنیچر کا کاروبار کیا۔اُن کے مجموعہ ہائے کلام میں ’سترہ دن‘ (جنگ 1965ء کے موضوع پرکہے گئے قطعات)،تین مجموعاتِ غزل ’کشکولِ وفا‘
(1989ء)،”پتے کانٹے پھول“اور’آگ خون پانی‘، دونعتیہ مجموعے منارہ ئ نور (1989ء)اور ’نورِ بے مثال‘(1997ء، ناشر: بزمِ عبرتؔ، کراچی)۔حیرتؔ مرحوم نے ایک منفرد اَدبی جریدہ ’بقلم خود‘ جاری کیا جس میں شعراء کا کلام اُن کے ہاتھ سے لکھا ہوا شایع ہوتا تھا۔وہ اپنے والد کی تشکیل دی ہوئی ادبی تنظیم ’بزم تنظیم ادب‘ کے متحرک سربراہ تھے۔
ڈاکٹر جاوید منظر نے ’دبستان ِکراچی‘ میں حیرتؔ الہ آبادی کے متعلق باب قائم کرتے ہوئے ابتداء ہی میں لکھا کہ ”حیرتؔ کی غزل ایک نئی فضا کی نقیب اور ایک نئے لہجے کی ترجمان ہے“۔انھوں نے صراحت سے حیرتؔ کو کراچی کی مخصوص شعری فضا کا سچا عکاس قراردیا۔
نمونہ کلام حیرتؔ الہ آبادی (جدید شاعر)
نعت
عطا ہو جو فضلِ خدا زندگی کو تو پھر چاہیے اور کیا زندگی کو
تمنا یہی ہے، یہی آرزو ہے محمد(ﷺ) پہ کر دوں فدا زندگی کو
جہاں عظمتیں ہیں، جہاں رحمتیں ہیں اُسی در سے ہے واسطہ زندگی کو
رہے لب پہ نامِ محمد(ﷺ) ہمیشہ بنا دے کچھ ایسا خدا زندگی کو
مدینے سے ہرگز نہ جاؤں کا واپس کہ اب تو ملا ہے مزا زندگی کو
عمل کر کے جب سے بتایا نبی نے قرینہ سا اِک آ گیا زندگی کو
لگا دیجیے کشتیِ دل کنارے کہ ہے آپ کا آسرا زندگی کو
دعا ہے یہ حیرتؔ کی، آمین کہیے خدا حق پہ رکھے سدا زندگی کو
لوگ انگُشتِ شہادت کی طرف دیکھا کیے آسماں دیباچہ ئ شق القمر لکھتا رہا
مل ہی جائے گی سند فردوس کی اِک دن ضرور روزوشب نعتِ نبی (ﷺ) حیرتؔ اگر لکھتا رہا
غزل
پوچھتی پھِرتی ہے ہر تِنکے سے بجلی اِن دنوں
آشیاں کو آگ کا یہ پیرہن کیسا لگا
کشکولِ وفا لے کر جاؤ ں تو کہاں جاؤں
جب بھیک میں ملتاہے،پتھر تیری باتوں کا
اُونچے اُونچے محلوں پر کیوں گھمنڈ کرتے ہو
ہو نہ ایک دن ایسا یہ زمیں سرک جائے
جنوں کے ہاتھ سے لے کر چراغ ِ راہ ِ عمل
گماں یقین کے پیکر کشِید کرتا ہے
حیرتؔ الہ آبادی (جدید شاعر)کے کوائف اور کلام ”کراچی کا دبستانِ نعت“ از منظرؔ عارفی،(ناشر: نعت ریسرچ سینٹر کراچی، 2016ء)،
وفیات نعت گویان پاکستان از ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ(ناشر: نعت ریسرچ سینٹر، کراچی، 2015ء)،پاکستان کے نعت گو شعراء از سید محمد قاسم،تذکرہ شعراء وشاعراتِ پاکستان از مہرؔ پِیلی بھیتی،وفیات ِ اہل قلم ازڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ، کراچی کا دبستان نعت،دبستان ِ کراچی از ڈاکٹر جاویدمنظر(دسمبر 2011ء: کراچی)، ”خاک میں پنہاں صورتیں“۔کراچی کے مرحوم اہل قلم پر پہلی کتاب از سید محمد قاسم(فروری2016ء: کراچی)میں شامل، نیز اُردو وِکی پیڈیا پر دستیاب ہے۔
ریختہ ڈاٹ آرگ والوں سے گزارش ہے کہ اپنی صفوں میں کوئی اہل زبان محقق بھی شامل کرلیں تاکہ ایسے سنگین لطائف نہ جنم لیا کریں۔
ہدیہ امتنان: میں اپنے بزرگ معاصر ڈاکٹر آفتاب مضطر ؔ صاحب اور سید اَنور جاویدہاشمی صاحب کا صمیم قلب سے شکرگزارہوں کہ اُنھوں نے اس مضمون کی تحریرمیں بعض مفیدمعلومات فراہم کرکے میری مشکل آسان کی،جبکہ اَثنائے تحریر، ایک اور بزرگ معاصر ڈاکٹر اَنیس الرحمن صاحب نے سکھر سے شدید گرمی کے باوجود، شگفتہ گفتگو کرکے ماحول خوب خنک کردیا۔
[ad_2]
Source link