[ad_1]
بھارتی لوک سبھا ( قومی اسمبلی) کے انتخابات مکمل ہو چکے ہیں۔ نتائج بھی سامنے آ چکے ہیں۔ نریندر مودی تیسری بار ، مسلسل، بھارتی وزیر اعظم کے تخت پر براجمان ہونے جارہے ہیں۔ بھارت کی سیاسی و جمہوری تاریخ میں جواہر لعل نہرو کے بعد مودی جی کو یہ اعزاز حاصل ہُوا ہے۔ مودی جی تیسری بار مسلسل وزیر اعظم بننے کے باوجود مگر خوش نہیں ہیں ۔
انھیں تاسف اور قلق یہ ہے کہ اُن کی پارٹی ( بی جے پی) اور اُن کا سیاسی اتحاد (این ڈی اے) بے تحاشہ ظاہر کی گئی توقعات کے مطابق انتخابی فتوحات حاصل کر سکا ہے نہ اپنے سیاسی حریفوں کو مکمل شکستِ فاش دے سکا ہے۔ مودی صاحب اور اُن کی پارٹی کا چھیڑا گیا متعصبانہ راگ زمین بوس ہو چکا ہے۔
اِس انسانیت دشمن اور بھارتی اقلیتوں کے مخالف راگ کے تارٹوٹے ہیں تو یہ حیرت انگیز حقیقت بھی سامنے آئی ہے کہ تازہ لوک سبھا انتخابات میں دو درجن سے زائد مسلمان بھی جیت گئے ہیں ۔ یہ منظر بھی سامنے آیا ہے کہ تازہ لوک سبھا کے انتخابات میں بھارتی ریاست ، اُڑیسہ، کی تاریخ میں پہلی بار کوئی مسلمان خاتون انتخابات میں فتحیاب ہو کر رکن لوک سبھا بنی ہیں۔ ان کا اسمِ گرامی صوفیہ فردوس ہے۔صوفیہ فردوس اور دو درجن سے زائد بھارتی مسلمانوںکی یہ جیت بی جے پی کے لیے سوہانِ رُوح سی بن گئی ہے ۔
لیکن مودی جی اور بی جے پی کے لیے لوک سبھا انتخابات کے نتائج کی سب سے زیادہ تکلیف دِہ بات یہ ہے کہ بھارتی پنجاب اور مقبوضہ کشمیر سے دو ایسے افراد بھاری جیت سے ہمکنار ہُوئے ہیں جنھیں مودی حکومت نے ناجائز طور پر جیلوں میں بھی ٹھونس رکھا ہے اور جو بوجوہ انڈین اسٹیبلشمنٹ کی نہائت ناپسندیدہ شخصیات بھی ہیں ۔
اِن دونوں شخصیات کے نام یہ ہیں: امرت پال سنگھ اور انجینئر رشید ۔ ایک تیسری فتحیاب شخصیت بھی ہے جس کی لوک سبھا کے لیے کامیابی مودی اور بھارتی مقتدرہ کے کندھوں پر بھاری بوجھ بن گئی ہے۔ اور یہ صاحب ہیں مشرقی پنجاب کے سربجیت سنگھ خالصہ ! سربجیت کے والد ( بے انت سنگھ۔ وہ اندرا جی کے ذاتی محافظ بھی تھے) نے سابق بھارتی وزیر اعظم ، مسز اندرا گاندھی، کو40 سال قبل قتل کر دیا تھا ۔
سربجیت سنگھ ، جن کے والد صاحب کو بعد ازاں پھانسی پر لٹکا دیا گیا تھا، کی انتخابی کامیابی کا مطلب یہ بھی ہے کہ بھارتی پنجاب کے سکھ اب تک دہلی کی سکھ دشمن اسٹیبلشمنٹ سے شدید نفرت کرتے ہیں ۔ اور یہ بھی کہ بھارتی پنجاب کے سکھ اَب تک اُس تباہ کن اور توہین آمیز حملے کو فراموش نہیں کر سکے ہیں جو 4عشرے قبل وزیر اعظم اندرا گاندھی کی قیادت اور حکم پر، امرتسر میں قائم سکھوں کے سب سے مقدس مقام (گولڈن ٹیمپل) پر کیا گیا تھا ۔سربجیت سنگھ خالصہ صاحب نے فرید کوٹ کے حلقے میں AAPکے ایک تگڑے اُمیدوار ، کرمجیت سنگھ انمول، کو 70ہزار سے زائد ووٹوں سے ہرایا ہے ۔
بھارتی لوک سبھا کے انتخاب میں بڑی کامیابی حاصل کرنے والے ، امرت پال سنگھ ، مشرقی پنجاب سے سیکڑوں کلومیٹر دُور آسام کی جیل میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کررہے ہیں ۔ انھوں نے،سربجیت سنگھ خالصہ کی طرح،آزاد حیثیت میں الیکشن لڑا ہے۔
امرت پال سنگھ نے مشرقی پنجاب کے انتخابی حلقے ’’کھدور صاحب‘‘ میں اپنے کانگریسی حریف، کلبیر سنگھ زیرہ، کو دو لاکھ ووٹوں سے شکستِ فاش دی ہے ۔مشرقی پنجاب میں امرت پال سنگھ کو ’’دوسرا جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ‘‘ کہا جاتا ہے ۔ بھنڈرانوالہ جی نے اپنے علیحدہ وطن، خالصتان، کی جنگ لڑی اور اِسی محاربے میں اندراگاندھی کی افواج اور حکم سے بیدردی سے (مشہور آپریشن بلیو اسٹار میں) قتل کر دیے گئے تھے۔ امرت پال سنگھ بھی جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کے نقوشِ قدم پر تیزی سے چل رہے تھے ۔ وہ مشرقی پنجاب کے سکھ نوجوانوں کو تربیت بھی دے رہے تھے اور انھیں منشیات کی لعنتوں سے نجات دلانے کے لیے دن رات تبلیغ بھی کررہے تھے۔
اُن کی بعض تقاریر سے دہلی کی اسٹیبلشمنٹ سخت ناراض تھی ؛ چنانچہ اُن پر علیحدگی پسندی، قتل ، منشیات فروشی اور دہشت گردی کے متعدد مقدمات قائم کر دیے گئے ۔ انھیں گرفتار کرنے کے لیے پورا ایک مہینہ مختلف شہروں ، قصبات اور دیہات میں چھاپے مارے گئے ۔ آخر ایک مہینے کی سخت جدوجہد کے بعد امرت پال سنگھ کو اپریل2023ء کی 23تاریخ کو مشرقی پنجاب کے علاقے ’’موگا‘‘ کے ایک گاؤں، روڈا، سے گرفتار کر لیا گیا ۔ تب سے اب تک ،مسلسل ایک برس سے امرت پال سنگھ آسام کی ہائی سیکیورٹی جیل میں قید ہیں ۔ انھیں بھارت کے بدنامِ زمانہ قانون NSA(نیشنل سیکیورٹی ایکٹ) کے تحت گرفتار کیا گیا تھا ۔
علیحدگی پسند سکھ رہنما، امرت پال سنگھ ، نے آسام کی نہائت سخت جیل میں بیٹھ کر ، آزاد حیثیت میں ، لوک سبھا کا انتخاب لڑا ہے اور بھاری اکثریت سے کامیاب ہُوئے ہیں۔ امرت پال سنگھ مشرقی پنجاب میں بروئے کار ایک زبردست تحریک ( وارث پنجاب دے) کے بانی صدر بھی ہیں ۔ یہ انتخابی کامیابی دراصل جیل سے اُن کا جمہوری انتقام ہے ۔ انھوں نے ایک منفرد تاریخ رقم کی ہے۔
انھوں نے ثابت کیا ہے کہ عوام کا مقبول و محبوب لیڈر جیل میں بیٹھ کر بھی جمہوری انتقام لے سکتا ہے۔ اب شاید امرت پال سنگھ کو زیادہ دنوں تک پسِ دیوارِ زنداں رکھنا ممکن نہ رہے ۔ وہ جیل میں تھے اور اُن کے والد (ترسیم سنگھ )، مشرقی پنجاب کی مشہور ایکٹوسٹ ( پرمجیت کور کھلرا) اور مشہور بزرگ سکھ علیحدگی پسند خالصتانی رہنما، سمرن جیت سنگھ مان) اُن کی الیکشن کمپین لڑ رہے تھے ۔
بھارت کی سخت ، صعوبتوں بھری اور پُر تشدد جیل میں بیٹھ کر جس دوسرے شخص نے لوک سبھا کے تازہ انتخابات بھاری ووٹوں سے جیتے ہیں، اُن کا نامِ نامی اسمِ گرامی عبدالرشید شیخ عرف انجینئر رشید ہے ۔اُن کی عمر57سال ہے ۔ وہ پچھلے پانچ سال سے مسلسل بھارتی جیلوں میں قید چلے آ رہے ہیں ۔ پانچ سال پہلے جب نریندر مودی نے ظالمانہ اقدام کرتے ہُوئے آئین میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت (آرٹیکل370) ختم کر دی تھی ، تب سے انجینئر رشید قید میں ہیں۔ اُن کا جرم اور گناہ فقط یہ ہے کہ انھوں نے لاکھوں دیگر کشمیریوں کی طرح آرٹیکل370کے خاتمے پر سخت احتجاج کیا تھا۔
بھارتی ادارے (NIA) نے انھیں ’’ناپسندیدہ سرگرمیوں میں ملوث‘‘ ہونے کے الزام میں جیل میں ٹھونس دیا تھا ۔ انجینئر رشید صاحب ’’عوامی اتحاد پارٹی‘‘(AIP) کے بانی چیئرمین بھی ہیں۔ وہ مقبوضہ کشمیر کی سیاست میں اُس وقت اُبھرے جب انھوں نے بھارتی قابض افواج کے ہاتھوں کشمیریوں سے بیگار لینے کے خلاف احتجاجات کا آغاز کیا ۔
انجینئر رشید صاحب نے مقبوضہ کشمیر کی سابق کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ، محبوبہ مفتی، کو 2لاکھ سے زائد ووٹوں سے شکست دی ہے ۔ اُن کا انتخابی نعرہ تھا: جیل کا بدلہ ووٹ سے!جیل میں بیٹھ کر اُن کے کشمیری ووٹروں نے مودی کے ظلم کے خلاف کامیابی سے صدائے احتجاج بلند کی ہے۔
انجینئر رشید صاحب کے دونوں صاحبزادگان (ابرار رشید اور اسرار رشید) نے گھر گھر جا کر کشمیر اور کشمیریوں کے خلاف دہلی کے مظالم اور استحصال کے پیغام کو اُجاگر کیا ۔ کامیابی نے اُن کے قدم چومے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں ایک پابندِ سلاسل مجبور کشمیری نے جیل میں بیٹھ کر دہلی اسٹیبلشمنٹ اور نریندر مودی کو شکست دے ڈالی ہے ۔یہ شکست دراصل کشمیریوں کا دہلی انتظامیہ پر عدم اعتماد کا واضح اظہار بھی ہے ۔
[ad_2]
Source link