[ad_1]
سرجری تو کرنا پڑے گی نقوی صاحب! لیکن صرف ٹیم کی سرجری کافی نہیں ہو گی۔ آپ کا یہ کہنا بھی درست، چھوٹی سرجری سے کام نہیں بنا، اس لیے بڑی سرجری کرنا ہو گی۔ اس سرجری کا آغاز سلیکشن کمیٹی، کوچنگ اور ٹیم کے ساتھ سیر و تفریح کے لیے جانے والے اسٹاف سے کرنا پڑے گا۔ اس ٹیم کی سلیکشن کا ایک بڑا ذمے دار بھی انھی میں سے تھا۔ ایک غلطی آپ سے پہلے والے چیئرمین نے کی جب دورہ آسٹریلیا سے پہلے وائٹ اور ریڈ بال کے کپتان تبدیل کر دیے گئے۔
دوسری غلطی آپ نے کی جب ورلڈ کپ سے پہلے پھر کپتان تبدیل کر دیا، آپ گیری کرسٹن کی شکل میں ایک ایسا غیرملکی کوچ لائے جو قومی ٹیم کو اس وقت اپنے مشوروں سے نہیں نواز سکا جب انھیں ضرورت تھی۔ موصوف تب دنیا کی مہنگی ترین انڈین پریمیئر لیگ میں مصروف تھے۔ آپ کو باہر بیٹھے ہوئے اس نئے ٹیلنٹ کا خیال تب کیوں نہیں آیا جب قومی ٹیم کو چھوڑ کر جانے والے دو ’’ہیرے‘‘ محمد عامر اور عماد وسیم واپس لائے جا رہے تھے۔ ایک نے امریکا کے خلاف سپر اوور میں 18 رنز دے دیے اور دوسرے نے انڈیا کے خلاف میچ میں جب کم از کم ایک رن فی گیند بنانے تھے 23 گیندوں پر 15 رنز بنا کر ہار میں اہم کردار ادا کیا۔ آپ کو ہارنے کی وجوہات اور ٹیم میں کیا چل رہا تھا، اس کا بھی ادراک ہے تو آپ کے سب سے قابل اعتماد ساتھی وہاب ریاض جو سینئر مینجر کی ذمے داریاں نبھا رہے تھے کیوں کچھ نہیں کر سکے۔ کیا آپ ان کا بھی احتساب کریں گے؟ ذرا ان اطلاعات کو بھی چیک کرا لیں کھلاڑیوں کو شائقین کے ساتھ تصویریں بنوانے کے عوض ڈالر کمانے کی اجازت کس نے اور کیوں دی؟ ٹیم میں دو وکٹ کیپرز کی موجودگی میں اعظم خان کو بطور تیسرا وکٹ کیپر کھلانے کی مجبوری کس کی تھی۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ قومی کرکٹ میں اوپر سے نیچے تک سب کچھ دوستیوں پر چل رہا ہے۔ میرٹ صرف کتابوں میں رہ گیا ہے۔ کسی کا کسی سے تعلق یا دوستی ہو تو سب کچھ اس کے حوالے کر دیا جائے گا۔ حیرت ہے چیئرمین پی سی بی انڈیا سے ہارنے پر اتنے دکھی ہوئے ہیں۔ انڈیا ایک بڑی ٹیم ہے اور اس سے ہارنے میں شرمندگی والی کوئی بات نہیں۔ امریکا جیسی نو آموز ٹیم سے ہارنا بڑی شرمندگی تھی۔ نیوزی لینڈ کی بی ٹیم سے ہوم گراؤنڈ پر ہارنا اور آئرلینڈ سے سیریز برابر کرنا ذلت آمیز تھا۔ چیئرمین صاحب جب آپ نے میڈیا کو بیان جاری کیا تب ٹورنامنٹ میں واپسی بھی ہو سکتی تھی ورلڈ کپ میں ٹیم کے دو میچ باقی تھے، آپ کو نہیں لگتا کہ سرجری والی بات قبل از وقت کر دی گئی ہے۔
ٹیم کی کارکردگی پر غصہ اپنی جگہ لیکن اس کا اظہار کرنے کے لیے تھوڑا انتظار کرنا چاہیے تھا۔ آپ غالباً تنقید سے گھبرا گئے اور خود کو ذمے داری سے بچانے کی کوشش کی۔ بطور سربراہ آپ کو بھی اپنی ذمے داری کا جواب دینا چاہیے۔ آپ بری الذمہ کیسے ہو سکتے ہیں۔ وطن عزیز میں طاقت کا سرچشمہ عوام ہوتے تو سب سے پہلے جنا ب چیئرمین آپ مستعفی ہو کر گھر جاتے۔ باقی معاملات نیا چیئرمین آ کے سنبھال لیتا۔ اس ملک میں ایسا نہیں ہوتا، قربانی کے بکرے تلاش کر کے ان کی قربانی دے دی جاتی ہے۔ اب تو ویسے بھی عید قربان قریب ہے اور چیئرمین صاحب کا جذبہ بھی جوان ہے۔ ’’ایکسپریس نیوز‘‘ کراچی کے بیورو چیف فیصل حسین نے سرجری والے بیان پر کیا خوب کہا ہے۔
وہ کہتے ہیں یہ ایسا ہی ہے جیسے مریض ڈاکٹروں کا آپریشن کرے۔ آپ نے اسٹیڈیم جدید بنانے کا کام شروع کیا ہے۔ چیمپئنز ٹرافی کے لیے ٹیم تیار کرنے کا اعلان کیا ہے۔ معذرت کے ساتھ کہوں گا ابھی جو لوگ آپ کے ساتھی ہیں ان کے ہوتے ہوئے یہ کام نہیں ہو سکے گا۔ جیسے سڑکیں چوڑی کرنے سے ٹریفک کا بہاؤ ٹھیک نہیں کیا جا سکتا، اسی طرح جدید اسٹیڈیم بنانے یا نئے کھلاڑیوں پر مشتمل ٹیم بنانے سے پرفارمنس بہتر نہیں ہو سکتی۔ پی ایس ایل میں وقتی کارکردگی کی بنیاد پر کھلاڑی شامل کرنے سے بھی قومی ٹیم تباہ ہو رہی ہے۔ عثمان خان اچھا بھلا یو اے ای کی ٹیم میں سیٹ ہو گیا تھا، آپ کے سلیکٹرز نے اسے ورلڈ کپ کھلا کر اس کا کیریئر برباد کر دیا۔ وہ اب ادھر کا رہا نہ ادھر کا۔ یہ باہر بیٹھا نیا ٹیلنٹ تب بھی آپ کی نظر میں ہونا چاہیے تھا جب دو ’’بزرگ‘‘ کھلاڑیوں کو واپس بلا کر ٹیم میں شامل کیا گیا تھا۔ سوشل میڈیا اور مخصوص جرنلسٹ گروپوں کے دباؤ پر ہونے والے فیصلوں کا یہی انجام ہوتا ہے۔
انڈیا ہمارا روایتی حریف ہے، اس سے ہار برداشت کرنا مشکل ترین ہوتا ہے، ٹیم جیسی بھی ہو 120 رنز کا ٹارگٹ حاصل کرنے میں ناکامی یقینا کئی سوالات کو جنم دیتی ہے۔ عوامی سطح پر ردعمل سمجھ میں آتا ہے۔ پاکستان کرکٹ کو چلانے والے بھی اگر اسی طرح کا ردعمل دینے لگیں تو پھر انھیں یہ کام نہیں کرنا چاہیے۔ انھیں انڈیا جیسی ورلڈ کلاس ٹیم سے ہارنے پر نہیں امریکا اور آئرلینڈ جیسی ٹیموں سے شکستوں پر زیادہ غصہ آنا چاہیے۔
بابراعظم کو بھی ورلڈ کپ سے کچھ عرصہ پہلے کپتانی قبول نہیں کرنی چاہیے تھی۔ اگر قیادت قبول کر لی تھی تو پھر خود پر کھلے عام تنقید کرنے والے عامر اور عماد کو شامل کرنے سے انکار کر دینا چاہیے تھا۔ اب بابراعظم کو بھی چاہیے کہ وہ کپتانی چھوڑنے کا فوری اعلان کر دیں۔ ورلڈ کپ مکمل ہوتے ہی وہ اپنا عہدہ چھوڑ دیں اس میں ان کی عزت ہے۔ کپتانی کی وجہ سے بابر کی بیٹنگ بھی ہدف تنقید بن رہی ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ قومی ٹیم کپتانی کی وجہ سے ایک بہترین بیٹسمین سے محروم ہو جائے۔ انڈیا سے ہار پر ہمارے پالیسی ساز بھی دکھی ہوں گے۔ پہلے بھی عرض کیا تھا پی سی بی کی سربراہی اور وفاقی وزارت داخلہ دونوں فل ٹائم جابز ہیں۔ یہ مانا کہ وزارت داخلہ میں ترقیاتی کاموں کی زیادہ گنجائش نہیں ہوتی لیکن نگران وزیراعلیٰ وزارت داخلہ کواچھی طرح چلا سکتا ہے بہتر ہو گا کہ کرکٹ چلانے کے لیے ماہرین کو ذمے داری سونپی جائے۔ نقوی صاحب یہ فیصلہ خود کر لیں تو زیادہ بہتر ہو گا۔ ان پر اعتماد کرنے والوں کے وقار کی خاطر ہی سہی۔
نقوی صاحب کی اس بات سے مکمل اتفاق ہے کہ بڑی سرجری کرنا پڑے گی۔ صرف اتنا عرض کرنا ہے کہ محض ٹیم کی سرجری سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو پائیں گے۔ جہاں جہاں سرجری کی ضرورت ہے وہاں وہاں چیرپھاڑ کی جائے، قوم ایسا کرنے والوں کا بھرپور ساتھ دے گی۔
[ad_2]
Source link