13

بھارت کے انتخابی نتائج اور نریندر مودی کی سیاسی پسپائی

[ad_1]

بھارت کے حالیہ انتخابات کے نتائج غیر متوقع نہیں تھے اور عمومی طور پر بھارت کی سیاست پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں اور اہل دانش کی یہ متفقہ رائے تھی کہ نریندر مودی دو تہائی اکثریت سے کامیاب نہیں ہوسکیں گے ۔

ان تجزیہ کاروں کے بقول دو تہائی اکثریت کے بجائے بی جے پی اور نریندر مودی سادہ اکثریت ہی حاصل کرکے اتحادیوں کی بنیاد پر مخلوط حکومت بناسکتے ہیں۔لیکن دو تہائی اکثریت تو کیا مودی جماعت سادہ اکثریت بھی حاصل نہ کرسکی اور ان کی اپنی نشستوں کی تعداد240ہے جب کہ اتحادیوں کو بنیاد بنا کر ان کی نشستیں293بنتی ہیں۔اگرچہ نریندر مودی کے حامی میڈیا پر ان کو ایک بڑے سیاسی دیوتا کے طور پر پیش کیا گیا اور یہ ہی تاثر دیا گیا کہ وہ نہ صرف ناقابل تسخیر ہیں بلکہ ان کو اور ان کے سیاسی بیانیہ کو شکست دینا ان کے سیاسی مخالفین کے بس میں نہیں ہوگا۔

اسی بنیاد پر یہ نعرہ مودی کی حمایت میں سب سے زیادہ میڈیا اور سیاسی مہم کی تشہیر کا ذریعہ بناکہ ’’اب کی بار …چار سو پار‘‘ یعنی مودی کی جماعت 543کی کل نشستوں میں سے 400سے زیادہ نشستیں حاصل کرے گی ۔لیکن جو اب انتخابی نتائج سامنے آئے ان میں بی جے پی اور ان کے اتحادیوں کو 543میں سے 293جب کہ ان کے مخالف کانگریس اتحاد کو 233 سیٹیں ملی ہیں ۔2019کے انتخابات کے مقابلے میں بی جے پی کی 60کے قریب نشستیں کم ہوئیں ، جب کہ کانگریس کی نشستوں کی تعداد میں تقریبا پچھلے انتخابات کے مقابلے میں دو گنا اضافہ ہوا ہے ۔

خیال کیا جارہا ہے بلکہ یقینی ہے کہ بی جے پی اور بالخصوص نریندر مودی بھارت کے تیسری بار تسلسل کے ساتھ وزیر اعظم بن جائیں گے ۔ اس سے قبل یہ اعزاز جواہر لال نہرو کے پاس تھا جو تین بار مسلسل وزیر اعظم کے عہدے پر رہے۔ لیکن کانگریس اور ان کے اتحادیوں اور بی جے پی کے درمیان حکومت سازی کا نیا جوڑ توڑ بھی ہوسکتا ہے ۔

کیونکہ کچھ لوگوں نے کانگریس کو مشورہ دیا ہے کہ اگر وہ مودی کی حکومت کا راستے روکنا چاہتے ہیں تو اول ان کو اپنی جماعت کے اقتدار کی قربانی دے کر مودی کے اتحادیوں جن میں نتیش کمار اور چندرابابو کو ساتھ ملا کر نتیش کمار کو وزیر اعظم کا عہدہ دینا ہوگا اوروہی بی جے پی کے دیگر اتحادیوں کو ساتھ ملا کر مودی کو اقتدار سے محروم کرسکتے ہیں ۔یعنی اب نتیش کمار ہوں یا چندرابابو دونوں ہی اس پوزیشن میں ہیں کہ وہ کانگریس یا بی جے پی سے اپنی شرائط پر سودے بازی کرسکتے ہیں۔

سیاسی پنڈتوں کے بقول اگر نریندر مودی دو تہائی اکثریت سے جیت جاتے تو اس کا نتیجہ مزید ہندواتہ کی سیاست اور بالخصوص آئین میں بھارت کی سیکولر حیثیت کو تبدیل کرکے ہندواتہ میں تبدیل کرنا تھا۔ اس لیے کہا جارہا ہے کہ نئی مودی حکومت کو اپنے سیاسی اتحادیوں کے دباؤ کی وجہ سے ہندواتہ کے مقابلے میں ماڈریٹ پہلو اختیار کرنا ہوگا ۔

بھارت کے ووٹرز نے نریندر مودی کے سیاسی عزائم کو خاک میں ملادیا اور ان کو دو تہائی اکثریت سے محروم کردیا ہے۔جب کہ ان کے برعکس کانگریس اور ان کے اتحادیوں نے جہاں سماجی، معاشی مسائل کو بنیاد بنایا وہاں ان کی مہم میں مودی کی سخت گیر پالیسی ، انتہا پسندانہ رجحانات اور بالخصوص آئین میں تبدیلی کرکے سیکولر بھارت کو ہندواتہ پر مبنی ریاست میں تبدیل کرنا تھا۔

ایک بات یہ بھی تسلیم کرنا ہوگی کہ رسمی میڈیا جہاں نریندر مودی کے حامیوں کی بالادستی تھی وہاں کانگریس اور ان کے اتحادیوں نے ’’ سوشل میڈیا ‘‘ کو ایک بڑی سیاسی طاقت کے طور پر مودی مخالف ایجنڈے پر استعمال کیا اور رسمی میڈیا مودی کو سیاسی ہیرو کے طور پر پیش کرتا رہا جب کہ سوشل میڈیا نے نریندر مودی کو بہت بڑا سیاسی دھچکہ دیا ہے اور اس کے نتیجہ میں بھارت کی سیکولر سیاست کو بھی اور وفاقیت کو بھی تحفظ ملا ہے ۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں