[ad_1]
حیدرآباد سندھ کا دوسرا بڑا شہر ہے، پریٹ آباد، شہرکا پسماندہ ترین علاقہ ہے جو آتشزدگی کے خوفناک واقعے کا شکار ہوا۔ اس سانحے میں 27 کے قریب افراد جاں بحق اور کئی درجن زخمی ہوئے مگر سندھ حکومت کے ارباب اختیارکو پریٹ آباد کے مکینوں کی آہ و بکا کی حرارت اب تک محسوس نہیں ہوئی ہے۔ پریٹ آباد ایک قدیم بستی ہے، پاکستان بننے کے بعد یہ علاقہ آباد ہوا۔
اس علاقے میں زیادہ تر افراد چھوٹے موٹے کام کر کے بمشکل اپنا گزارہ کرپاتے ہیں۔ غربت کی شکار اس بستی میں ابھی تک بنیادی سہولتیں میسر نہیں ہیں۔ حیدرآباد شہر سال کے بارہ مہینے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا شکار رہتا ہے۔ پریٹ آباد کے غریبوں کی توکوئی اہمیت نہیں ہے، اس کی بناء پر یہاں ویسے تو سال بھر لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے مگر گرمیوں کے مہینوں میں جب درجہ حرارت حدود پارکر رہا ہوتا ہے تو اس علاقے میں16 گھنٹے بجلی نہیں آتی۔
گزشتہ کئی برسوں سے گیس بھی نایاب اشیاء میں شامل ہوچکی ہے۔ اس بناء پر لوگوں کے لیے توانائی کا واحد ذریعہ ایل پی جی سلنڈر ہیں۔ عمومی طور پر ایل پی جی کا سلنڈر بنانے والے سلنڈرکے اسٹینڈرڈ کو نظرانداز کرتے ہوئے ہلکی دھات کے سلنڈر تیارکرتے ہیں، ہر شخص کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس غیر معیاری سلنڈر میں زیادہ سے زیادہ گیس بھری جائے۔ حکومت سندھ اچھی طرزِ حکومت پر یقین نہیں رکھتی اور ضلع انتظامیہ کے افسروں کا تقرر میرٹ کے بجائے کچھ اور وجوہات کی بناء پر ہوتا ہے۔
اس بناء پر ضلع انتظامیہ کے افسران نے پورے حیدرآباد میں غیر قانونی طور پر قائم ایل پی جی سلنڈر بھرنے والی دکانوں پر توجہ نہ دی۔ اچانک کسی وجہ سے آگ بھڑک اٹھی اور چند لمحوں میں یہ پورے علاقے میں پھیل گئی۔ اس خوفناک آگ سے سب سے زیادہ بچے متاثر ہوئے۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق مرنے والوں میں بیشتر بچے ہیں۔ آتشزدگی کی اطلاع فائر بریگیڈ اور ایمبولینس سروس کو دی گئی اورکچھ دیرکے بعد فائربریگیڈ کی گاڑی پہنچی اورآگ بجھانے کا عمل شروع ہوا۔ زخمیوں کو لیاقت میڈیکل یونیورسٹی کے نرسنگ وارڈ میں منتقل کیا گیا مگر برنس وارڈ کی کارکردگی ناقص ثابت ہوئی۔ سکھر سے حیدرآباد تک یہ واحد برنس وارڈ ہے۔ ایک اخباری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ برنس یونٹ تین منزلوں پر مشتمل ہے۔
اس وارڈ میں سب سے اہم حصہ جلے ہوئے مریضوں کے لیے آئی سی یو بھی تعمیر ہوگیا ہے، مگر اس آئی سی یو میں آتشزدگی سے متاثرہ مریضوں کی زندگی بچانے کے لیے جدید آلات ابھی تک فراہم نہیں کیے گئے ہیں۔ حیدرآباد کے ایک سینئر صحافی کا کہنا ہے کہ برنس وارڈ کی تعمیرکا آغاز سینئر پروفیسر ڈاکٹر طاہرکے دور میں شروع ہوا تھا مگر ڈاکٹر طاہر 2018 میں ملازمت سے ریٹائر ہوگئے اور اس وارڈ کی تعمیر کا سلسلہ بھی رک گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ اس پروجیکٹ کے پی سی ون میں جو آلات درج ہیں وہ بھی ابھی تک خریدے نہیں جاسکے ہیں۔
یہ وارڈ کچھ عرصے کے لیے پرائیوٹ وارڈ میں منتقل کیا گیا تھا۔ یہ اس نئی عمارت میں منتقل کیا گیا، مگر بقول ڈاکٹر برنس یونٹ میں ابھی تک اسٹیٹ آف آرٹ سہولتیں فراہم نہیں کی جاسکیں۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹروں کے پاس مریضوں کو کراچی کے سول اسپتال کے جدید برنس وارڈ تعمیر کرنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نظر نہیں آتا۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ڈاکٹرکچھ مریضوں کو میڈیسن ڈیپارٹمنٹ کے آئی سی یو میں منتقل تو کر رہے ہیں مگر جھلسنے والے مریضوں کو فوراً انفیکشن ہوجاتا ہے۔ لیاقت میڈیکل یونیورسٹی کے طبی عملے کے رکن روی کے خاندان کے سات افراد آگ لگنے سے جل گئے تھے مگر انھیں طبی امداد نہ مل سکی۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اگرکسی بچے کا جسم صرف 10فیصد تک جلا ہو اور بالغ فرد کا جسم 33 فیصد تک جلا ہو اور ایسے مریض کا چہرہ اورگردن وغیرہ متاثر ہو تو اس کی جان بچنے کے امکانات ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 33 کے قریب مریضوں کو کراچی منتقل کیا گیا۔ کراچی کا سول اسپتال کا برنس وارڈ نجی شعبے کی مدد سے اسٹیٹ آف آرٹ سہولتوں سے لیس ہے مگر اس وارڈ میں سندھ اور بلوچستان سے آنے والے مریضوں کا شدید دباؤ ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ حیدرآباد سے 33 کے قریب مریضوں کی کراچی کے سول اسپتال میں منتقلی سے ایک ہنگامی صورتحال پیدا ہوگئی اور صرف انتہائی شدید جلے ہوئے مریضوں کو داخلہ مل سکا۔
کراچی کے کئی غیر سرکاری اسپتالوں میں جدید برنس وارڈ موجود ہیں، اگر ان وارڈ کی تعداد زیادہ نہیں ہے مگر پھر پریٹ آباد کے مریضوں کے لیے مہنگے اسپتالوں میں علاج کرانا ممکن نہ تھا، یوں کچھ غریبوں کو تو ان اسپتالوں میں داخلہ مل گیا۔ دوسری طرف زخمیوں کے مرنے کی شرح مستقل بڑھتی چلی گئی اور اب تک 27 مریض جاں بحق ہوچکے ہیں اور ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ مزید مریضوں کی زندگی خطرہ میں ہے۔ صحافیوں کا کہنا ہے کہ سکھر سے لے کر حیدرآباد تک کسی اسپتال میں جدید برنس وارڈ اور جدید آلات سے لیس آئی سی یو موجود نہیں ، یوں اگر کوئی شخص 30 فیصد سے زیادہ جل جاتا ہے تو اس کے زندہ بچنے کے امکانات کم ہوجاتے ہیں۔
سندھ حکومت نے شعبہ صحت پر خاطر خواہ توجہ دی ہے۔ کراچی کا ایس آئی یو ٹی،کارڈیو ویسکلر انسٹی ٹیوٹ، جناح اسپتال اور غیر سرکاری شعبے میں انڈس اسپتال اس کی قابلِ قدر مثالیں ہیں۔ اسی طرح گمبٹ کا جدید میڈیکل انسٹی ٹیوٹ بھی مریضوں کی خدمت میں اعلیٰ مثال ہے مگر یہ تمام ادارے نجی شعبے کی گرانٹ سے فعال ہوئے ہیں۔ صوبے میں باقی سرکاری اسپتالوں کے حالات مخدوش ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ مریضوں کا سارا زورکراچی کے اسپتالوں پر ہوتا ہے۔ آتشزدگی کی بنیادی وجہ ایل پی جی کے ناقص سلنڈر ہیں مگر پورے سندھ میں اضلاع کی انتظامیہ کے اہلکار خطرناک کاروبارکو روکنے کی کوشش نہیں کرتے۔ صوبہ کے مکمل با اختیار اعلیٰ ترین شخصیت نے صحافیوں سے ایک ملاقات میں اقرارکیا کہ سندھ میں تعینات بیوروکریسی مسائل کے حل کی اہلیت سے محروم ہے۔
پیپلز پارٹی کے چیئر پرسن بلاول بھٹو زرداری نے صوبائی اسمبلی کے اراکین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان سے دھیان ہٹا کر اپنے مسائل پر توجہ دینی ہوگی۔ بلاول نے اپنی تقریر میں کہا کہ پانچویں بار جیتے لیکن وزراء اور اراکین اسمبلی اب کام کرتے نظر آنے چاہئیں۔ انھوں نے اپنی اس اہم تقریر میں واضح کیا کہ اراکین اسمبلی ٹرانسفر پوسٹنگ کی سیاست بند کردیں۔ بلاول بھٹو نے یہ بھی کہا کہ افسروں کی کارکردگی خراب ہو تو منتخب اراکین چیک کریں۔ انھوں نے اس بات کی طرف اراکین کی توجہ مبذول کرائی کہ پارٹی کی اندرونی لڑائیوں سے حکومت کی کارکردگی پر فرق پڑتا ہے۔ بلاول نے اس عزم کا اظہار کیا کہ افسروں کی تقرریاں اور تبادلے کارکردگی کی بنیاد پر ہونے چاہیئیں۔
سندھ کی سب سے بااختیار شخصیت کا بیوروکریسی کی کارکردگی پر عدم اعتماد اور بلاول بھٹو کی سندھ حکومت کی مجموعی تنقید سے ثابت ہوتا ہے کہ صوبہ انتظامی افراتفری کا شکار ہے، وزراء اور منتخب اراکین کی ترجیحات کچھ اور ہیں۔ اس ساری صورتحال میں سارا نقصان غریب عوام کا ہوتا ہے کہ حیدرآباد میں گزشتہ سال آتشزدگی کے ایک واقعے میں ایک درجن کے قریب افراد جاں بحق ہوئے۔ اب تعداد بہت زیادہ ہوگئی ہے مگر اتنے نقصان کے باوجود بنیادی مسائل کے حل کی طرف توجہ نہیں ہے۔ پریٹ آباد کے سانحے سے زیادہ برا سانحہ جنم لے سکتا ہے۔ اربابِ اختیار کو پریٹ آباد کے غریبوں کی آہ و بکا پر توجہ دینی چاہیے۔
[ad_2]
Source link