[ad_1]
پاکستان میں عید الاضحیٰ 17 جون بروز پیر منائی جارہی ہے۔ عید قرباں پر اہل ایمان سنت ابراہیمی کی پیروی کرتے ہوئے جانوروں کی قربانی کرتے ہیں۔ قربانی کا گوشت عزیز و اقربا کے علاوہ غربا و مساکین میں بھی تقسیم کیا جاتا ہے، یوں اس موقع پر ان گھروں میں بھی کھانے کو گوشت میسر آ جاتا ہے جو مالی مسائل کے باعث عام دنوں میں اس سے محروم رہتے ہیں۔
عمومی طور پر دیکھا گیا ہے کہ عید کے دنوں میں اور بعد کے ایام میں بھی لوگ بدہضمی، اسہال، گیسٹرو اور معدے اور آنتوں کے دیگر امراض کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اسپتالوں میں بھی پیٹ اور معدے کے امراض میں مبتلا مریضوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آتا ہے۔ قربانی کے گوشت اور معدے کے امراض میں اضافے کے درمیان کیا تعلق ہے؟ اور لوگ معدے کے امراض کا شکار ہونے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟ اس بارے میں جاننے کے لیے ہم نے جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر ( جناح اسپتال) میں گیسٹرو انٹیرولوجی ڈیپارٹمنٹ کی سربراہ، پاکستان سوسائٹی فار گیسٹروانٹیرولوجی کی جنرل سیکریٹری اور ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر نازش بٹ سے گفتگو کی جس کی تفصیلات قارئین کی نذر ہیں:
کیا عیدالاضحیٰ اور بعد کے ایام میں معدے اور آنتوں کے امراض بڑھ جاتے ہیں؟
اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر نازش بٹ نے کہا کہ کراچی میں شدید گرمی اور ہیٹ اسٹروک کی وجہ سے پیٹ کی بیماریاں پہلے ہی بہت بڑھ چکی ہیں، لبلبے کی سوزش، ورم جگر ( ہیپاٹائٹس) اور آنتوں کی سوزش کے مریض وارڈ میں بھرے ہوئے ہیں۔ آپ تصور کرسکتے ہیں کہ جب عید سے پہلے ہی یہ حالات ہیں تو عید کے بعد کیا صورتحال ہوگی۔
عید قرباں پر پیٹ کے امراض میں اضافے کی وجہ کیا ہے؟
اس بارے میں ڈاکٹر نازش بٹ کا کہنا تھا کہ عید کے بعد ہمیں جن بیماریوں کا سامنا ہوتا ہے ان میں سہرفہرست معدہ اور چھوٹی آنت کی سوزش یا ورم (گیسٹروانٹرائٹس) ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عام طور پر لوگ قربانی کے گوشت کو اچھی طرح نہیں دھوتے۔ ہمارے ہاں قربانی کرتے ہوئے ماحول کی صفائی ستھرائی کا خیال نہیں رکھا جاتا اور غیرصحت بخش اور آلودہ ماحول میں قربانی کی جاتی اور گوشت بنایا جاتا ہے۔ اس کے پیش نظر گوشت کوا چھی طرح دھونا بے حد ضروری ہے مگر عموماً اس سلسلے میں بے پرواہی برتی جاتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ قربانی کے گوشت کو پوری طرح پکایا اور گلایا بھی نہیں جاتا، گوشت ادھ گلا یا کسی قدر کچا رہ جاتا ہے جسے کھانے کے بعد پیٹ خراب ہوجاتا ہے، اور متاثرہ فرد بدہضمی، قے اور دستوں کا شکار ہوجاتا ہے۔ تیسری بات یہ کہ بسیار خوری یعنی حد سے زیادہ کھانا بھی پیٹ کی خرابی اور معدے و آنتوں کے امراض کا ایک اہم سبب ہے۔
ڈاکٹر نازش بٹ
سربراہ شعبہ گیسٹروانٹیرولوجی جناح اسپتال
کس عمر کے مریض زیادہ آتے ہیں؟
ڈاکٹر نازش بٹ نے بتایا کہ بچے تو ویسے ہی گرمی میں پیٹ کے امراض کا شکار ہوجاتے ہیں، اور آج کل کراچی میں ٹائیفائیڈ بھی بہت زیادہ پھیلا ہوا ہے اور اس کی وجہ جراثیم سے آلودہ اور غیرصحت بخش غذائیں کھانا ہوتا ہے۔ بہرحال بقرعید کے بعد معدے و آنتوں کی بیماریوں کا شکار مریضوں میں اکثریت بڑوں یعنی بالغ افراد کی ہوتی ہے۔
قربانی اور عام گوشت میں کیا فرق ہوتا ہے؟
ڈاکٹر نازش بٹ نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ دونوں طرح کے گوشت میں کئی اہم فرق ہوتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ قربانی کا جانور بہت صحت مند ہوتا ہے جبکہ عام دنوں میں ہم جو گوشت خرید کر لاتے ہیں اس کے بارے میں ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ وہ جانور صحت مند تھا بھی یا نہیں۔ دوسرے یہ کہ دکانوں پر یا سپرمارکیٹ میں رکھا ہوا گوشت خاصی دیر پہلے ذبح کیے ہوئے جانور کا ہوتا ہے، جبکہ قربانی کا گوشت بالکل تازہ ہوتا ہے۔ ایک اہم فرق غذائیت کے حوالے سے ہے کیونکہ ہم قربانی کے لیے بہترین جانور خریدتے ہیں اور پھر اس کی خوراک کا بھی خاص خیال رکھا جاتا ہے چنانچہ قربانی کے گوشت میں غذائیت زیادہ ہوتی ہے اور یہ سخت بھی ہوتا ہے اور دیر سے گلتا ہے۔
قربانی کے گوشت کا ہفتوں، مہینوں تک فریج میں رکھنا
اس سلسلے میں ڈاکٹر نازش بٹ کا کہنا تھا کہ بقرعید کا گوشت بانٹنے کے لیے ہوتا ہے۔ اگر سنت کے مطابق گوشت کی تقسیم کی جائے تو اتنا گوشت نہیں بچے گا کہ ہفتوں تک فریج میں رکھا جاسکے، مگر عام طور پر ایسا نہیں ہوتا۔ ڈاکٹر نازش کے مطابق قربانی کا گوشت زیادہ سے زیادہ ایک ہفتے کے اندر استعمال کرلینا چاہیے۔ طویل عرصے تک فریج میں گوشت رکھ کر استعمال کرتے رہنے سے پیٹ خراب ہوجائے گا اور کھانے والا بدہضمی، قے اور اسہال میں مبتلا ہوسکتا ہے۔
معدے اور آنتوں کے امراض سے کیسے بچا جائے؟
ڈاکٹر نازش بٹ کا کہنا ہے کہ:
٭ معدے کو صحت مند رکھنے کے لیے قربانی کے گوشت کو اچھی طرح پکایا جائے، اس میں کچا پن نہیں رہنا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ چونکہ سخت گرمی پڑ رہی ہے تو اس میں پانی کا استعمال بڑھا دینا چاہیے تاکہ جسم میں پانی کی کمی نہ ہو، اور گوشت کے ساتھ تازہ سبزیاں اور پھل بھی کھانے چاہیئں، یہ ہاضمہ بہتر بنانے میں مددگار ہوتے ہیں۔
٭قربانی کا گوشت ذبیحہ کے فوری بعد نہیں پکایا جانا چاہیے بلکہ اسے ایک سے دو گھنٹے تک رکھیں اور پھر پکائیں۔
٭گوشت کے پکوانوں یا بھاری کھانے کے ساتھ دہی اور سلاد کا استعمال ضرور کرنا چاہیے، دہی سے ہاضمہ ٹھیک رہتا ہے جبکہ سلاد ہاضمے کے عمل میں مددگار ہوتا ہے۔
٭کھانے کے بعد کولڈ ڈرنک کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے، کیونکہ کولڈ ڈرنک کاربونک ایسڈ ہوتا ہے اور یہ کھانے کو ہضم کرنے میں مددگار ہونے کے بجائے معدے میں تیزابیت کو بڑھاتا ہے۔ اس کے بجائے لسی، پودینے اور لیموں کا شربت اور دیگر تازہ مشروب گھر میں بناکر پینے چاہیئں۔
عام دنوں میں کھانے کی عادات کیا ہونی چاہیئں؟
اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر نازش کا کہنا تھا کہ ہماری کھانے پینے کی عادات یکسر تبدیل ہوگئی ہیں۔ فاسٹ فوڈ اور جنک فوڈ پر ہمارا انحصار بہت زیادہ بڑھ گیا ہے، حد تو یہ ہے کہ بہت سی خواتین نے گھروں میں کھانا پکانا چھوڑ دیا ہے اور فوڈ ڈلیوری بوائز پر انحصار کرتی ہیں۔ بچے بھی گھر کا کھانا چھوڑ کر پیزا اور برگر وغیرہ کھانا پسند کرتے ہیں۔ ہم آرگینک فوڈ (مصنوعی کیمیکلز سے پاک دیسی خوراک) کھایا کرتے تھے مگر اب ہم آرگینک سے دور ہوتے جارہے ہیں جبکہ باقی دنیا آرگینک کی طرف آرہی ہے۔ اگر ہم اپنے اصل طرز زندگی کی جانب لوٹ آئیں جس میں ہم گھر میں پکا ہوا کھاتے تھے، گوشت کے ساتھ ساتھ سبزیاں اور دالیں بھی کھاتے تھے تو ہم کبھی بیماری کا شکار نہیں ہوں گے۔ اور دوسری اہم بات یہ کہ بسیار خوری سے دور رہیں، کچھ بھوک رکھ کر کھائیں اور معدے کو تھوڑا سا خالی رہنے دیں۔
بڑے سائز کی بوٹیاں اور پائے کی ہڈی حلق میں پھنس گئی…..!
ڈاکٹر نازش نے ایک حیران کُن بات یہ بتائی کہ گذشتہ برس بقر عید کے بعد ان کے پاس نو افراد ایسے آئے جن کے حلق میں بڑی بڑی بوٹیاں پھنسی ہوئی تھیں اور وہ انہیں نگلنے یا اُگلنے سے قاصر ہوگئے تھے۔ ان میں کچھ دانتوں سے محروم بزرگ افراد تھے، جو بوٹی کو چبا نہیں سکتے تھے، انہوں نے نگلنے کی کوشش کی تو بڑے سائز کی بوٹی حلق میں پھنس گئی۔ ڈاکٹر نازش نے بتایا کہ ایک شخص ایسا بھی آیا جس کے حلق میں پائے کی ہڈی پھنسی ہوئی تھی۔ پتا یہ چلا کہ وہ شخص پائے کی ہڈی چوس رہا تھا کہ دوست نے ہنسا دیا اور ہڈی سیدھی حلق میں اتر کر پھنس گئی، جسے نکالنے میں ہمیں بہت مشکل کا سامنا کرنا پڑا تھا… تو اس نوع کے واقعات بھی بقرعید پر پیش آتے رہتے ہیں۔
[ad_2]
Source link