[ad_1]
ایڈیٹوریل: مجھ سمیت تمام سندھ واسیوں اور سندھ کی راجدھانی کراچی کا یہ المیہ رہا ہے کہ میرے سندھ کوکبھی آریاؤں اور کبھی گورے حملہ آوروں نے بار بار ابنی من مرضی سے لُوٹا اور سندھ سے دراوڑ نسل کو در بدر کیا، اسی دوران عربوں نے سندھو کے بنیادی ’’ سر سارنگ ‘‘ ثقافت اور مدھر سروں کی مساویانہ سوچ کی دھرتی کو نقصان پہنچایا، وہ تو بھلا ہو شاہ لطیف کا کہ انھوں نے 16 ویں صدی کے وسط تک دورِاکبری کے سیکیولر خیالات کی مدد سے سندھو کے مدھر سروں کو ’’ سرکلیان‘‘ سے لے کر ’’ سر بلاول‘‘ تک 30 سروں میں محفوظ کرنے کی کوشش کی۔
یہ الگ بات ہے کہ سندھ میں انگریز کے نوازے گئے عوام دشمن جاگیرداروں اور وڈیروں نے میرے سندھ کے ’’ جاکھوڑی‘‘ کردار شاہ لطیف کو مزار تک محدود کر دیا اور موسیقی کے سریلے سروں اور فکر کو ’’ سگھڑ‘‘ تک محدود کرکے رکھ دیا ہے، جہاں سندھ کے سماج کا یہ چہرہ ہے، وہیں یہ بات خوش آیند بھی رہی کہ سندھ کی راجدھانی کراچی میں علم و ادب اور سر لے کی ترقی کا ایک در کھلا اور موسیقی کا یہ سفر سندھ سمیت پورے ملک میں پھیلا۔
میرے پورے سندھ کے واسی آج بھی شاہ لطیف کے ان ’’ سگھڑ‘‘ کے شکر گزار ہیں جنھوں نے تمبورے، ہار مونیم اور ڈھولک کی تھاپ پر شاہ لطیف کے تمام سروں کو آج تک محفوظ کیا ہوا ہے۔
موسیقی اور سُر تال کی لے کو پروان چڑھانے میں پنجاب خوش قسمت رہا کہ وہاں لاہور کو اکبر اعظم نے اپنی راجدھانی بنایا اور مغلیہ تعمیرات کے علاوہ موسیقی میں اساتذہ کی مدد سے ڈھولک کی تھاپ پر لے اور سُروں کو حکومتی سطح پر ترقی دی اور برصغیر کے عوام میں موسیقی کے سُروں کی مدد سے قربت پیدا کی اور عام فرد کی فطری جبلی خواہش کو سُر سنگم میں جوڑ دیا، موسیقی کے ذریعے آداب محفل سے عام فرد آگاہ ہوا، جس کے نتیجے میں سندھ کے مقابلے میں پنجاب میں موسیقی کے مہان گھرانے پیدا ہوئے اور لاہور موسیقی کا گہوارہ تقسیم سے قبل ہی بن چکا تھا، دوسری جانب سندھ میں شاہ لطیف کے سُروں کا با ضابطہ استعمال نہ ہونے سے سندھ کے ’’ سُریلے مزاج‘‘ کو وڈیروں کی سازش نے چبا ڈالا۔
برطانوی راج میں سندھ کی راجدھانی کراچی کو جب عالمی سرمایہ کار حیثیت دی گئی تو ثقافتی رنگ بکھیرنے کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے ریڈیو کو اہم جانا گیا، اسی واسطے جدید دنیا سے رابطے اور ثقافتوں کی ترویج کے لیے صوتی آواز کے دور کی بنیاد رکھنے میں سندھ کی راجدھانی کراچی کو چنا گیا جس کے انتظام و انصرام کی ذمے داری ریڈیو کی آگاہی کے سبب زیڈ اے بخاری کو سونپی گئی۔
ذوالفقار علی شاہ بخاری تقسیم سے قبل انگریز سرکار میں ایک ماہر صدا کار بن چکے تھے، یہی وہ بنیاد تھی کہ انھیں ریڈیو پاکستان قائم کرنے اور اسے چلانے کی ذمے داری سونپی گئی، اس وقت کے حالات اور مشکلات میں موسیقی کے فروغ کے لیے زیڈ اے بخاری نے جو جو پاپڑ بیلے وہ خود ایک تاریخی حقیقت ہے۔ زیڈ اے بخاری اپنی آب بیتی ’’ سرگزشت‘‘ میں رقم طراز ہیں کہ’’ ہم اپنے جذبہ آزادی کے ہاتھوں مجبور تھے اور سرکار اپنے جذبہ حکمرانی کے ہاتھوں… نہ وہ ہار مانے نہ ہم … مٹی کے مادھو بننا ہمارے بس کا روگ نہ تھا، سرکار تو چاہتی تھی کہ ریڈیو والے ہمارے نام کی مالا جپیں مگر ہم کو مائیکرو فون لے کر اپنے ہم وطنوں یعنی ہم قسمت غلاموں کے دربار میں پیش ہونا تھا۔
انگریز تو بوریا بستر سمیٹ کر جا رہا تھا، اس کا کیا تھا لیکن ہم کو یہاں رہنا تھا، یہیں کے لوگوں کے ساتھ جینا تھا اور انھی لوگوں میں مرنا تھا۔ ریڈیو پاکستان کے ابتدائی ایام میں پیش آنے والی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے زیڈ اے بخاری لکھتے ہیں کہ ’’ پروگرام مرتب کرنے میں سب سے بڑی دقت یہ تھی کہ ملک میں ثقافتی سرگرمیاں ان دنوں بہت ماند پڑی ہوئی تھیں۔ موسیقی ناجائز، کلاسیکل موسیقی ناقابل ہضم، ڈرامہ مفقود اور مقرر ناپید آج کل حالات کچھ بہتر ہیں، اب تو فنکاروں کو خطاب بھی ملتے ہیں۔ اس زمانے میں… توبہ الٰہی، جسے دیکھو ثقافت اور موسیقی کے پیچھے لٹھ لیے پھرتا تھا، انھی دنوں پاکستان کے موقر روزنامے میں مراسلہ شایع ہوا کہ ’’ راگ غیر اسلامی ہے، ریڈیو پاکستان کو حکم دیا جائے کہ راگ بالکل بند کردے، راگوں کے بجائے قوالیاں نشر کرے، کاش کوئی بندہ خدا اس کو آگاہ کر دیتا کہ راگ مسلمانوں کی ایجاد ہیں۔
راگوں کے سب سے بڑے موجد امیر خسرو، سلطان شرقی اور عطا حسین خان عرف تان سین گزرے ہیں بلکہ بلھے شاہ، خواجہ فرید اور شاہ لطیف کی تمام کافیاں موسیقی کو مد نظر رکھ کر لکھی گئی ہیں،کوئی ایسی قوالی آپ گا ہی نہیں سکتے جو کسی راگ میں نہ ہو، راگ تو مختلف سروں کے امتزاج کا نام ہے،اس امتزاج سے نفرت کیسی اور تنافرکیا معنی؟ قابل داد ہیں ریڈیو کے نوجوان جنھوں نے طعنے سنے لیکن اپنے کام میں لگے رہے، خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ کارِ عظیم انھوں نے کیوں کر انجام دیا، پیشہ ور گویے تو اس ملک میں بہت کم ہیں اور جو ہیں وہ اٹھتے جاتے ہیں۔‘‘
قیام پاکستان کے ابتدائی ایام میں خصوصا سندھ کی راجدھانی کراچی نے موسیقی کو عام کرنے میں جو پاپڑ بیلے وہ شدید کٹھن راستے تھے جن کو ریڈیو پاکستان کے مہان افراد نے زمانے کے مدو جزر سے بچائے رکھا اور ریڈیو پاکستان کے عروج کے دور میں ہی اس سے متصل گلی میں 1956 میں ’’ سلیم میوزک‘‘ کی بنیاد پڑی، ریڈیو میں موسیقی کی نئی نئی دھنیں بنتی رہیں اور موسیقارکام کرتے رہے، صدا کار و گلوکار اپنے فن کا جادو جگاتے رہے اور یہ دکان ان عظیم فنکاروں کے سازندوں کی مرمت کا کام کرتی رہی۔ ساٹھ اور سترکی دہائی میں موسیقی باقاعدہ صنعت کی شکل اختیار کرچکی تو موسیقی کے نئے آلات بھی اس دکان میں سج گئے۔
محمد سلیم نے تقریبا سب نامورگلوکاروں اور فنکاروں کے آلات کی مرمت کی۔ اُن میں میڈم نور جہاں، نصرت فتح علی خان، مہدی حسن، پرویز مہدی، میڈم فریدہ خانم، خان مہدی علی خان، ان کے بھائی پنڈت غلام قادر، امراؤ بندو خان صاحب سارنگی نواز خود بھی آئے اور ان کے ہار مونیم اور ستار وغیرہ بھی۔ فن کی دنیا کے یہ ستارے کام میں وقفے کے دوران ریڈیو پاکستان کی عمارت سے نکل کر اس میوزک ہاؤس پر بیٹھتے، سامنے ایک ایرانی ہوٹل سے چائے منگوا کر پیتے اورگپ شپ کرتے۔ چائے کی پیالیوں کی کھنک اور عظیم فنکاروں کی گفتگو سے رونق سی لگ جاتی، یہ وہی فنکار گلی ہے جہاں سے نامور ستارے ابھرے۔
محمد سلیم کو یہ اعزاز بھی حاصل رہا کہ احمد غلام علی چھاگلہ نے جس ہار مونیم پر قومی ترانے کی دُھن ترتیب دی تھی اس کی درستگی کا عمل بھی محمد سلیم کے ہاتھوں ہوا۔ آج یہ ہار مونیم ایک یاد کے طور پر حیدرآباد کے میوزیم میں رکھا ہوا ہے جس پر ’’ سلیم اینڈ سنز‘‘ کا لوگو نصب ہے۔
آج ریڈیو پاکستان کی تاریخ ساز عمارت کو حکومت کی لاپرواہی نے روند ڈالا ہے، اور اس فنکار گلی میں فنکاروں کی جگہ آٹو موبائل کی دکانیں لے چکی ہیں، جہاں موسیقی کی جگہ گاڑی کے اوزاروں کی ٹھک ٹھک سنائی دیتی ہے، لیکن سلیم اینڈ سنزکی دکان آج بھی موسیقی کے سازوں سے سجی موسیقی کے رنگ بکھیرنے والوں کی منتظر ہے۔
پیدا کہاں ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس تم کو مِیر سے صحبت نہیں رہی
[ad_2]
Source link