15

نجکاری کی مخالفت کیوں؟ – ایکسپریس اردو

[ad_1]

ایڈیٹوریل: 1970 کے بعد سرکاری تحویل میں لیے گئے نجی اداروں کو حکومت پھر نجیشعبیکے حوالے کرنے میں سرگرم ہے۔ حال ہی میں قومی اسمبلی میں 25 اداروں ایک فہرست پیش کردی گئی ہے۔ پہلے سرکاری تحویل میں لینا اور اب ان اداروں کو پھر واپس نجی اداروں کے حوالے کرنا ظاہر ہے، اسے حکومت کی حکمت عملی کی غلطی ہی کہا جاسکتا ہے۔

1970-71 کا وہ دور تھا جب سوشلزم کا دور دورہ تھا۔ایشیا، یورپ، افریقہ اور جنوبی امریکا کے کئی ممالک میں اس نظام کو اپنایا جا رہا تھا۔ سوشلسٹ حکومتیں ملکی دولت کی منصفانہ تقسیم کرنے والی اور مزدوروں کسانوں کی ہمدرد ہونے کی دعویدار بن گئیں۔ ان انقلابی حکومتوں نے کارل مارکس کے نظریہ معیشت کو اپنایا جس کا مطلب ریاستکے تمام وسائل کو ریاست کے زیر تسلط لانا تھا۔

اس وقت یہ نظریہ بڑا عام تھا کہ دنیا میں فساد اور ناانصافی کی جڑ وسائل پرسرمایہ داروں، جاگیرداروں اور مذہبی رہنما ہیں۔ چنانچہ ان تمام پر حکومتوں کا کنٹرول ہونا چاہیے۔ جہاں سوشلسٹ حکومت آئی، ملک کی تمام دولت، زمین اور صنعتی وسائل کو ریاستی ملکیت میں لے لیا گیا۔ ان حکومتوں نے تمام ملکی وسائل کو اپنے قبضے میں لے کر ان سے کام لینا شروع کردیا۔

بدقسمتی سے اس نظام میں شخصی دلچسپی ذرا نہیں تھی کیوں کہ مزدوروں کسانوں اور اہلکاروں کی محنت کا صلہ انھیں ملنے کے بجائے حکومت کے کھاتے میں جاتا تھا۔ اس عمل کے جاری رہنے سے آہستہ آہستہ مزدوروں، کسانوں کا کام سے دل اچاٹ ہوگیا اور قومی پیداوار میں کمی واقع ہونا شروع ہوئی۔ چنانچہ ان کے کام کی نگرانی کے لیے گارڈز مقرر کیے گئے جنھیں ریڈگارڈز کا نام دیا گیا۔ یہ عمل سب سے پہلے سوویت یونین میں بروئے کار لایا گیا۔ دراصل یہی وہ ملک تھا جہاں سے سوشلسٹ انقلاب کی ابتدا ہوئی تھی جب وہاں اس نظام میں خرابیاں پیدا ہونا شروع ہوئیں تو دیگر ممالک میں بھی سوشلسٹ نظام کے خلاف جذبات پیدا ہوئے اور عوام کی بے زاری نے خود حکومتوں کو اس سے بے زار کر دیا۔

چنانچہ پھر ہوا یہ کہ نجی شعبے کو تقویت ملنا شروع ہوگئی اور پھر کچھ عرصے بعد قومی ملکیت میں لیے گئے ادارے حکومتوں کے لیے وبال جان بن گئے چنانچہ ان سے جان چھڑانے کے لیے انھیں نجی مالکان کو واپس کرنے کا عمل شروع ہوگیا، تاہم اس عمل یا نظام کو اپنانے سے کوئی فائدہ حاصل نہ ہو سکا البتہ اس نظام کے قیاس سے ملکوں کو جو نقصانات ہوئے تھے اس کی بھرپائی تو مشکل ہی تھی البتہ اب حکومتوں نے خود کو نجی اداروں کو اپنی تحویل میں لینے سے دور کر لیا۔ یہ اس لیے کہ حکومتوں کا کام حکومت کرنا ہوتا ہے تجارت کرنا یا صنعتی پیداوار کے جھمیلوں میں پڑنا نہیں ہوتا۔

ادھر پاکستان میں بھی پہلے نجی شعبے کی تمام ملوں، فیکٹریوں اورکارخانوں حتیٰ کہ اسکولوں تک کو سرکاری تحویل میں لے لیا گیا تھا مگر جیساکہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے کہ دنیا کے دوسرے ممالک بشمول سوویت روس میں سرکاری تحویل میں لیے نجی شعبوں کے اداروں کا جو حشر ہوا، اس سے پاکستان بھی متاثر ہوا۔ یہاں بھی وہی ہوا کہ سرکاری تحویل میں لیے گئے نجی ادارے حکومت سے نہیں چل سکے۔

ان اداروں کو چونکہ سرکاری اہلکاروں کے حوالے کر دیا گیا تھا چنانچہ انھوں نے ان پر وہ توجہ نہیں دی جن کے یہ مستحق تھے چنانچہ چند ہی سالوں میں یہ ادارے حکومت کے لیے سر درد بن گئے کیونکہ یہ تمام فائدے میں جانے کے بجائے خسارے میں چلے گئے اور یہاں تک ہوا کہ وہاں موجود ملازمین کی تنخواہیں بھی خطرے میں پڑگئیں۔

اس کی مثال پاکستان اسٹیل مل سے دی جا سکتی ہے ۔ یہ ادارہ شروع میں فائدہ مند ثابت ہوا تھا بعد میں وبال جان بن گیا ، اس کے ملازمین کی تنخواہیں ادا کرنا حکومت کے لیے مصیبت بن گیا ہے۔ اب یہاں کے ہزاروں ملازمین کو فارغ کر دیا گیا ہے اور اسی طرح دوسری سرکاری تحویل میں لیے گئے نجی اداروں میں بھی ملازمین کی چھانٹی کرنا پڑی ہے مگر چونکہ کچھ ادارے اب بھی حکومت کے پاس ہیں، اس لیے یہ حکومت کے لیے مستقل مصیبت بن چکے ہیں۔

ان اداروں کو مسلم لیگ ن کی حکومت کے بعد سے نجی اداروں کے حوالے کرنے کا فیصلہ ہوچکا ہے مگر پیپلز پارٹی ان کا دفاع کرتے ہوئے ان کی نجکاری کے آگے دیوار بن کر کھڑی ہو گئی ہے۔ ابھی اس وقت حکومت کے لیے خزانے پر سب سے بڑا بوجھ پی آئی اے اور پاکستان اسٹیل مل بنے ہوئے ہیں موجودہ حکومت ان کی نجکاری کا فیصلہ بھی کرچکی ہے مگر شاید ایسا نہ ہو سکے، اس لیے کہ حکومت اپنی اتحادی پیپلز پارٹی کو ناراض کرنا مناسب نہ سمجھے۔ پیپلز پارٹی اپنے منشور کے تحت حکومت کی تحویل میں موجود اداروں کی نجکاری کے سخت خلاف ہے مگر اب اسے بھی ملکی مفاد کو پیش نظر رکھنا چاہیے اور اپنی بعض سخت بے محل پالیسیوں سے اجتناب کرنا چاہیے۔

اس وقت پوری دنیا میں پھر سے سرمایہ دارانہ معیشت بحال ہو رہی ہے کیونکہ سوشلسٹ اکانومی بے وقت کی راگنی بن چکی ہے۔ امریکا، برطانیہ، جرمنی اور جاپان کی ترقی یافتہ معیشت اور صنعتی سبقت ہمارے سامنے ہے۔ ان ممالک نے شروع سے ہی نجی شعبوں کو اپنے کام میں آزاد رکھا ہے انھیں پھلنے پھولنے کا پورا موقع دیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ ملک آج بھی ترقی یافتہ ہیں اور وہاں کے عوام خوشحال ہیں۔ انھی ممالک کا آئی ایم ایف اور تمام عالمی مالیاتی اداروں پر آج کل راج ہے ان کی مرضی کے بغیر کسی بھی ملک کو قرضے کی سہولت حاصل نہیں ہو سکتی ہے۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں