[ad_1]
ایڈیٹوریل: قومی بجٹ سالانہ مالی تخمینہ ہی نہیں بلکہ ایک ایسی دستاویز ہوتی ہے جس میں ملک اور عوام کی فلاح و بہبود پوشیدہ ہوتی ہے۔اس بار بجٹ پیش کرنے سے پہلے بلند و بانگ دعوے کیے گئے کہ عوام کی فلاح و بہبود اور ترقی کی راہیں کھل جائیں گی لیکن کف افسوس ’’حسرت ان غنچوں پہ ہیجو بن کھلے مرجھا گئے‘‘۔ رب کریم کا شکر ہے کہ ہم دیوالیہ ہونے سے تو بچ گئے ہیں، اب توقع کی جا رہی تھی کہ یہ بجٹ عوام کو کچھ سہولت دے گا لیکن ایسا نہ ہوسکا۔وزیر خزانہ کی اسمبلی تقریر کے اعداد و شمار میں تضادات نمایاں تھے۔ پاکستان کے قرضوں ،گردشی قرضوں اور آئی پی پی کا مسئلہ، ذرا ان کا جائزہ لیتے ہیں کہ ہم کس مشکل میں گرفتار ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان نے ایندہ مالی سال کے دوران 40 ارب ڈالر کا قرض واپس کرنا ہے۔اس ادائیگی میں اصل رقم آٹھ بلین ڈالر ہے جب کہ باقی 32 ارب ڈالر سود ہے ۔ دوسری طرف ہمیں ساڑھے سات بلین ڈالر کپیسٹی پیمنٹ ( Capacity Charges)کے طور پر دینے ہیں۔ اپ کو کپیسٹی چارجز کے نام پر ہر حال میں یہ ادائیگی کرنی ہے۔ کپیسٹی چارجز کی یہ رقم ہر ماہ صارفین سے بلوں میں باقاعدگی سے وصول کی جاتی ہے۔
مختلف حکومتوں کے غلط اور مفاداتی فیصلوں کی بدولت ملک ایک ایسیمنحوس چکر میں پھنس گئے ہیں کہ نکلنے کی راہ نظر نہیںآرہی۔ سالہا سال گزر جانے کے باوجود بھی پاکستانی حکمرانوں کے پاس اس چنگل سے نکلنے کے لییکوئی پالیسی ہے اور نہ نیک نیتی نظر ارہی ہے، اس بار یہ توقع کی جا رہی تھی کہ شاید حکومت اس بجٹ میں ایسے اصلاحی اقدامات کیے جائیں گے جس سے ہم خیر کی راہ پر چل نکلیں۔لیکن بدقسمتی سے وہی “ڈھاک کے تین پات” والا معاملہ ہے ۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس بجٹ میں اشرافیہ قربانی دیتی لیکن ماضی کی طرح اس بار بھی اشرافیہ قربانی تو کیا دیتی اس کو مزید تحفظ فراہم کر دیا گیا ہے اور غریب تنخواہ دار طبقہ اور غربت کی لکیر سے نیچے بسنے والوں کا لہو بھی نچوڑنے کی منصوبہ بندی ہے۔
معاشی ماہرین اور پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر رکھنے والے تجزیہ نگاروں کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ حکومت اور اشرافیہ عوام کو دھوکے میں رکھ رہے ہیں۔ حکومت سہانے خواب دکھاتی ھے کہ 10 بلین ڈالر فلاں جگہ سے ا جائیں گے۔پانچ ملین فلاں ملک سے ا رہے ہیں۔ 15 ملین ایک بین الاقوامی ادارہ امداد کے طور پر دے رہا ہیاور جب یہ رقوم ا جائیں گی تو ہم بجٹ کے خسارے پر بھی قابو پا لیں گے کپیسٹی بلڈنگ کا مسئلہ بھی حل کر لیں گے سود کی قسط بھی ادا کر دیں گے اور ترقیاتی منصوبوں کے لیے بھی رقم مہیا کر سکیں گے۔
یہ سب کچھ بالکل اسی طرح ہے کہ کبوتر بلی کو دیکھ کر انکھیں بند کر لے اور سوچے کہ میں اب محفوظ ہو گیا ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ صرف ایک خواب دکھانے کے مترادف ہے۔ عملا کچھ بھی نہیں ہو رہا۔بدقسمتی سے حکمران اور سیاست دانوں کی نیتیں ٹھیک نہیں ہیں وہ اصل مسئلے کو حل کرنے میں سنجیدہ نہیں ہیں صرف تسلیاں دے رہے ہیں بیوروکریسی بھی مسلہ حل کرنے کی صلاحیت سے عاری ہے، اس کے پاس کوئی ویڑن نہیں۔ صرف ڈنگ ٹپاؤ کام ہو رہا ہے۔ ملک کی معاشی اور معاشرتی صورتحال ایک پیچیدہ اور گنجلک جال بن چکا ہے اس کا سرا نہ تو کوئی نیک نیتی سے پکڑنا چاہ رہا ہے اور نہ ہی کسی کو فکر ہے کہ اسلامی دنیا کا پہلا جوہری ملک جس کے پاس دنیا کی چھٹی بڑی فوج موجود ہے اس کے حکمران اپنی انکھیں اور دماغ کیوں نہیں کھول رہے۔
پاکستان کی نسبت کم تر وسائل رکھنے والے ملک اور مشکلات سے گھری قوموں نے بھی منزل کو جانے والا راستہ ڈھونڈ نکالا ہے لیکن ایک ہم ہیں جو اپنی ہی صورت کو بگاڑنے پر لگے ہوئے ہیں۔۔۔۔ہمارے پاس من حیث القوم وقت نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہمیں نعرے بازی اور بیانیے کی جنگ کو چھوڑ کر ملک اور قوم کی تعمیر کے لیے لائحہ عمل تشکیل دینا ہے۔یہ بات انتہائی افسوس ناک ہے کہ حالیہ بجٹ تجاویز ملک اور قوم کی فلاح و بہبود کا لائحہ عمل دینے میں کلی طور پر ناکام نظر ارہی ہے۔
پاکستانی عوام کے دکھ درد کا مداوا کب ہوگا؟اور کون کرے گا؟… یہ ہے وہ سوال جو پاکستان کے عوام حکمرانوں سے پوچھ رہے ہیں۔
[ad_2]
Source link