[ad_1]
ایڈیٹوریل: پاکستان کے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے قومی اسمبلی میں مالی سال 2024-2025 کا بجٹ پیش کردیا ہے۔ اس موقع پر نہ جانے کیوں ذہن میں یہ خیال آیا کہ پاکستان کا پہلا بجٹ کیسا تھا اور اسے کب پیش کیا گیا تھا۔ ہمارے ملک کا پہلا بجٹ فروری 1948 میں اس وقت کے وزیر خزانہ ملک غلام محمد نے تیار کیا تھا۔ قائد اعظم محمدعلی جناح کی زندگی میں پیش کیا جانے والا یہ پہلا اور آخری بجٹ تھا۔
غلام محمد بعدازاں ملک کے گورنر جنرل کے عہدے پر فائز ہوئے۔ ان کا تعلق نوکر شاہی سے تھا اور وہ بنیادی طور پر اکائونٹ کے شعبے سے متعلق تھے۔ یہ ہماری بدنصیبی تھی کہ غلام محمدآگے چل کر پاکستان کے طاقتور ترین حاکم بن گئے۔ انھوں نے دستور ساز اسمبلی توڑ دی جسے اسپیکر مولوی تمیز الدین خان نے سندھ چیف کورٹ میں چیلنج کردیا، چیف کورٹ نے ان کی اپیل منظور کرلی اور گورنر جنرل کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا۔
وفاقی حکومت نے اس وقت کی فیڈرل کورٹ یعنی سپریم کورٹ میں سندھ چیف کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کردیا۔ جسٹس منیر پر مشتمل بینچ نے چیف کورٹ کے تاریخی فیصلے کو ختم کرکے حکومت کی اپیل منظور کر لی۔ اس طرح پاکستان کی تاریخ کا وہ سیاہ دور شروع ہوا جس میں ریاست کے اقتدار پر بیورو کریسی، ان کے حامی بڑے جاگیردار سیاست دانوں اور ایوب خان کی شکل میں فوجی اشرافیہ کا قبضہ ہوگیا۔
اعلیٰ عدالت نے اس ضمن میں ایک کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ اس عدالتی فیصلے کے بعد اعلیٰ عدلیہ نے ہمیشہ فوجی آمروں اور غیرجمہوری طاقتوں کی حمایت کی۔ یہ سلسلہ کب ختم ہوگا، اس بارے میں کیا کہا جاسکتا ہے؟ بات پاکستان کے پہلے بجٹ کی ہو رہی تھی اور نہ جانے کہاں جانکلی، بہر حال ریکارڈ درست رکھنے کے لیے یہ حقیقت ضرور بیان کردی جائے کہ اگر جسٹس منیر احمد خان کی جانب سے یہ فیصلہ نہ کیا جاتا تو مشرقی پاکستان بھی آگے چل کر اپنی راہیں ہم سے جدا نہ کرتا۔
ملک کے پہلے بجٹ کے بارے میں جان لیا جائے کہ یہ بھی خسارے کا بجٹ تھا جس میں 10 کروڑ روپے کا خسارہ ظاہر کیا گیا تھا۔ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے 2024 کا جو بجٹ منظوری کے لیے ایوان کے سامنے رکھا ہے اس بجٹ کا خسارہ 8500 ار ب روپے تک پہنچ چکا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہنا چاہیے کہ ہم نے قومی آمدنی بڑھانے کے بجائے قومی خسارہ بڑھانے میں غیرمعمولی کارکردگی کا ریکارڈ قائم کر دیا ہے۔
ملک کے پہلے بجٹ میں خسارہ پورا کرنے کے لیے کچھ ٹیکس عائد کیے گئے تھے۔ شکر‘ تمباکو‘ بیڑی اور حقہ پر بھی ٹیکس لگا دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ مٹی کے تیل اور پٹرول پر بھی ٹیکس میں اضافہ کیا گیا تھا۔ اس زمانے میں کاٹن اور کھا لیں برآمد کی جاتی تھیں‘ ان پر بھی برآمدی ڈیوٹی عائد کر دی گئی تھی۔ سب سے دلچسپ اضافہ پوسٹ کارڈ کی قیمت میں ہواتھا، اس پر غلام محمد صاحب نے ٹیکس لگادیا جس کے بعد سے 2 پیسے کا پوسٹ کارڈ3پیسے کا ہو گیا تھا۔ حالیہ بجٹ میں بجائے اس کے کہ ٹیکس کم کیے جاتے تقریباً ہر چیز پر ٹیکس بڑھا دیا گیا ہے۔ ملک کے پہلے بجٹ کا کل تخمینہ 89 کروڑ روپے تھا اور موجودہ بجٹ کا تخمینہ 18877 ارب روپے لگایا گیا ہے۔
پاکستان کے پہلے اور موجودہ بجٹ کے اس سرسری اور انتہائی مختصر جائزے سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ 1948 سے لے کر 2024 تک ہم نے اپنے بجٹ کا خسارہ بڑھایا ہے۔ ذرا دوبارہ سوچیں 1948 میں جو خسارہ محض 10 کروڑ روپے تھا وہ 2024 میں 8500 ارب روپے تک جا پہنچا ہے۔ یہ اشاریہ کیا ظاہر نہیں کرتا کہ ہم نے 75سالوں میں آمدنی کے مقابلے میں اپنے اخراجات اتنے بڑھالیے ہیں کہ اب اس پر قابو پانا بہت مشکل ہو گیا ہے۔
اس صورت حال کی قیمت سب سے زیادہ ملک کے غریب عوام کو ادا کرنی پڑ رہی ہے۔ حالیہ بجٹ کو منظور کرنا سب کی مجبوری ہے کیوں کہ ایسا کرنے کے سوا کوئی اور چارہ کار نہیں ہے۔ ایوان میں شور شرابا ہوگا۔ مخالف سیاسی جماعتیں بھر پور تنقید کریں گی‘ بڑے بڑے معاشی اور سیاسی ماہرین اپنے تجزیے پیش کریں گے‘ بجٹ کی منظوری کے بعد سارا شور تھم جائے گا اور ہم ایک دوسرے کے خلاف دشنام طرازیوں میں دوبارہ مصروف ہوجائیں گے۔
اس بات پر غور کرنا ہوگا کہ بجٹ کا خسارہ بڑھانے اور اشیاء و خدمات پر ٹیکس لگانے اور قرض لے کر خسارہ پورا کرنے کی جو روش جاری ہے اسے کس طرح بتدریج ختم کیا جاسکتا ہے؟ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ اگلے مالی سال کا بجٹ خسارہ آج کے مقابلے میں کافی کم ہو جائے گا؟ کیا کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ ہم اگلے مالی سال حالیہ مالی سال کے مقابلے میں کم قرض لیں گے؟ کیا ایسا ممکن ہے کہ ایک ہزار ارب روپے کا سالانہ خسارہ کرنے والے سرکاری ادارے اپناخسارہ کم کرسکیں گے؟ کیا اربوں روپے کے نقصان سے بچنے کے لیے نجکاری کے مسئلے پر سیاسی اور انتظامی اتفاق رائے پیدا ہو سکے گا؟
آئی ایم ایف کے جس پروگرام کی خاطر ہم اس قدر مشکل بجٹ پیش کر رہے ہیں کیا اس پروگرام کی تکمیل کے بعد ہم آئی ایم ایف کے چنگل سے آزاد ہو جائیں گے؟ ان تمام سوالات کا صرف ایک جواب ہے اور وہ یہ کہ پاکستان کی معیشت آیندہ آنے والے سالوں میں تیزی سے ترقی کرتی ہوئی 8 فیصد کی شرح نمو حاصل کر لے، ایسا کرنا ناممکن نہیں۔ دنیا میں کساد بازاری ہے لیکن ہمارے پڑوسی ملک کساد بازاری کا شکار نہیں ہوئے ہیں‘ ان کا شمار سب سے تیز رفتار ترقی کرنے والے ملکوں میں ہوتا ہے۔
اگر ہمارے پڑوس کے ملک‘ مشرقی ایشیا‘ خلیج اور افریقہ کے بہت سے ملک ترقی کے اہداف حاصل کر سکتے ہیں تو ایسا کرنا ہمارے لیے کیوں ممکن نہیں ہے؟ ہماری اشرافیہ بہت مزے اٹھاچکی ہے اب اس کے تمام ٹیکس استثنیٰ ختم کردیے جائیں۔ جو ادارے مسلسل خسارے میں ہیں انھیں بند یا فروخت کر دیا جائے اور ان میں کام کرنے والے لوگوں کو متبادل روزگار فراہم کیا جائے۔
غیرپیداواری اور انتظامی اخراجات میں کمی لائی جائے۔ بجلی اور گیس کی چوری روک کر گردشی قرضے کم سے کم سطح پر لائے جائیں۔ مہنگائی اور افراط زر کم کرنے کے لیے پڑوسی ملکوں سے تجارت کی جائے اور اسے کسی بھی طرح انا کا مسئلہ نہ بنایا جائے۔ معیشت تباہ ہونے لگے تو تباہی کی زد میں خاص و عام سب آتے ہیں۔ سابق سوویت یونین کی مثال سامنے رکھی جائے۔ یہ ملک اپنے وقت کی سپر پاور تھا، امریکا بھی اس سے خائف رہتا تھا ،آدھی سے زیادہ دنیا پر اس کا رعب اور دبدبہ تھا۔ اس کے پاس 25ہزار جوہری ہتھیار تھے۔ فوجی طاقت میں اس کا امریکا کے سوا کوئی اور مدمقابل نہیں تھا لیکن جب اس کی معیشت تنزلی کا شکار ہوئی تو سب کچھ تباہ ہو گیا‘ باقی کچھ نہ بچا۔
1948-49 کے بجٹ سے لے کر 2024-25 کے بجٹ کا مختصر موازنہ ہمارے سامنے ہے۔ خسارہ نہ بڑھائیں، معیشت کی شرح نمو بڑھائیں۔ مشکل سیاسی اور معاشی فیصلے کریں۔ علاقائی اور عالمی تعاون اور اشتراک سے آگے بڑھیں۔ جس مشکل میں ہم گرفتار ہیں اس سے نکلنا ممکن ہے، شرط صرف یہ ہے کہ اگر ہم نکلنا چاہیں۔
[ad_2]
Source link