[ad_1]
ایڈیٹوریل: عطاء اللہ شاہ بخاریؒ برصغیر پاک و ہند کے نامور عالم‘ خطیب اور سیاسی رہنما تھے‘ اﷲ تعالیٰ نے شاہ صاحب کو بیان اور تاثیرکی قوت ودیعت کر رکھی تھی‘ لوگ ان کے دیوانے تھے‘ زائرین دو‘ دو دن کا کھانا باندھ کر شاہ صاحب کا خطاب سننے آتے تھے اور شاہ جی بھی دو‘ دو دن بولتے رہتے تھے‘ نمازوں اور کھانے کا وقفہ ہوتا تھا اور خطاب دوبارہ شروع ہو جاتا تھا‘۔
شاہ صاحب ہندوستان کی تقسیم کے خلاف تھے‘ وہ چاہتے تھے ہندو اور مسلمان مل کر انگریزوں کو نکالیں اور اس کے بعد بھائی بھائی بن کر اکٹھے رہیں‘ وہ اپنے خطبات میں اپنے ان خیالات کا برملا اظہار کرتے رہتے تھے مگر لوگ خطاب ان کا سنتے تھے اور ووٹ قائداعظم محمد علی جناح کی مسلم لیگ کو دیتے تھے چناںچہ شاہ صاحب کی بھرپور مخالفت کے باوجود پاکستان بن گیا‘ شاہ صاحب نے پاکستان ہجرت کی اور پاکستان میں اقامت اختیار کرلی‘ وہ ملتان میں آباد ہو گئے۔
ملتان میں ایک بار کسی نے ان سے پوچھا لیا ’’ شاہ جی آپ پاکستان کے مخالف تھے لیکن آپ پاکستان ہی میں آباد ہیں‘ کیوں؟‘‘ شاہ صاحب نے کیا خوب جواب دیا‘ فرمایا ’’ آپ کا بیٹا کسی خاتون سے شادی کرنا چاہتا ہو‘ آپ کو رشتہ منظور نہ ہو‘ آپ رشتے کی بھرپور مخالفت کریں لیکن آپ کا بیٹا اس مخالفت کے باوجود شادی کر لے تو آپ کو اس کے بعد کیا کرنا چاہیے؟‘‘ شاہ صاحب نے اس کے بعد فرمایا ’’رشتے کے بعد وہ خاتون آپ کی بہو ہوگی‘ آپ کو اسے بہو بھی ماننا چاہیے اور اسے بہو کی عزت بھی دینی چاہیے‘‘ شاہ صاحب نے فرمایا ’’ میں پاکستان کا مخالف تھا لیکن پاکستان میری مخالفت کے باوجود بن گیا‘ یہ اب میرا ملک ہے اور میں اس کی اتنی ہی عزت کرتا ہوں جتنی اس ملک میں رہنے والے دوسرے لوگ کرتے ہیں‘‘ یہ دلیل شاہ صاحب کی عظمت اور اعلیٰ ظرفی کی نشانی تھی ۔
مجھے چند دن قبل ایک دوست نے عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کا ایک انتہائی خوب صورت قول ایس ایم ایس کیا‘ مجھے جب سے یہ قول موصول ہوا‘ میں اس وقت سے سرشاری کے عالم میں ہوں اور میں جھولی پھیلا کر شاہ صاحب کو دعائیں دے رہا ہوں‘ شاہ صاحب نے فرمایا ’’ میں پوری زندگی دو لوگوں کو تلاش کرتا رہا لیکن مجھے یہ دو لوگ نہیں ملے‘ ایک وہ شخص جو صدقہ کرتا ہو لیکن اس کے باوجود مفلس ہو اور دوسرا وہ شخص جس نے ظلم کیا ہو اور وہ اﷲ تعالیٰ کی پکڑ سے بچ گیا ہو‘‘۔
یہ قول صرف قول نہیں بلکہ یہ مکمل ضابطہ حیات ہے‘ آپ زندگی میں اگر صرف ان دو اصولوں کو پلے باندھ لیں‘ آپ صدقہ کریں اور ظلم سے بچیں‘ آپ شان دار اور مطمئن زندگی گزاریں گے ‘ آپ یقین کریں آپ اگر اﷲ تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے تو آپ خواہ کتنے ہی امیر کیوں نہ ہو جائیں‘ آپ پوری زندگی مفلس رہتے ہیں‘ آپ کے ہاتھ ہمیشہ دوسروں کے سامنے پھیلے رہتے ہیں اور آپ اگر ظالم ہیں تو آپ خواہ کتنے ہی طاقتور کیوں نہ ہو جائیں‘ آپ اﷲ کی پکڑ سے بچ نہیں سکتے‘ یہ میری زندگی کا تجربہ بھی ہے اور مشاہدہ بھی۔
میں ملک کے درجنوں ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جن کی شہرت اچھی نہیں‘ جن کے کام دھندے غلط ہیں‘ مصیبتیں پوری طاقت سے ان کی طرف دوڑتی ہیں‘ پولیس انھیں گرفتار کرنا چاہتی ہے‘ حکومت ان کے خلاف پوری ریاستی طاقت استعمال کرتی ہے‘ ان کے خلاف قانون بن جاتے ہیں‘ جج ان کے خلاف فیصلے لکھ دیتے ہیں‘ ان کے لیے جیلیں تیار ہو جاتی ہیں اور ان کے وارنٹ جاری ہو جاتے ہیں لیکن وہ عین وقت پر بچ جاتے ہیں‘دنیا بھر کی مصیبتیں ان کے قریب سے گزر جاتی ہیں‘ آپ ذرا سی تحقیق کریں‘ آپ کو معلوم ہو گا ان میں سیکڑوں عیب ہیں لیکن یہ عیبوں کے باوجود کھلے دل سے صدقہ اور خیرات کرتے ہیں‘ ان کا دستر خوان وسیع ہے‘ یہ ہر ماہ درجنوں بیوائوں‘ یتیموں‘ بے آسرائوں‘ بیماروں اور بے کسوں کی مدد کرتے ہیں‘ یہ مدد انھیں مصیبتوں سے بھی بچاتی ہے اور ان کی دولت میں بھی اضافہ کرتی ہے۔
بزرگ بتاتے ہیں‘ ایک فقیر نے ایک بزرگ کے سامنے دست سوال دراز کیا اور ساتھ ہی دعا دی اﷲ تعالیٰ تمہیں بادشاہ بنائے‘ بزرگ نے اس سے پوچھا ’’ کیا تم بادشاہ بننا چاہتے ہو‘‘ فقیر نے حیران ہو کر جواب دیا ’’ جناب میں نسلوں کا فقیر‘ میں کیسے بادشاہ بن سکتا ہوں؟‘‘ بزرگ نے کہا ’’ چلو ہم ایک تجربہ کرتے ہیں‘ میں تمہیں بادشاہ بنانے میں کام یاب ہو گیا تو تم مجھے حج کروائو گئے اور میں اگر ناکام ہو گیا تو میں پوری زندگی تمہاری کفالت کروں گا‘‘ فقیر مان گیا‘ بزرگ نے اس سے کہا ’’ تمہاری جیب میں کتنے پیسے ہیں‘‘ فقیر نے پیسے گنے‘ وہ تیس روپے تھے‘ بزرگ نے اسے مٹھائی کی دکان پر بھیجا‘ تیس روپے کی جلیبیاں منگوائیں‘ سامنے بے روزگار مزدور بیٹھے تھے‘ بزرگ نے اسے حکم دیا ’’ تم یہ جلیبیاں ان مزدوروں میں تقسیم کر دو‘‘ فقیر گیا اور جلیبیاں مزدوروں میں بانٹ آیا‘ بزرگ نے اسے ساتھ بٹھا کر کھانا کھلایا اور حکم دیا ’’ تم گھر چلے جائو‘ تیس دن انتظار کرو اور دیکھو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے کیا پیغام آتا ہے‘‘۔
فقیر چلا گیا‘ وہ تیسرے دن دوڑتا ہوا بزرگ کے پاس آیا‘ وہ خوشی سے چھلانگیں لگا رہا تھا‘ بزرگ نے وجہ پوچھی‘فقیر نے بتایا ’’ مجھے پچھلے مہینے ایک کلرک نے بھیک میں پرائز بانڈ دیا تھا‘ میں نے وہ بانڈ سنبھال لیا‘ آج وہ بانڈ نکل آیا‘ میں بیٹھے بٹھائے تین لاکھ روپے کا مالک بن گیا‘‘ بزرگ مسکرائے اور اس سے کہا ’’یہ بانڈ تمہارا نہیں‘ اس کا مالک وہ ہے جس نے تمہیں یہ بانڈ دیا تھا‘ تم بانڈ کے مالک کو تلاش کرو‘ یہ رقم اسے واپس کر دو اورانتظار کرو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے کیا پیغام آتا ہے؟‘‘ فقیر کو یہ آئیڈیا بہت برا لگا لیکن اس کے باوجود اس نے کلرک کو تلاش کیا اور بانڈ لے کر اس کے پاس پہنچ گیا‘ کلرک فقیر کی ایمان داری پر حیران رہ گیا‘ وہ فقیر کے ساتھ دفتر سے نکلا‘ ڈی سی آفس گیا‘ وہاں کنسٹرکشن کمپنی رجسٹر کرائی‘ فقیر کو پچاس فیصد کا حصہ دار بنایا اور سرکاری ٹھیکے لینا شروع کر دیے‘۔
وہ دونوں مل کر کام کرتے تھے‘ کلرک ٹھیکہ لیتا تھا اور فقیر کام کرواتا تھا‘ یہ کمپنی مزدوروں کو تین وقت کا کھانا دیتی تھی‘ کمپنی چل پڑی‘ کلرک اور فقیر دونوں امیر ہو گئے‘ یہ دونوں بزرگ کو ہر سال حج پر بھجواتے تھے اور شام کے وقت فقیروں کو روک کر انھیں بادشاہ بننے کا نسخہ بتاتے تھے‘ یہ کمپنی آج بھی قائم ہے‘ اس میں اب کلرک اور فقیر کے بچے کام کرتے ہیں‘یہ کمپنی تیس روپے کے صدقے سے شروع ہوئی‘ یہ اب تک درجنوں لوگوں کو بادشاہوں جیسی زندگی دے چکی ہے‘ میں ذاتی طورپر ایسے بیسیوں لوگوں سے واقف ہوں جو جاہل بھی ہیں‘ نالائق بھی اور غیر محتاط بھی لیکن ان پر اﷲ تعالیٰ کا کرم برستا رہتا ہے‘۔
میں نے جب بھی تحقیق کی‘ مجھے اس کرم کے پیچھے ہمیشہ صدقہ اور خیرات ملی‘ یہ دل کے سخی اور ہاتھ کے کھلے ہیں‘ میں نے ایک اور چیز بھی مشاہدہ کی‘ انسان اگر صدقہ کرے اور ساتھ ہی عاجزی اختیار کر لے تو دولت بھی ملتی ہے اور عزت بھی کیوںکہ جس طرح خوش حالی کا تعلق صدقے سے ہے بالکل اسی طرح عزت عاجزی سے وابستہ ہے‘ آپ جتنا جھکتے جاتے ہیں آپ کی عزت میں اتنا ہی اضافہ ہوتا جاتا ہے‘ آپ اس معاملے میں اولیاء کرام کی مثال لے لیجیے‘ اولیاء کرام میں عاجزی ہوتی ہے چناںچہ ان کے مزارات ہزار ہزار سال تک آباد رہتے ہیں‘ یہ کھلے دل اور فراخ ہاتھ بھی ہوتے ہیں چناںچہ ان کے درباروں پر ان کے انتقال کے بعد بھی لنگر چلتے ہیں اور بادشاہ مال و متاع لے کر ان کی درگاہ پر حاضر ہوتے رہتے ہیں۔
ہم اب ظلم کی بات کرتے ہیں‘ میرے مرحوم بزرگ دوست شیخ عبدالحفیظ راولپنڈی کے ایک ریلوے ملازم کی بات سنایا کرتے تھے‘ یہ صاحب راولپنڈی میں رہتے تھے‘ ملتان میں کوئی شخص قتل ہوا مگر پولیس نے اس شخص کو گرفتار کر لیا اور اس پر قتل کا مقدمہ قائم ہو گیا‘ وکلاء اور جج جانتے تھے یہ بے گناہ ہیں لیکن وہ صاحب کہتے تھے مجھے ہر صورت سزائے موت ہو گی‘ یہ پیشن گوئی سچ ثابت ہوئی‘ عدالت نے اسے سزائے موت سنا دی‘۔
دوست اس سے ملاقات کے لیے گئے ‘ اس سے یقین کی وجہ پوچھی تو اس نے جواب دیا ’’ مجھے یہ سزا ملتان کے قتل کی نہیں ملی‘ میں گوجرانوالہ کے قتل کی سزا بھگت رہا ہوں‘‘ دوستوں نے تفصیل پوچھی تو اس نے بتایا ’’ میں پاکستان بنتے وقت ریلوے میں ٹی ٹی تھا‘ بھارت سے مہاجرین کی ٹرینیں آ رہی تھیں‘ میں نے امرتسر سے ایک ٹرین بھری‘ ٹرین چلی تو مجھے اسٹیشن پر ایک خوب صورت لڑکی دوڑتی ہوئی نظر آئی‘ میں نے ہاتھ باہر نکال کر اسے پکڑا اور ٹرین میں سوار کر لیا‘ میں نے اسے اپنے ڈبے میں بٹھا لیا‘ وہ نئی نویلی دلہن تھی‘ فساد میں اس کا سارا خاندان مارا گیا مگر وہ جان بچا کر گرتے پڑتے اسٹیشن پہنچ گئی‘ میری ٹرین نے امرتسر سے لاہور اور لاہور سے راولپنڈی آنا تھا‘ میں نے اسے راولپنڈی تک کے لیے اپنے ڈبے میں پناہ دے دی‘ہم لاہور سے نکلے تو میری نیت خراب ہو گئی‘ میں نے اسے قائل کرنے کی کوشش کی‘ وہ نہ مانی‘ میں نے اس کے ساتھ زبردستی شروع کر دی‘ لڑکی شاک میں چلی گئی‘ اس نے دروازہ کھولا اور ٹرین سے باہر چھلانگ لگا دی‘ وہ ٹرین کے نیچے آ کر مر گئی‘ میں اس دن سے احساس گناہ کا شکار ہوں‘ میں اس کا قاتل ہوں اور مجھے یقین تھا میں کبھی نہ کبھی اس قتل کی سزا ضرور بھگتوں گا اور مجھے آج وہ سزا مل گئی‘ میں پھانسی چڑھ رہا ہوں‘‘۔
میری آپ سے درخواست ہے‘ آپ صدقہ دیں‘ عاجزی اختیار کریں اور ظلم سے بچیں‘ اللہ تعالیٰ آپ پر خوش حالی‘ عزت اور پرامن زندگی کے دروازے کھول دے گا‘ یہ راز حیات ہے۔
[ad_2]
Source link