[ad_1]
ایڈیٹوریل: وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے مسلسل بارہویں بار سندھ اسمبلی میں مالی سال 24-2025 کا بجٹ پیش کر دیا ہے، بجٹ کا حجم 30 کھرب 56 ارب 26 کروڑ 26 لاکھ روپے ہے، بجٹ کی خاص بات یہ ہے کہ اسے خسارے سے پاک قرار دیا گیا ہے، تفصیلات کے مطابق گریڈ 1 سے 6 کے ملازمین کی تنخواہوں میں30 فیصد، گریڈ 7 سے 16 کے ملازمین کی تنخواہوں میں 25 فیصد اور گریڈ 17 سے 22 تک کے ملازمین کی تنخواہوں میں 22 فیصد جب کہ پنشن میں 15 فیصد اضافے اور کم از کم اجرت 37 ہزار روپے کی تجویز دی گئی ہے۔
اس معاملے میں وفاقی بجٹ کو مدنظر رکھا گیا ہے جب کہ پنجاب کے بجٹ میں بھی تنخواہیں بڑھانے کا تناسب کم وبیش یہی ہے۔ صوبائی سیلز ٹیکس کی معیاری شرح 13 سے بڑھا کر 15 فیصد کی جا رہی ہے۔ سندھ کے سالانہ بجٹ میں ترقیاتی پروگرام کے لیے 959 ارب روپے، تعلیم کے لیے 454، امن و امان کے لیے 172 ارب روپے، صحت کے لیے 300 ارب روپے، بینظیر مزدور کارڈ کے لیے 5 ارب روپے، کسان کارڈ 8 ارب روپے،5 لاکھ گھروں میں مفت سولر کے لیے 25 ارب روپے، صاف پانی کی فراہمی کے لیے10 ارب روپے، رمضان پیکیج کے لیے20 ارب روپے، خواتین کسانوں کے لیے بینظیر ویمن ایگریکلچر ورکرز اسسٹننس کے تحت 50 کروڑ روپے، خصوصی افراد کے لیے6 ارب 40 کروڑ روپے، قابل تحسین طلبا کی اسکالر شپ کے لیے 1 ارب 26 کروڑ روپے، پیپلز بس سروس کے لیے 3 ارب 66 کروڑ روپے، سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کے لیے 28 ارب روپے اور کراچی سرکلر ریلوے کے لیے 4 کروڑ 50 لاکھ روپے مختص کیے گئے ہیں، جب کہ گھروں کی تعمیر کے لیے 2 ارب روپے رکھے جارہے ہیں۔
وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ نے صوبائی اسمبلی میں بجٹ تقریرکے دوران کہا ہے کہ سندھ کا یہ بجٹ متوازن ہے اور یہ بجٹ بنیادی طور پر سیلاب سے متاثرہ افراد کی بحالی اور غریبوں کے لیے سماجی تحفظ پر مرکوز ہے۔ وزیراعلیٰ کی یہ بات درست ہے۔ صوبائی حکومت کی ترجیحات میں سیلاب متاثرین کو پہلے نمبروں میں آنا چاہیے۔ پیپلزپارٹی کئی برسوں سے مسلسل اقتدار میں ہے لہٰذا اس کا فوکس سندھ کے غریب عوام کی طرف زیادہ ہونا چاہیے کیونکہ غریب اور متوسط طبقہ پیپلزپارٹی کو ووٹ دے کر اقتدار تک پہنچاتا ہے۔
بہرحال وزیراعلیٰ سندھ نے اپنی تقریر میں مزید بتایا کہ آیندہ مالی سال تعلیم پر 454 ارب روپے صحت پر 300 ارب روپے جب کہ امن و امان پر 172 ارب روپے خرچ کیے جائیں گے۔ مالی سال 2023-24 کے مقابلے میں تعلیم کے بجٹ میں 36 فیصد، صحت کے بجٹ میں 32 فیصد امن و امان کے بجٹ میں 29 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ صحت اور تعلیم پر زیادہ بجٹ مختص کرنا ایک اچھی بات ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ بجٹ مختص کیا جانا چاہیے تھا۔
سندھ حکومت کو سرکاری سطح پر نئے کالجز اور یونیورسٹیز تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔ سرکاری سطح پر انجینئرنگ اور میڈیکل یونیورسٹیز کی تعداد میں بھی اضافہ کیا جانا چاہیے۔ سندھ کے شہری علاقوں جن میں کراچی، حیدرآباد، سکھر اور لاڑکانہ جیسے بڑے شہروں میں پبلک سیکٹر میں اعلیٰ پائے کی انجینئرنگ اور میڈیکل یونیورسٹیز کی تعداد میں اضافے کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
ٹیکنالوجی کالجز کی تعداد میں بھی اضافے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح صوبائی ، ڈسٹرکٹ اور میونسپل سطح پر پرائمری سے میٹرک تک اسکولوں کی تعداد میں اضافے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ اساتذہ کی تنخواہوں اور مراعات میں بھی خاطرخواہ اضافہ ہونا چاہیے۔ اس سے تعلیمی شعبے میں بہتری آئے گی۔ سندھ حکومت کو صحت کے شعبے میں سرمایہ کاری کرتے ہوئے گراس روٹ لیول تک کام کرنا چاہیے۔
کبھی یونین کونسل کی سطح پر ڈسپنسری ہوا کرتی تھی۔ان ڈسپنسریوں میں بلدیہ کے ملازم ڈاکٹرز باقاعدہ ڈیوٹی دیا کرتے تھے۔ یہاں عام نزلہ، زکام اور بخار وغیرہ کی ادویات فری ہوتی تھیں۔ اس کے ساتھ ساتھ چھوٹے موٹے زخموں کی مرہم پٹی کی جایا کرتی تھی۔ اب یہ سلسلہ بند ہو چکا ہے۔ سندھ حکومت کو اس معاملے پر زیادہ توجہ دینی چاہیے اور ان ڈسپنسریوں کو فعال کرنا چاہیے۔ اس سے غریب طبقے کو ریلیف بھی ملے گا اور بڑے اسپتالوں میں مریضوں کی آمد بھی کم ہو گی۔
سندھ حکومت کو سرکاری اسپتالوں میں قائم لیبارٹریز کی اپ گریڈیشن پر توجہ دینی چاہیے۔ سرکاری اسپتالوں میں لیبارٹریز کی کارکردگی کم ہے جب کہ کئی مشینیں خراب ہیں، کئی ٹیسٹ سرکاری اسپتال میں ہوتے ہی نہیں ہیں۔ اس معاملے پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اسپتال میں کام کرنے والے ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی تنخواہوں میں بھی خاطرخواہ اضافہ ہونا چاہیے۔ سرکاری اسپتالوں کے سینئر پروفیسر ڈاکٹرز، اسپیشلسٹ ڈاکٹرزکی نجی پریکٹس پر پابندی ہونی چاہیے۔ اگر کوئی سینئر اور اسپیشلسٹ ڈاکٹر پرائیویٹ پریکٹس کرنا چاہتا ہے تو سرکاری اسپتال کی ملازمت چھوڑ دے۔ اس طریقے سے سرکاری اسپتالوں کی کارکردگی بہتر بنائی جا سکتی ہے۔
وزیراعلیٰ نے مزید کہا کہ آیندہ مالی سال سندھ میں ترقیاتی منصوبوں پر 959 ارب روپے کی خطیر رقم خرچ کی جائے گی سالانہ صوبائی ترقیاتی پروگرام کا حجم 493 ارب روپے، ضلعی ترقیاتی پروگرام کے لیے 55 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، غیرملکی معاونت سے چلنے والے ترقیاتی منصوبوں پر 334 ارب روپے اور وفاقی ترقیاتی منصوبوں کے لیے 76.9 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
آیندہ مالی سال سندھ میں موسمیاتی تبدیلیوں کا شکار اور اجناس کی قیمتوں کے چیلنج کا سامنا کرنے والے چھوٹے کسانوں کی بے نظیر ہاری کارڈ کے ذریعے معاونت کی جائے گی اس مد میں 8 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، سندھ حکومت مزدور طبقے کو ورکر ویلفیئر فنڈ کے ذریعے بے نظیر مزدور کارڈکی شکل میں مالی معاونت فراہم کریگی جس کے لیے 5ارب روپے رکھے گئے ہیں، سندھ میں امن و امان کی بہتری کے لیے سندھ سیف سٹی اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا جائے گا 3.5 ارب روپے کیمروں کی خریداری کے لیے رکھے گئے ہیں۔
وزیر اعلیٰ سندھ نے اعلان کیا کہ چیئرمین بلاول بھٹو کی ہدایت پر سندھ میں 5 لاکھ گھروں کو مفت سولر سسٹم مہیا کیا جائے گا جس کے لیے بجٹ میں 25 ارب روپے رکھے گئے ہیں جب کہ یہ تعداد مرحلہ وارآیندہ برسوں میں بڑھا کر26 لاکھ گھروں تک کردی جائے گی، پیپلز بس سروس میں مزید 500 بسوں کا اضافہ ہوگا سروس کے آپریشنز کے لیے بجٹ میں 3.66 ارب روپے رکھے گئے ہیں، پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لیے بجٹ میں 10 ارب روپے مختص ہیں۔ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کے لیے بجٹ میں 28.4 ارب روپے رکھے گئے۔
سندھ کے بڑے شہروں خصوصاً کراچی میں ٹرانسپورٹ، پینے کے صاف پانی اور کچرے کی صفائی کے مسائل انتہائی سنگین نوعیت کے ہیں۔ کراچی میں پانی کا بحران کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ اس بحران کو حل کرنے کے لیے طویل المیعاد حکمت عملی کی ضرورت ہے۔سمندر کے پانی کو صاف کر کے کراچی میں پانی کے بحران کا مکمل طور پر خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ جب سے پیپلزپارٹی سندھ پر برسراقتدار ہے، اگر پیپلزپارٹی کی پہلی صوبائی حکومت سمندری پانی کو صاف کرنے کے ٹریٹمنٹ پلانٹس کی تنصیب کا منصوبہ شروع کرتی تو مرحلہ وار کام کرتے ہوئے آج یہ کام مکمل ہو کر نتائج دینا شروع کر دیتا ، پندرہ سولہ سال کسی میگا منصوبے کی تکمیل کے لیے بہت عرصہ ہوتا ہے۔بہرحال یہ کام اگر اب بھی شروع کر دیا جائے تو آنے والے برسوں میں کراچی میں پینے کے پانی کے بحران پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
سندھ حکومت کو وفاق سے منتقل ہونے والی ریونیو وصولیوں کی مد میں 1900 ارب روپے موصول ہوں گے جس میں 1747 ارب روپے ریونیو اسائنمنٹ، 106.4 ارب روپے براہ راست منتقلیوں جب کہ ضلع اوکٹرائے میں صوبے کے شیئر کے حساب سے 46.97 ارب روپے موصول ہوں گے۔ صوبائی محاصل کا تخمینہ 268.96 ارب روپے، صوبائی سیلز ٹیکس کا ہدف 350 ارب روپے رکھا گیا ہے۔ سرمایہ جارتی وصولیوں کی مد میں سندھ حکومت کو 21.62 ارب روپے کی وصولیوں کی توقع ہے جن میں 6.725 ارب روپے کی مقامی ری پیمنٹ اور قرضے اور 14.89 ارب روپے کے بینک قرضے شامل ہیں۔ وزیراعلیٰ سند ھ نے بتایا کہ تنخواہوں کا حصہ 38 فیصد ہے جب کہ مختلف قسم کی گرانٹس 27 فیصد ہیں اور 21 فیصد اخراجات آپریشنل ، سود کی ادائیگی اور دیگر پر مشتمل ہیں۔ ملازمین کی پنشن کے موجودہ اخراجات کے 14 فیصدہیں۔ بہرحال سندھ حکومت نے اپنے وسائل کو ہر ممکن طریقے سے درست اہداف پر خرچ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگر بجٹ میں مقررہ رقوم متعلقہ شعبوں پر ایمانداری کے ساتھ خرچ کی جائیں تو کہا جا سکتا ہے کہ آنے والے وقت میں سندھ کے عوام کو خاصا ریلیف مل سکتا ہے۔
[ad_2]
Source link