[ad_1]
کراچی: اب یہ بات بھی کوئی ڈھکی چھُپی نہیں کہ ہمارے یہاں اہل علم کی اکثریت بھی کوئی کام کی بات، تقریر یا تحریر اُتنی ہی دل چسپی سے دیکھتی سُنتی ہے جتنی کہ عوام النّاس جنھیں ایک عربی مقولے میں کہا گیا ’العوام کالاَنعام‘ یعنی عام لوگ تو جانوروں کی طرح ہیں۔
یہ نکتہ سننے پڑھنے میں یقینا بہت سخت معلوم ہوتا ہے، مگر ہم اردو میں اس کی مثل بولتے ہیں: بھیڑ چال۔ جیسے بھیڑوں کی عادت ہے کہ ایک نے جدھر کا رُخ کیا تو دوسری ساری بھی اُسی کے پیچھے چل پڑیں، یہ دیکھے بغیر کہ سامنے کیا ہے اور اِس اندھی تقلید کے سبب کیا ہوسکتا ہے۔ اس تمہید کی ضرورت یوں پیش آئی کہ ہر سال عید اور بقر عید پر ’زباں فہمی‘ کے گزشتہ مضامین سے اکتساب کرتے ہوئے یا نقل کرتے ہوئے متعدد نکات یا بیشتر حصہ نقل کرنا پڑتا ہے۔
کچھ عرصے پہلے بزم زباں فہمی میں یہ بات نئے سرے سے چھِڑ گئی کہ آیا قسائی درست ہے یا قصائی۔ خاکسارنے اوّل الذکر کو صحیح قراردیتے ہوئے اپنا مضمون زباں فہمی نمبر146بعنوا ن”قصّاب،قسائی،بُوچَڑ اور کسَوڑا“ (مطبوعہ روزنامہ ایکسپریس سنڈے میگزین مؤرخہ 10 جولائی 2022ء مطابق10 ذی الحجہ 1443ھ) پیش کیا اور ساتھ ہی اپنے بزرگ معاصر محترم اَحمد حاطب صدیقی صاحب المعروف ابو نثر (تلمیذِ رشید سید اطہر علی ہاشمی مرحوم)سے رجوع کرکے، اسی بابت اُن کا مؤقف بھی نقل کردیا۔معاملہ رفع دفع ہوگیا، مگر معترض بزرگ کی تشفی نہ ہوئی۔اس ضمن میں ضروری محسوس ہوتا ہے کہ یہ مغالطہ ایک مرتبہ پھر دُور کیا جائے کہ لفظ قصائی، شاید قصاب سے بگڑ کر بنا ہو۔ایسا ہرگز نہیں ہے۔صحیح لفظ ’قسائی‘ ہی ہے۔املاء کی غلطی کی تصحیح کبھی بھی کی جائے، اُسے ماننا چاہیے۔
جب ذکر ہوگا عید قرباں کا تو یہ ممکن نہیں کہ اُس روز کے اہم ترین کردارقصاب کا ذکرِ خیر نہ ہو۔اگلے وقتوں میں قربانی کے لیے الگ سے قصاب تلاش کرنے کا رواج نہ تھا، یہ کردارمحض گوشت فروشی کی حد تک محدودتھا، پھر رفتہ رفتہ لوگ دینی تعلیمات سے پیچھے ہٹتے گئے، مادّیت کا اثر غالب آتا گیا تو ہر موقع کے لیے ایک الگ مخصوص آدمی کی اَزخود جگہ بن گئی۔پہلے تقریباًہر شخص دین دنیا کے مختلف علوم وفنون پر حاوی ہواکرتا تھا، ایک عالم بہ یک وقت مجاہد سپاہی اور قاضی ہوسکتا تھا تو سلطانِ وقت باقاعدہ پیش امام اور سندیافتہ مفتی…پھر زمانے کا چلن بدلا تو واجبی دعاؤں کے لیے بھی مولوی صاحب کی خدمات ہرکسی کو درکار ہونے لگیں، وہی مولوی جسے فرنگی کے منفی پرچار کے طفیل، معاشرے کا گھٹیا،معتوب اورمعیوب کردار قراردیا گیا۔
شُدہ شُدہ قربانی بھی ہر ایک کے بس کی بات نہ رہی اور گوشت فروش/قصاب ہی ذبح کا فریضہ انجام دینے لگا۔ویسے آج بھی بعض لوگ توفیق ایزدی سے یہ کام خود انجام دیتے ہیں۔عید قرباں پر ذبح کرنے والا کوئی بھی ہو، مصحفیؔ کا یہ شعر بہت لطف دیتا ہے:
میں عجب یہ رسم دیکھی، مجھے روزِ عید ِ قرباں
وہی ذبح بھی کرے ہے، وہی لے ثواب اُلٹا
(یہاں قدیم اردو کا نمونہ ہے کہ شاعر نے بجائے’میں نے دیکھی‘، ”میں دیکھی“ نظم کیا)
زیربحث نکتہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں یہ غلط فہمی کیوں عام ہوئی کہ قصاب سے قصائی بنا اور اہل تحقیق اسے قسائی ثابت کرنے پر تل گئے ہیں۔ابتداء ہی میں یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ قصاب سے قصائی نہیں بنا، اس بابت مولوی سید احمددہلوی نے بھی فرنگی ماہر لغات،جان ٹامسن پلیٹسJohn Thompson Platts (1830–1904)کی طرح سہواً یہ لکھ دیا کہ یہ لفظ عربی ’قص‘ بمعنی مارڈالنے سے بگڑ کر قسائی ہوا ہے۔
پلیٹس نے ابتداء میں قصاب کا مادّہ تخریج ’قصب‘ یعنی کاٹنا، ٹکڑے کرنا قراردیا اور پھر یہ بھی لکھا کہ قصائی کا بگاڑ قسائی ہے،مگر اُس کے خیال میں قصائی درست ہے، جبکہ لفظ قساوت (دل کی سختی، بے رحمی، سنگ دلی) کا مادّہ، اُ س کے نزدیک ”قسوہ“(دل کا سخت ہونا) ہے۔میرے بزرگ معاصر محترم اطہرعلی ہاشمی (مرحوم) نے کوئی دومرتبہ اس لفظ سے متعلق مباحث کا اپنے کالم ’خبر لیجئے زباں بگڑی‘ میں ذکر کیاتو ایک جگہ یہ بھی تحریرفرمایا کہ نامورشاعر محترم عنایت علی خان (مرحوم) سے بھی یہ سہو ہو اکہ ایک مصرع میں قسائی کی بجائے قصائی لکھ گئے، ع کہتا ہے یہ قصائی سے جاکر کہ مہرباں….
ہاشمی صاحب مرحوم نے قسائی بمعنی سنگ دل، سخت دل، ظالم کا استعمال،جدہ (سعودی عرب) میں اپنے پرانے اخبار (اردونیوز) کے عرب مدیر اعلیٰ کے حوالے سے واضح کیا۔ فرہنگ آصفیہ کا بیا ن ہے کہ قساوَت عربی اسم مؤنث ہے بمعنی سخت دلی، سنگ دلی، بے رحمی، کٹھورپَن، سیاہ دلی،جیسے قساوتِ قلبی۔اب یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ مولوی صاحب کے بیان کے آخر میں یہ مشہور ترکیب تو درج ہے، مگر کیا یہ بجائے خود غلط نہیں۔مصباح اللغات عربی اردو میں قساوۃ کے معنی درج ہیں، سخت اور درشت ہونا۔ڈاکٹررشید حسن خان نے اپنی کتاب ’اردو املا‘ میں بالکل بجا لکھا ہے کہ: ”قسائی، قساوت سے تراشا گیا ہے۔
نامور انگریز ماہرلغات فیلنS. W.Fallon] [نے اپنے خیال میں قصاب سے قصائی درست سمجھتے ہوئے لکھ دیا، مگر یہ ہرگز عربی الاصل لفظ نہیں۔
[Fallon, S. W. A new Hindustani-English dictionary, with illustrations from Hindustani literature and folk-lore. Banaras, London: Printed at the Medical Hall Press; Trubner and Co., 1879].
فرہنگ آصفیہ اور نوراللغات جیسی مستند لغات میں قسائی ہی درج ہے اور قصائی سے اجتناب کیا گیا ہے۔اب ذرا اس لفظ قسائی کے باب میں مندرجات دیکھیے:
قسائی: اردو اسم مذکر، (۱)۔قصاب، گوشت فروش، بُوچَڑ، سکّھُو، جیوگھاتک،جیو بدھک، ذابح،ذبح کرنے والا، حلال کرنے والا(۲)۔ایک قوم کا نام جس کا پیشہ گوشت فروشی ہے، کھٹیک(۳)۔بے رحم، سخت دل، سنگین دل، ظالم، کٹھور، نِردَئی جیسے
’بھائی نہیں قصائی ہے‘ ؎ جوبچے تجھ سے تو خُدائی ہے +آدمی کاہے کو، قسائی ہے (ذوقؔ)
یہاں راقم بعض اہم نکات بطور وضاحت درج کرنا چاہتا ہے۔لفظ بُوچَڑ پر غور کریں۔بظاہریہ انگریزی لفظ Butcherکا بگاڑ ہے،مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ ہندی میں بُوکڑ اورافریقہ کی بڑی زبان سواحلی میں ”بُوچا“ہے۔ویسے انگریزی لغات کی رُو سے یہ قدیم فرینچ لفظ ہے جس کا مطلب ہے، بکری/بکرا ذبح کرنے والا۔فرہنگ آصفیہ ہی کے بیان کے مطابق، ایک ہندی الاصل لفظ ” بُوچا“ کے یہ معانی ہمیں چونکادیتے ہیں: (۱)۔کن کٹا،گوش بُرِیدہ، بِن کانوں کا (۲)۔چھوٹے چھوٹے کانوں والا (۳)۔اسم مذکر ;کن کٹا کُتّا یا آدمی جیسے ”آٹا نِبڑا، بُوچا سٹکا“(۴)۔پُورب ;ہَوادار، تام جان، ایک قسم کی امیروں کی سواری جسے کہاراُٹھاتے ہیں، تام جھام۔اب ذرا اس کے مؤنث ” بُوچی“ کے یہ معانی ملاحظہ فرمائیں: (۱)بِن کانوں کی، کن کٹی، گوش بُرِیدہ (۲)۔کانوں کے زیور سے ننگی (۳)۔ننھے ننھے کانوں والی، چھوٹے چھوٹے کانوں والی(۴)۔اسم مؤنث ;کن کٹی کُتیا یا بکری۔
بات نکلی ہے تو پھر دورتلک جائے گی۔ انگریزی لفظ Butcher کا مادّہ تخریج ہے، قدیم فرینچ لفظ بُوشئے(Bouchier) یعنی بکری اور اس کا مذکربوک (Bouc/Boc) یعنی بکرا۔ یہ بات The Concise Oxford Dictionary-New Edition for the 1990sنے بتائی، مگر یہ نہ بتایا کہ یہی لفظ اردو میں بھی موجود ہے۔بوک، کہتے ہیں جوان اور مَست بکرے (نیز مینڈھے)کو ;نیز کہیں کہیں بُڈھے بکرے کو جس کا گوشت لجلجا ہوتا ہے۔(فرہنگ آصفیہ و مختصر اردو لغت از اردو لغت بورڈ)۔انگریزی لفظ کا براہ راست ماخذفرینچ کابُوشے(Boucher)ہے جس کی مؤنث بُوشیغ(Bouchere)ہے۔[Petit Dictionnaire Anglais-Francais et Francais-Anglais; Par Alfred Elwal: 1938]۔مختلف زبانوں میں الفاظ کی اس قدر مماثلت بجائے خود، دعوت تحقیق ہے، خصوصاً اس لیے کہ ان میں بظاہر کوئی اشتراک موجود نہیں۔
اس بیان میں ہندی کے الفاظ بھی شامل ہیں،”جیو گھاتک“ کا مطلب ہوا، جان لینے والا اور ذوقؔ کے شعر میں ’خدائی‘ سے مراد ہے جو خاص خدا کے لطف وکرم کے سبب، محفوظ رہا۔(یہ معنیٰ کہیں اور نہیں ملتے)گوشت فروش قوم کا ذکر ہوا تو وہ پرانی بات یاد آگئی کہ انگریز سرکارکے دور میں نومسلم گوشت فروش برادری نے اس بنیاد پراپنے آپ کو قریشی لکھوایا کہ قبیلہ قریش کا ایک اہم کام، حجاج کی تواضع کے لیے جانور ذبح کرنا ہواکرتا تھا۔بعینہ اسی طرح حجاموں نے حضرت سلمان فارسی (رضی اللہ عنہ‘) کے پیشے حجامت سے قیاس کرتے ہوئے اپنے کو ”سلمانی“ لکھنا شروع کردیا۔
اب ذرا قسائی کے باب میں، فرہنگ آصفیہ کے دیگر مندرجات بھی دیکھتے چلیں:
قسائی بچّہ، کبھی نہ سچّا، جو سچّا سو کچّا: (اردو)، کہاوت یعنی قسائی کی بات کا اعتبار نہیں۔یہ دوست کو سب سے زیادہ بُرا مال دیتا ہے۔
قسائی کا پِلّا: (اردو)اسم مذکر۔فربہ اور موٹا تازہ آدمی جو قسائی کے پِلّے کی طرح مُفت کا مال کھا کھاکر پَلا اور موٹا تازہ ہُوا ہو۔
قسائی کی بیٹی، دس برس میں بیٹا جَنتی ہے: (اردو)کہاوت یعنی جس طرح قسائی کی بیٹی عمدہ غذا کھاکر جلد بالغہ ہوجاتی ہے، اسی طرح امیر اور دولت مند کی بیٹی جلد جوان ہوجاتی ہے۔
قسائی کے کھونٹے بندھنا: (اردو) فعل لازم (۱)۔قسائی کے حوالے ہونا جیسے ”بھینسا بھینسوں میں یا قسائی کے کھونٹے“(۲)۔ظالم کے پالے پڑنا، نِردَئی کے بس میں آنا ؎ جس دن سے اُس قسائی کے کھونٹے بندھا ہے وہ+گُزرے ہے اس نمط، اُسے ہر لیل وہرنہار (سوداؔ)
قسائی کے کھونٹے سے باندھنا(اردو)فعل متعدی (۱)۔بے رحم، بدمزاج اور ظالم خاوند کے پلّے سے باندھنا، نِردَئی کے ساتھ بیٹی کو بیاہنا(۲)۔مُہلک جگہ اور جان جوکھوں کے موقع پر ڈال دینا
قسائی کی گھانس (گھاس) کو کٹڑا کھاجائے(اردو)کہاوت یعنی جائے تعجب اور اَمرمحال ہے کہ زبردست کے مال پر زیردست قابض ہوجائے، ممکن نہیں جو زورآوَر کی چیز کو کوئی اور لے لے۔
قسائی کی نظر دیکھنا (اردو)فعل متعدی یعنی دشمن کی آنکھ دیکھنا (دشمن کی نظر سے دیکھنا۔س ا ص)، دشمن اور ظالم کی طرح دیکھنا، ظالمانہ نظر کرنا، نگاہ قہر سے دیکھنا، تانستے رہنا، ڈانٹتے رہنا، چنانچہ اولاد کی نسبت کہتے ہیں کہ کھلائے سونے کا نوالہ، دیکھے قسائی کی نظر (ہمارے یہاں اس کا دوسر احصہ یوں مشہور ہے، دیکھو شیر کی نگاہ سے۔ س اص)
قسائی واڑا(اردو)اسم مذکریعنی قصابوں کا محلّہ
قسائنی(اردو)اسم مؤنث (۱)۔قصاب کی عورت(۲)قسائی کی جورُو(۳)صفت ;ظالم، بے رحم، کٹھور جیسے ”ایسی ماں قسائنی سے تو غیر اَچھے“۔
قصاب کے متعلق ایک محاورہ ہے: قصاب کے بِرتے پر شِکرا پالنایعنی دوسرے کے بھروسے پر کوئی کام کرنا بقول پروفیسر محمد حسن (فرہنگ اردومحاورات)۔خاکسارکا خیال ہے کہ یہاں فاضل ادیب سے سہو ہوا۔یہ محاورہ صاف بتارہا ہے کہ کسی ظالم کے بھروسے پر اپنی کوئی چیز نہیں چھوڑی جاسکتی، خصوصاً کوئی پالتو شئے جیسے کوئی پرندہ یا جانور۔
قصاب اور قسائی کی شان میں کچھ کلام بھی پیش خدمت ہے:
میرزارفیع سوداؔ کے ”قصیدہ تضحیک روزگار“سے اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
قصاب پوچھتا ہے مجھے کب کروگے یاد
امیدوار ہم بھی ہیں کہتے ہیں یوں، چمار
کسی اور شاعر نے بھی قصاب کی شان میں یہ کہا ہے:
روئے سخن ہے اس کا خریدار کی طرف
قصاب دے رہا ہے جو بِلی کو گالیاں
اور یہ قسائی کی شان میں سوداؔ کا شعر ملاحظہ ہو:
جس دن سے اس قسائی کے کھونٹے بندھا ہے وہ
گزرے ہے اس نمط اسے ہر لیل و ہر نہار
قصاب، قسائی اور قصائی کی بحث میں ہمارے کسی معاصرکو یہ خیال نہ آیا کہ اس لفظ کی ایک بگڑی ہوئی شکل ”کسَوڑا“ بھی ہے جو چالو عوامی بولی [Slang]میں شامل ہے، مگر ڈاکٹر رؤف پاریکھ صاحب کی ’اولین اردوسلینگ لغت‘ میں نہیں۔تلاش بسیار کے بعد ایک ویب سائٹ اردو بَن پر یہ اندراج دکھائی دیا:
کَسَوڑا ((فت ک، و لین) امذ)
1) (تحقیراً) قصاب
قسائی یا قصاب، کسوڑا کہٹیک، چکوا غازی میاں کی کندوری اس قوم میں ہوتی ہے. (1916، تاریخِ کڑہ مانک پور،78)
لغات کھنگالیں تومعلوم ہوا کہ یہ لفظ اپنی موجودہ شکل میں شامل نہیں، بلکہ فرہنگ آصفیہ میں ”قساؤڑا“ ان معانی کے ساتھ شامل ہے: اسم مذکر، تصغیر یا تحقیر بمعنی قسائی کا بیٹا یا بچہ۔پس ثابت ہواکہ پہلے قسائی سے قساؤڑا بنایا گیا اور پھر کثرت استعمال سے بگڑ کر، کسوڑا ہوگیاجو آج بھی بعض برادریوں میں بولاجاتا ہے۔
قصائی اور قسائی کی بحث میں ایک دل چسپ اور ناقابل یقین انکشاف ہمارے ایک خوردمعاصر نے کیا۔اُن کا خیال ہے کہ دِلّی والے ”قصائی“ کہتے اور لکھتے ہیں، جبکہ لکھنؤ والے ”قسائی“…..معلوم نہیں انھیں یہ اور ایسے ہی بعض دیگرنکات کس دلی والے یا لکھنؤ والے نے سُجھائے۔اگر ایسا ہی ہوتا تو فرہنگ آصفیہ اور نوراللغات اس وضاحت سے خالی نہ ہوتیں۔بات کی بات ہے کہ یہ صاحب کچھ سال پہلے تک محض شعبہ تشہیر سے بطور ”اخترا ع نگار“ منسلک تھے(Creative Copywriterکا یہ اردو ترجمہ خاکسارنے کچھ عرصہ قبل کیا اور اپنے کالم میں استعمال بھی کیا تھا)۔
یکایک وہ اصلاح زبان کے موضوع پر خالص علمی نوعیت کے مضامین لکھنے لگے، خیر کوئی بھی لکھ سکتا ہے، پابندی نہیں، مگر مقام حیرت یہ ہے کہ وہ اہل زبان نہیں، بہرحال کوئی بات اگر مع حوالہ وسند نقل کی جائے تو غیر اہل زبان کی تحریر بھی مستردنہیں کی جاسکتی۔
[ad_2]
Source link