10

نریندر مودی کی آمریت کا خاتمہ

[ad_1]

چار جون کی شام بھارتی وزیراعظم ، نریندر مودی کا غرور اور آمرانہ رویّہ بھارت کے عوام نے ہی پاش پاش کر دیا۔ اس کی خود اعتمادی بھی زائل ہوئی اور ماضی کی کامیابیوں کا وہ نشہ اتر گیا جس نے مودی کو ہوش وحواس سے بیگانہ کر رکھا تھا۔

مودی کو زعم تھا کہ وہ بھارتی عوام ، خاص طور پہ ہندوؤں میں بہت مقبول ہے کیونکہ اس نے نہ صرف رام مندر تعمیر کیا بلکہ ہندو قوم کو دنیا کی طاقتور اقوام میں شامل کرانے کے لیے مسلسل جدوجہد کر رہا ہے۔ مودی مگر بھول گیا کہ عام آدمی بے شک مذہب کو اہمیت دیتا ہے، لیکن ساتھ ساتھ اس کی یہ خواہش بھی بہت قوی ہے کہ وہ روازنہ آسانی سے پیٹ بھر لے اور زندگی کی ضروریات پوری ہو جائیں۔

مودی نے بھارت میں اکثریتی ہندو قوم کے مذہبی جذبات کو سکون دینے کی خاطر تو بڑی بھاگ دوڑ کی مگر وہ ہندوؤں سمیت ہر عام آدمی کی معاشی ضروریات بخوبی پوری نہیں کر سکا۔ اسی لیے مسلمان ، سکھ اور عیسائی ووٹر تو نفرت و مذہبی منافرت کی آگ بھڑکانے والی مودی جنتا سے ناراض تھے ہی، لاکھوں ہندوؤں نے بھی حالیہ الیکشن میں اس کے خلاف ووٹ ڈالا۔ان میں وہ ہندو بھی شامل تھے جو نفرت کی سیاست پہ یقین نہیں رکھتے۔

درست کہ بی جے پی ہی الیکشن میں سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری مگر اس کی توقعات آئینے کی طرح کرچی کرچی ہونے کے سبب یہ جیت بھی پارٹی کے کارکنوں اور پرستاروں کوکھٹی اور پژمردہ سے لگی۔وہ تو یہ آس لگائے بیٹھے تھے کہ حکمران سیاسی اتحاد کو چار سو سے زائد نشستیں ملیں گی۔حتی کہ نتیجے کے اعلان سے ایک دن قبل بھارتی میڈیا کے ٹائٹنز نے اپنی رائے شماریوں کے بل پہ یہ دعوی کر دیا کہ حکمران اتحاد چار سو سے زیادہ سیٹیں لے گا۔اس پر حکمران اتحاد کے لیڈروں اور کارکنوں نے خوشی کا اظہار کیا۔ مگر چار جون کو نتائج آئے تو ان کی ساری خوشیاں خاک میں مل گئیں۔

یہ دیکھا گیا گیا ہے کہ اکثر حکمران خیالی جنت میں رہتے ہیں۔ اس کی تعریفوں کے قلابے ملادینے والے خوشامدی وزیر ومشیر اسے خیالی جنت میں پہنچا دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔تاریخ ِ انسانی دیکھئے، بہت کم ایسے حکمران ہیں جنھوں نے آخر تک عوام سے رابطہ رکھا اور ان کے مسائل سے آگاہ رہے۔

ایسے حکمرانوں میں نبی کریم ﷺ سرفہرست ہیں۔ پھر ہمیں خلفائے راشدین، حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒاور بعض غیر مسلم حکمران مثلاً نوشیروان عادل، ابراہام لنکن وغیرہ دکھائی دیتے ہیں۔ ورنہ بیشتر حکمران اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ کر آرام وآسائشوں کے ایسے دلداہ ہوتے ہیں کہ بتدریج عوام سے کٹ جاتے ہیں۔ وہ پھر عام آدمی کے مسائل، اس کے دکھ سکھ اور ضرورتوں کا ادراک نہیں کر پاتے اور اپنی خیالی جنت میں رہتے ہوئے سمجھتے ہیں کہ سبھی لوگ اس سے خوش ہیں۔

مودی کسی زمانے میں عوامی رہنما تھا، مگر دس سال حکومت میں رہ کر وہ بھی ہندو عوام سے کٹ گیا تھا۔اسی لیے انتخابی مہم کے دوران وہ یہ نہیں جان پایا کہ عام ہندو کیا چاہتا ہے۔ وہ حسب روایت اپنے جلسوں میں مسلمانوں کو نشانہ بنا کر ہندوؤں کے مذہبی جذبات ابھارنے کی کوشش کرنے لگا۔اسی پالیسی نے آر ایس ایس اور بی جے پی کو بھارت میں مقبول بنایا،لہذا دونوں جماعتوں کے لیڈر اس کا بھرپور استعمال کرتے ہیں۔مودی نے اس بار تو انتہا کر دی اور سرعام مسلمانوں کو ’’در انداز‘‘ اور ’’غدار‘‘کہہ کر پکارا۔ اس تمام دشنام طرازی کا مقصد یہ تھا کہ زیادہ سے زیادہ ہندو ووٹ بی جے پی کے پاس آ جائے۔

لیکن لاکھوں ہندو ووٹر اب محض مسلم دشمنی کے نفرت انگیز نعروں سے متاثر ہونے پر تیار نہ تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ مودی سرکار مہنگائی کم کرے جو انھیں پریشان کر رہی تھی۔ان کی مانگ تھی کہ حکومت نئی ملازمتیں پیدا کرے تاکہ بیروزگاری ختم ہو سکے۔

بھارت میں امیر وغریب کا بڑھتا فرق بھی انھیں تکلیف دے رہا تھا۔ بھارتی شہروں میں دولت کی کثرت نظر آتی ہے۔ لیکن بھارتی دیہات میں نکل جائیے تو وہاں غربت، بیماری اور جہالت نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔مودی نے مگر ان معاشی ومعاشرتی مسائل کے بارے میں کم ہی بات کی، وہ بس اپنی حکومت کی کامیابیاں گنواتا رہا جس سے حقیتاً زیادہ تر بھارت کی اشرافیہ یعنی حکمران طبقہ ہی مستفید ہوا ہے۔یا پھر وہ مسلمانوں کے پیچھے لٹھ لے کر پڑا رہا۔

بھارتی الیکشن کے نتائج نے افشا کر دیا کہ مودی اور اس کے ساتھیوں کی انتخابی حکمت عملی ناکام رہی۔ وہ تو یہ خیال کر بیٹھے تھے کہ اس بار چار سو سیٹیں پا کر پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت پا لیں گے۔ اس کے بعد آئینی وقانونی طور پہ سیکولر بھارت کو ہندو ریاست بنا دینے کی راہ ہموار ہو جاتی۔مگر ناکام انتخابی حکمت عملی نے ان کا سارا منصوبہ چوپٹ کر دیا۔

اتردپریش، مہاراشٹر اور راجھستان ہندو قوم پرستی اور ہندو شدت پسندی کا گڑھ سمجھے جاتے ہیں۔ اس بار وہاں کا ووٹر مودی اینڈ کمپنی کی مسلم دشمن مہم سے متاثر نہیں ہوا کیونکہ وہ اب اپنے بھگوانوں کی پوجا سے زیادہ پیٹ پوجا کی طرف متوجہ تھا۔ اپوزیشن پارٹیوں نے عام ہندو کو یقین دلایا کہ وہ حکومت میں آ کر اسے غربت اور بیروزگاری سے نجات دلائیں گے۔

اپوزیشن نے مودی سرکار کو برہمن طبقے کی نمائندہ قرار دیا جو صدیوں سے دلتوں اور دیگر پسماندہ ہندوؤں پہ آمرانہ انداز میں حکومت کر رہا ہے۔انہی وجوہ کی بنا پر بی جے پی کے لاکھوں ووٹر اپوزیشن کے اتحاد سے جا ملے اور اسے ووٹ دیا۔

پچھلے دو الیکشنوں میں ہندو قوم پرستی کی گڑھ درج بالا تینوں ریاستوں میں اپوزیشن پارٹیوں کا تقریباً صفایا ہو گیا تھا۔ اس بار اترپردیش میں وہ زیادہ سیٹیں جیتنے میں کامیاب رہیں۔ نیز بقیہ دونوں ریاستوں میں بھی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔

چمتکار یہ ہوا کہ اجودھیا کی نشست پہ ایک اچھوت (دلت)امیدوار، اودھیش پرساد نے بی جے پی کے امیدوار کو شکست دے دی۔ مقامی میڈیا کے مطابق حلقے کے لوگ بی جے پی سے ناراض تھے کیونکہ رام مندر کی تعمیر کے دوران جن لوگوں کے گھر کسی نہ کسی وجہ سے گرائے گئے تھے، انھیں متبادل گھر وعدے کے باوجود نہیں دئیے گئے۔نیز ریاستی بی جے پی حکومت بھی حلقے کے مسائل حل نہیں کر رہی تھی۔زبردست فتح کے بعد اودھیش پرساد نے بڑی سبق آموز باتوں سے اپنی قوم کو آگاہ کیا، آپ بھی پڑھئیے:

’’یہ میری جیت نہیں،ایودھیا کے عظیم لوگوں کی جیت ہے۔ میں پوری طرح سے عزم کرتا ہوں کہ میں لوگوں کے جذبات اور توقعات پر پورا اتروں گا۔ اودھیش پرساد اسے تب اپنی جیت سمجھے گا جب وہ اپنے وعدوں پر پورا اترے گا۔بی جے پی ملک میں جھوٹ پھیلا رہی تھی کہ ‘ہم رام کو لائے ہیں’۔ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے رام کے نام پر ملک کو دھوکا دیا، رام کے نام پر کاروبار کیا، رام کے نام پر مہنگائی بڑھنے دی، رام کے نام پر بے روزگاری پیدا کی، رام کے نام پر غریبوں اور کسانوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ دراصل بی جے پی نے رام کا وقار تباہ کرنے کا کام کیا ۔ لوگ اس بات کو اچھی طرح سمجھ چکے ۔

’’ بی جے پی ایک کام اچھی طرح کرنا جانتی ہے … ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت بڑھانا اور پاکستان کا بار بار حوالہ دینا(یعنی اسے ہوا بنا کر پیش کرنا)۔ انہیں ملک کے بے روزگار نوجوانوں کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔ چین نے ہماری سرزمین پر قبضہ کیا لیکن اس پر کوئی بات نہیں ہوئی۔ مہنگائی بڑھ رہی ہے لیکن کوئی فکر نہیں۔‘‘

یہ درست ہے کہ مودی نے عوام کی فلاح وبہبود کے لیے مختلف منصوبے شروع کیے ۔مگر الیکشن کے نتائج سے عیاں ہے کہ ان منصوبوں کے پورے ثمرات عوام تک نہیں پہنچ پائے۔وجہ یہ ہے کہ ہر ترقی پذیر ملک کی طرح بھارت کی بیوروکریسی میں بھی کافی کرپشن ہے۔لہذا سرکاری افسروں اور نجی کنٹریکٹرز کا اتحاد سرکاری منصوبوں کے لیے مختص رقم کا بڑا حصہ کھا جاتا ہے۔یوں عوام سرکاری منصوبوں سے مستفید نہیں ہو پائے۔

دوسری طرف مودی سرکار امیرکبیر صنعت کاروں اور کاروباریوں مثلاً مکیش امبانی، گوتم ایڈانی اور دیگر کو مراعات دیتی رہی۔ان سرکاری مراعات سے فائدہ اُٹھا کر بھارتی امرا کھرب پتی اور ارب پتی بن گئے۔ایک تازہ رپورٹ کے مطابق بھارت میں اس وقت 40 فیصد دولت صرف 1 فیصد لوگوں کے ہاتھوں میں مرتکز ہو چکی۔ دولت کا یہ ارتکاز بھارتی معاشرے میں عدم استحکام اور معاشرتی بے چینی پیدا کر رہا ہے۔

آر ایس ایس اور بی جے پی کے انتہا پسندانہ نظریات کے سب سے بڑے پرچارک، نریندر مودی کی پسپائی پہ بھارتی مسلمان، دیگر اقلیتیں اور لبرل و اعتدال پسند ہندو خوش ہیں۔ اب انھیں امید ہے کہ مودی سرکار جس مذہبی شدت پسندی کا مظاہرہ کر رہی تھی، اس میں کمی آئے گی۔حزب اختلاف بھی اب ماضی کے مقابلے میں زیادہ طاقتور ہو چکی۔ لہذا مودی جنتا کو پہلے کی طرح من مانی کرنے کا کھلا موقع نہیں ملے گا۔

انتہا پسندی کے مخالف بھارتیوں کے لیے یہ بھی اچھی خبر ہے کہ مودی جنتا اب مخلوط ہو گی کیونکہ بی جے پی الیکشن میں سادہ اکثریت بھی حاصل نہیں کر سکی۔ لہذا مخلوط حکومت میں ہٹ دھرم، ضدی اور آمر مودی کو پہلی بار دیگر پارٹیوں کے مفادات کا بھی خیال رکھنا پڑے گا۔اس نے حسب معمول ہٹ دھرمی اور خودسری کا مظاہرہ کیا تو اس کی حکومت جلد ختم ہو جائے گی۔

نتیش کمار اور چندرا بابو نائیڈو مودی سرکار کے اہم اتحادی ہیں۔ اور ان دونوں کی بابت کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے مفادات پورے نہ ہونے یا ناراض ہونے پر کشتی تبدیل کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔

بھارتی الیکشن میں اصل مقابلہ دو سیاسی اتحادوں…این ڈی اے اور انڈیا کے درمیان تھا۔ اول الذکر میں بی جے پی اور اس کی ہم خیال قدامت پسند و قوم پرست پارٹیاں شامل ہیں۔انڈیا اتحاد کانگریس اور علاقائی پارٹیوں پہ مشتمل ہے جو اعتدال پسند سمجھی جاتی ہیں۔ (گو انڈیا میں شامل شیو سینا کا ایک دھڑا روایتی طور پہ شدت پسند رہا ہے)۔ الیکشن میں این ڈی اے 293 نشستیں جیتنے میں کامیاب رہا۔اس میں بی جے پی کی 240 سیٹیں ہیں۔ انڈیا اتحاد 235 نشستیں پانے میں کامیاب رہا ۔یہ ایک نمایاں کامیابی ہے کیونکہ پچھلے الکیشن میں کانگریس کی زیرقیادت سیاسی اتحاد، یو پی اے صرف 91 سیٹیں جیت سکا تھا۔

انڈیا اتحاد کو مختلف وجوہ کی بنا پر یہ حالیہ الیکشن میں کامیابی ملی۔اسے کامیاب کرانے میں کانگریسی رہنما، راہول گاندھی نے کافی محنت کی اور وہ مسلسل متحرک رہے۔ راہول پچھلی یلوک سبھا میں ایک شعلہ بار تقریر کرنے پر بطور رکن پارلیمنٹ نااہل ہو گئے تھے اور پھر سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعد بحال ہو ئے – راہول کی دو بھارت جوڑو یاترائیں انہیں پورے ملک میں لے گئیں۔ان کو عوام نے پسند کیا اور یوں راہول کا عوامی سطح پہ لوگوں سے ایک تعلق بھی قائم ہوا۔

راہول نے ایک عمدہ شاٹ یہ کھیلا کہ سب سے بڑی بھارتی ریاست کی مقامی جماعت، سماج وادی پارٹی (ایس پی) کے نوجوان لیڈر،اکھلیش یادو سے اتحاد کر لیا۔ اس اتحاد نے ریاست کی 80 میں سے 43 سیٹیں جیت لیں۔ بی جے پی کی تعداد 33 تک محدود رہی ہے۔ مسٹر مودی کی پارٹی نے 2019 ء میں 62 اور 2014 میں 71 سیٹیں حاصل کی تھیں۔انتخابی مہم کے دوران مودی نے راہول گاندھی اور اکھلیش یادو کو “لڑکوں کی جوڑی” کے طور پر بیان کیا تھا جن کا اتحاد ماضی میں کئی بار “فلاپ” ہوا ۔ لیکن نتائج ظاہر کرتے ہیں، لڑکوں کی اس جوڑی نے یوپی میں بی جے پی کو شکست دے دی۔

ایس پی کے لیڈر، ابھیشیک یادو کہتے ہیں:’’ ابتدائی طور پر ہم بھی جانتے تھے کہ رام مندر بی جے پی کو ریاست جیتنے میں مدد دے گا۔اپریل کے شروع تک ریاست میں انتخابات یکطرفہ مقابلے کی طرح لگ رہے تھے۔ “لیکن پھر ہم نے محسوس کیا کہ بی جے پی کے خلاف ناراضگی کا ایک انڈرکرنٹ چل رہا ہے جب بڑی تعداد میں لوگ ہماری ریلیوں میں جمع ہونے لگے۔ لوگ ملازمتوں کی کمی اور خوراک اور ایندھن کی بلند قیمتوں سے ناخوش تھے۔ بہت سے لوگ فوج کے سپاہیوں کی بھرتی کے طریق کار میں ہونے والی تبدیلیوں سے ناراض تھے۔

ماہرین کہتے ہیں، بھارتی اپوزیشن کی حیرت انگیز طور پر اچھی کارکردگی کے باوجود کچھ طریقوں سے یہ ایک ضائع ہونے والا موقع بھی ثابت ہوا۔کیونکہ انڈیا اتحاد ووٹروں کے ذہن پڑھنے میں ناکام رہا اور اسے مودی کی حکومت کے ساتھ ان کی بے چینی کا احساس نہیں ہوا۔ اپوزیشن نے بیروزگاری، دیہی معاشی بدحالی کے بارے میں بات کی اور بہت سے ووٹروں کو جیتنے میں کامیاب رہے – لیکن ان کی حکمت عملی میں بہت سے خلا تھے۔ وہ کہتے ہیں “این ڈی اے کی تیسری میعاد صرف انڈیا بلاک کی کمزوری سے آئی ہے۔ وہ آندھرا پردیش اور اڑیسہ میں سیاسی اتحاد بنا سکتے تھے اور اس سے ان کی تعداد مزید زیادہ ہو ہوتی۔اور عین ممکن تھا کہ انڈیا اتحاد حکومت بنانے کی پوزیشن میں آ جاتا۔

کامیابی کے اس سفر میں مغربی بنگال میں، وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے بی جے پی کو 12 سیٹوں تک محدود کرنے کے لیے جدوجہد کی (مودی کی پارٹی نے 2019 ء میں 42 میں سے 18 سیٹیں جیتی تھیں)۔ مہاراشٹر میں بی جے پی نو سیٹوں تک محدود ہو گئی-

اس نے وہاں 2019ء میں 48 میں سے 23 سیٹیں جیتی تھیں۔ اور اس کی تب کی اتحادی شیو سینا نے مزید 18 سیٹیں حاصل کی تھیں۔تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن کا کردار بھی اہم رہا۔اسٹالن نے ہمیشہ راہول گاندھی پر اپنا غیر متزلزل اعتماد ظاہر کیا ۔ درحقیقت2019 ء میں گزشتہ انتخابات کے دوران انہوں نے وزیراعظم کے امیدوار کے طور پر راہول کا نام بھی تجویز کیا تھا۔ اس بار بھی سٹالن نے جمہوریت، سیکولرازم اور آئین بچانے کے اپوزیشن ایجنڈے پر قائم رہ کر بڑی پختگی کا مظاہرہ کیا ۔سٹالن نے بی جے پی کو روکنے کے لیے ایک ساتھ کھڑے ہونے کی ترغیب دی اور انڈیا بلاک کے ایک عظیم اتحادی ہونے کا ثبوت دیا۔ ان کی عوامی انتخابی مہموں میں لاکھوں لوگ جمع ہوئے۔

جلسوں میں وہ ایک قومی رہنما کی طرح بولے اور اپنے نعرے “نارپتھم نامہ، نادم نامہ (تمام 40 قومیںہماری، قوم بھی ہماری)” کے ساتھ جامع سیاست پر زور دیا۔ سٹالن نے اتحادی شراکت داروں کو نشستوں کی تقسیم میں خوش دلی سے جگہ دی۔ ڈی ایم کے نے صرف 21 سیٹوں پر مقابلہ کیا۔ اس نے 10 سیٹیں کانگریس اور باقی بائیں بازو اور دلت پارٹیوں کو دے دیں۔

بھارتی حکومت کیوں مستعفی نہیں ہوتی؟
پاکستان میں رواج ہے کہ قومی الیکشن سے قبل وفاقی اور صوبائی حکومتیں مستعفی ہو جاتی ہیں۔ حکومت پھر نگران کابینہ سنبھال لیتی ہے جس کے ارکان عموماً ٹیکنوکریٹ یا غیر سیاسی ہوتے ہیں۔یہ ایک اچھا عمل ہے کیونکہ پچھلی حکومت کو الیکشن کرانے دیا جائے تو وہ انتظامیہ پہ اثرانداز ہو کر نتائج تبدیل کر سکتی ہے۔ یہ عمل خاص طور پہ ترقی پذیر اور غریب ممالک کے لیے عمدہ ہے کیونکہ وہاں قانون اور اصولوں کی پاسداری کم ہی ہوتی ہے۔لہذا بہتر یہ ہے کہ ایک غیر سیاسی سیٹ اپ کے تحت الیکشن ہوں تاکہ وہ متنازع قرار نہ پائیں۔

بھارت بھی ایک ترقی پذیر ملک ہے اور عالمی رپورٹیں افشا کرتی ہیں کہ وہاں قانون کی حکمرانی کمزور ہے۔اس لیے یہ بہت تعجب کی بات ہے کہ لوک سبھا یعنی قومی اسمبلی کا اہم الیکشن پچھلی حکومت کے زیراہتمام ہی منعقد ہوتا ہے۔اس طرح تو برسراقتدار پارٹی یا سیاسی اتحاد کو موقع مل جاتا ہے کہ وہ سرکاری وسائل استعمال کرتے ہوئے اپنی انتخابی مہم چلا سکے۔یہی وجہ ہے ، نریند مودی بطور وزیراعظم انتخابی مہم چلاتے رہے۔

مودی نے اس دوران اپنی تقریروں میں مسلمانوں کو خاص نشانہ بنایا، مگر بھارتی الیکشن کمیشن خاموش بیٹھا رہا۔ اس نے مودی کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا کیونکہ وہ اب بھی وزیراعظم تھا۔مودی نے الیکشن سے قبل اپوزیشن پارٹیوں کو بھی تنگ کیے رکھا۔ کانگریس کے خلاف انکم ٹیکس اداروں کو متحرک رکھا۔ وزیر اعلی دہلی کو جیل بھجوا دیا۔ انڈیا اتحاد کے حامی میڈیا کو آزادی سے کام نہیں کرنے دیا۔یہ ساری غیر اخلاقی اور غیر قانونی سرگرمیاں اسی لیے انجام پائیں کہ مودی سرکار کے ہاتھ میں بدستور سرکاری قوت رہی اور وہ انھیں حسب منشا استعمال کرتی رہی۔

بھارت کی اسٹیبلشمنٹ کو سوچنا چاہیے کہ یہ طریق اپنایا جائے، الیکشن سے قبل پچھلی حکومت مستعفی ہو جائے۔پھر پاکستان کی طرح نگران حکومت کی زیرنگرانی الیکشن کرایا جائے۔اس طرح الیکشن کی شفافیت بڑھ جائے گی ۔

لوک سبھا میں مسلم ارکان
2024 ء کے لوک سبھا انتخابات میں حصہ لینے والے 78 مسلم امیدواروں میں سے صرف 24 ہی ملک بھر میں جیتنے میں کامیاب ہو سکے ہیں۔یہ لمحہ فکریہ ہے کہ لوک سبھا پہنچنے والے مسلم ارکان کی تعداد کئی برسوں سے کم ہوتی جارہی ہے۔2019ء میں، صرف 26 مسلم امیدوار ممبران پارلیمنٹ کے طور پر منتخب ہوئے تھے۔ ان میں سے چار کانگریس اور ٹی ایم سی سے تعلق رکھتے تھے۔ بی ایس پی اور ایس پی سے تین، اور این سی پی اور سی پی آئی (ایم) میں سے ایک ایک امیدوار کامیاب ہوا۔۔

اس سال سہارنپور سے کانگریس کے امیدوار عمران مسعود نے 64,542 ووٹوں کے فرق سے کامیابی حاصل کی جبکہ کیرانہ سے سماج وادی پارٹی کی 29 سالہ امیدوار اقرا چودھری نے بی جے پی کے پردیپ کمار پر 69,116 ووٹوں سے کامیابی حاصل کی۔غازی پور میں ایس پی کے تجربہ کار افضال انصاری نے بی جے پی کے پارس ناتھ رائے کو پیچھے چھوڑتے ہوئے اپنے حریف سے ایک لاکھ زیادہ ووٹ حاصل کیے۔ جب کہ اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اسد الدین اویسی نے اپنے قریبی حریف بی جے پی کی مادھوی لتھا کومپیلا پر 3,38,087 ووٹوں کے فرق سے حیدرآباد کی سیٹ برقرار رکھی۔ لداخ میں آزاد امیدوار محمد حنیفہ نے 27,862 ووٹوں کے فرق سے کامیابی حاصل کی جبکہ ایک اور آزاد امیدوار عبدالرشید شیخ عرف انجینئر رشید نے جموں و کشمیر کی بارہ مولہ سیٹ پر کامیابی حاصل کی۔ انہوں نے 4۔7 لاکھ ووٹ حاصل کیے۔

اترپردیش میں سماج وادی پارٹی کے محب اللہ نے رام پور سیٹ سے 4,81,503 ووٹ حاصل کرکے جیت حاصل کی، جب کہ ضیاء الرحمان سنبھل میں 1۔2 لاکھ ووٹوں کے فرق سے جیت گئے۔ نیشنل کانفرنس کے میاں الطاف احمد نے جموں و کشمیر کی اننت ناگ راجوری سیٹ پر جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کے خلاف 2,81,794 ووٹوں سے کامیابی حاصل کی۔ سری نگر میں این سی امیدوار آغا سید روح اللہ مہدی نے 3,56,866 ووٹ حاصل کیے۔

بھارتی کرکٹ ٹیم کے سابق کھلاڑی، یوسف پٹھان نے آل انڈیا تریمونل کانگریس کے ٹکٹ پر مغربی بنگال کے حلقے ، بہرام پور سے الیکشن لڑا۔ وہ بی جے پی اور کانگریس، دونوں بڑی پارٹیوں کے امیداواروں کو بھاری مارجن سے شکست دے کر کامیاب ہوئے۔ پچھلے الیکشن میں اس حلقے سے کانگریسی امیدوار، رانجن چودھری کامیاب ہوئے تھے۔

سب سے کم ووٹوں سے فتح
2024ء کے لوک سبھا انتخابات کی قریب ترین لڑائی میں مہاراشٹر کی علاقائی جماعت، شیو سینا کے امیدوار رویندر وائیکر نے ممبئی نارتھ ویسٹ کے حلقے سے شیو سینا (یو بی ٹی) کو شکست دے دی۔یہ دونوں ماضی کی شیوسینا کے دو دھڑے ہیں۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ وائیکر نے کیرتیکر کو صرف 48 ووٹوں سے شکست دی۔جب ووٹ گنے جا رہے تھے تو سینا کے دونوں دھڑوں کے حامی آمنے سامنے آگئے اور نعرے بازی شروع کردی۔ تاہم، وہاں کوئی امن و امان کا مسئلہ سامنے نہیں آیا ۔لوگوں نے پھر ایک حیران کن موڑ دیکھا کہ جوگیشوری کے ایم ایل اے وائیکر، جو اس سیٹ سے لڑنے کے لیے زیادہ بے چین نہیں تھے، فاتح بن کر سامنے آئے۔انھیں فاتح بنانے والے 48 ووٹ پوسٹل بیلٹ کے ذریعے ڈالے گئے تھے -گویا وائیکر اور ان کے حامیوں نے گورگاؤں کے نیسکو گراؤنڈ میں آخری قہقہہ لگایا جہاں گنتی ہو رہی تھی۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں