10

مسلمانوں کے زوال کے بعد بھی عمارتوں میں اندلسی طرز تعمیر نمایاں رہا

[ad_1]

تیسری قسط

مسجد قرطبہ کو دیکھنے کے بعد ہم مدینہ الازہرہ کے لیے نکل پڑے۔ وہاں خلیفہ اورعمائدین کی کی رہائشگاہیں اور دفاتر تھے۔ یہ آبادی قرطبہ شہر سے باہر واقع ہے اور اب اس کے صرف کھنڈرات باقی ہیں۔ دسویں صدی عیسوی کے وسط میں قرطبہ اُندلس میں اموی سلطنت ایک طاقتور مملکت تھی، مختلف ممالک کے سفارتکار اور اہم شخصیات خلیفہ سے ملاقات کے لیے آتی تھیں۔ خلیفہ قرطبہ شہر سے چھ کلومیٹر کے فاصلے پر بنائی گئی آبادی مدینہ الازہرہ میں رہتا تھا۔ یہ ایک عظیم الشان آبادی تھی، جہاں خلیفہ کی رہائش کے ساتھ ساتھ دفاتر بھی تھے۔

مدینہ الازھرہ قرطبہ کے مغرب میں بسائی گئی آبادی تھی، اس کے شمال میں پہاڑ تھے۔ دریائے قوائد الکبیر بہتا ہوا یہاں وادی میں داخل ہوتا تھا۔ اموی خلیفہ عبدالرحمن سوم نے 639 عیسوی میں مدینہ الازھرہ کی تعمیر شروع کروائی تھی، جو دس سال میں مکمل ہوئی۔ یہ کئی سطحوں یعنی اوپر نیچے پشتوں (ٹیریسز) پر بنائی گئی آبادی تھی۔ پانی کا بہاؤ اوپر سے نیچے آتے کئی قطعات زمین کو سیراب کرتا تھا۔ پانی، باغات، سرسبز صحن اور ان میں تعمیر شدہ فوارے اندلس کے مسلم طرز تعمیر کا ایک نمایاں جزو رہے ہیں۔ مدینہ الازھرہ کے سب سے اونچے قطعہ زمین پر ’القصر‘ یعنی شاہی محل تھا، یہاں خلیفہ کی رہائش، شاہی دفاتر اور بڑے ہال تھے۔ محل کی اونچاَئی سے بادشاہ تمام وادی پر نظر ڈال سکتا تھا، میلوں تک پھیلی سر سبز وادی جس کے درمیان سے دریا بہتا نظر آتا تھا۔ مختلف سطحوں تک چوڑی سیڑھیوں کے ذریعے رسائی کو ممکن بنایا گیا تھا۔ اُندلس کے مروجہ طرز تعمیر کے لحاظ سے یہاں دو بڑے چوکور صحن تھے جن کے درمیان میں فوارے تھے۔ یہ صحن آپس میں متصل تھے۔

سب سے نچلی سطح پر ملازموں کی رہائش، بڑے بڑے سٹور اور باورچی خانے تھے۔ تمام محل میں یہاں سے خادم اشیاء پہنچاتے تھے۔ یہاں قائم بڑا باورچی خانہ اپنے چولہے کے ساتھ آج بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ شاہی امراء کے کمرے اوپر کی سطح پر تھے۔ خلیفہ الحکم ثانی کے وزیر اعظم جعفر کے عظیم الشان دفتر کے کھنڈرات آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ محل میں پانی کے لیے ایک علیحدہ انتظام کیا گیا تھا، اس کے لئے علیحدہ عمارت تھی جس کے حوض سے پورے محل میں پانی کی ترسیل ہوتی تھی۔ یہاں سرسبز ماحول تھا جہاں کھجوروں کے درختوں پر پرندے چہچہاتے نظر آتے تھے۔ اس جگہ پہنچنے کا راستہ ستونوں پر گھوڑوں کے نعل کی طرح کی تین محرابوں کی مانند تھا جو بنانے والوں کی مہارت کا آئینہ دار تھا۔ القصر کے ساتھ ہی جامع مسجد تھی، جب کہ اس کے علاوہ دو اور مساجد بھی مدینہ الازھرہ میں تھیں۔ جامع مسجد کی تعمیر کا انداز مسجد قرطبہ سے ملتا جلتا ہے، ایک چوکور مینار بہت بلندی تک جاتا ہے، جس پر کھڑے ہوکر جب موذن اذان دیتا تھا تو پوری وادی ’اللہ اکبر‘ کی آواز سے گونجتی تھی۔ مدینہ الازھرہ کے گرد ایک فصیل ہوا کرتی تھی۔ شاہی حکام کے علاوہ نوکروں اور غلاموں کی ایک بڑی تعداد یہاں رہتی تھی۔ اس کے علاوہ یہ جگہ علما، فقہاء اور سکالرز کے ملنے کی بھی تھی۔ طویل سفر کر کے آنے والے طلباء اور اہل علم مدرسوں سے فیض پا کر خلیفہ کی سرپرستی میں اپنا فیض آگے منتقل کرتے۔

مدینہ الازہرہ کے اندر ایک فوجی چھاونی بھی تھی۔ شہر میں داخل ہونے کے چار دروازے تھے۔ شمالی دروازے سے روزمرہ کا سامان لایا جاتا تھا۔ شہر کے مشرقی جانب عالیشان راستہ اور دروازہ تھا۔ اس کے سامنے کے میدان میں جنگی لشکر معرکوں پر جانے سے پہلے خلیفہ کو سلامی پیش کرتے اور خلیفہ انہیں علم عطا کرتا۔ اسی راہ سے دوسرے ممالک کے سفارتکار خلیفہ سے ملاقات کے لیے لائے جاتے جو اس شہر کی رعنائی اور صناعی دیکھ کر حیران رہ جاتے۔ مدینہ الازہرہ کے وسط میں ایک وسیع باغ تھا۔ اس باغ کو چار حوض پانی دیتے تھے۔ اس باغ کے وسط میں ایک بڑی عمارت تھی جس میں خلیفہ باہر سے آئے مہمانوں سے ملاقات کرتا تھا۔ مدینہ الازہرہ کے کھنڈرات میں پھرتے رہے، شدید گرمی تھی ، لہذا مسلسل پانی پیتے رہے۔

مدینہ الازہرہ سے ہم واپس قرطبہ شہر کے لئے نکل پڑے۔ ائرپورٹ سے کرائے پر لی گئی کار بہت کام آرہی تھی۔ سخت گرمی تھی اور کار کا اے سی اچھی ٹھنڈک دے رہا تھا۔ قرطبہ شہر واپس آ کر القصر کے محل پر گئے۔ القصر دریائے قواعد الکبر اور مسجد قرطبہ کے پاس اموی بادشاہ کا محل رہا ہے، اسے آپ قلعہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ مسلمانوں کی شکست کے بعد یہ محل بادشاہ فرڈننڈ اور ملکہ ازابیلا کی رہائش گاہ رہی۔ مسلم اسپین کی آخری سلطنت غرناطہ کو انہوں نے 1496عیسوی میں شکست دی تھی، جس کے بعد سپین میں مسلمانوں کا دور حکومت، جس کا آغاز 756 عیسوی مں قرطبہ میں عبدالرحمن اول کی حکومت سے ہوا تھا، ختم ہوئی۔ بادشاہ فرڈننڈا اور ملکہ ازابیلا نے مسلماںوں پر فتح سے جیتے مال و اسباب سے ہی کرسٹوفر کولمبس کی بحری مہموں کی سر پرستی کی تھی، جس کی وجہ سے امریکہ دریافت ہوا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ مسلم ملاح بھی اس مہم کا حصہ تھے۔

اتوار کا دن قرطبہ کی سیر کے لئے اچھا نہں ہے، کیو نکہ زیادہ تر تاریخی عمارتیں یا تو بند تھیں یا جلد بند ہوجاتی ہیں۔ سو القصر کا محل بھی بند ہو چکا تھا۔ دوپہر چار بجے کا وقت تھا، ہمیں سخت بھوک لگ رہی تھی، مدینہ الازہرہ میں خوب چلے بھی تھے، اور گرمی کی بنا پر خوب پانی پیا تھا۔ اب یہ مسلہ درپیش تھا کہ تمام ہوٹل بھی بند مل رہے تھے، لگتا تھا کہ لوگ دوپہر میں قیلولہ کرتے ہیں۔ راستے مں ایک ترک کباب کی دکان نظر آئی مگر وہ بھی بند تھی۔ اوقات ساڑھے چھ بجے کھلنے کے لکھے تھے، سو ہم اپنی رہائش گاہ کو چل پڑے کہ کچھ دیر آرام کرکے دوبارہ آئیں گے۔ ویسے بھی وہ دکان ہماری رہائش سے کچھ زیادہ دور نہ تھی۔

دوبارہ ساڑھے چھ بجے پہنچے تو دکان پھر بھی بند تھی۔ پریشان تھے، پیٹ خالی ہو تو پریشانی بڑھ جاتی ہے۔ اتنے میں ایک لڑکے نے آکر دکان کھول دی اور کُرسیاں لگانی شروع کر دیں۔ہم پہلے گاہگ تھے۔ دکان مں داخل ہوئے تو سامنے دیوار پر لگی بڑی سی تصویر دیکھ کر حیران رہ گئے۔

قرطبہ کے اْس ریسٹورنٹ میں ہمارے سامنے فیصل مسجد، شکرپڑیاں، شاہی قلعہ لاہور، بادشاہی مسجد اور مینا رِ قراردادِ پاکستان کی تصویروں کا ایک امتزاج تھا۔ لڑکے سے پوچھا تو پتہ لگا کہ عارف نام ہے، پاکستانی ہے، سمبڑیال سیالکوٹ سے تعلق ہے۔ اس ریسٹورنٹ میں ملازمت کرتا ہے، جس کا مالک بھی پاکستانی ہے۔ تھوڑی دیر مں دکان کا مالک رانا کامران بھی آگیا ، ڈسکہ سے تعلق تھا۔

بھوک سخت لگی تھی، سو چاولوں میں چکن شوارمے والا کٹا ہوا گوشت، سلاد کے ساتھ ملا کر کھایا۔ پاکستان سے باہر رہنے والے کہیں بھی رہ رہے ہوں، پاکستان ان کے دل مں بستا ہے۔ قرطبہ شہر جہاں دنیا بھر سے لوگ آتے ہیں، اس کے ایک گوشے میں ایک چُپ چاپ سڑک کے کنارے ایک بے نام سے ریسٹورنٹ میں پاکستان بستا ہے۔ وہاں کھانا کھانے کے لئے بیٹھے لوگوں کو ان تصاویر کا کچھ علم بے شک نہ ہو، مالک نے یہ تصویریں کسی اور کے لئے نہیں لگائیں۔ یہ تصویریں اسی طرح ہیں جیسے لوگ اپنے دفتری ڈیسک پر اپنے بچوں کی تصویر رکھ لیتے ہیں۔

یہ بڑا پوسٹر رانا کامران اور عارف کو وطن کی یاد دلاتا ہے، حرارت دیتا ہے، پیچھے چھوڑ آئے رشتوں کی یاد دلاتا ہے، ملاقات شاید پھر ہو یا نہ ہو، یاد کا پودا مگر ہرا بھرا رہتا ہے۔ آنسو اس پودے کی آبیاری کرتے رہتے ہیں۔

کھانا کھا کر قرطبہ شہر کے پرانے علاقے کی طرف جانکلے۔ مسجد قرطبہ کے ساتھ ہی دریائے قوائد الکبیر پر پل ہے۔ اس پل کے ساتھ مسلمانوں کے دور کا ایک بڑا سا پہیہ دریا پر آج بھی موجود ہے، جس کے ذریعے باغوں کو پانی دیا جاتا تھا۔ اس پہیے سے اْس دور کی ٹیکنا لوجی کا اندازہ ہوتا ہے۔ پل پر خوانچے والے سیاحوں کو اپنا سامان بیچ رہے تھے۔ ایک جانب ایک خطاط بھی قلم اور تختی لے کر پل پر بیٹھا تھا۔ اس کا دعوی تھا کہ وہ اندلسی رسم الخط میں عربی نام لکھتا ہے، سو اس سے نام لکھوایا کہ یادگار رہے۔

قرطبہ شہر میںیہودیوں کے علاقے مں گئے جسے آج ’جویش کواٹر‘ کہا جاتا ہے۔ مسلم اندلس میںیہودی بہت تعداد میں رہتے تھے۔ انہیں اپنے مذہب پر عمل کرنے کی پوری آزادی تھی۔ یہودی سکالرز بہت اعلی عہدوں پر فائز تھے۔ کہا جاتا ہے کہ مسلم اندلس میں اس زمانے میںیہودیوں کی تعداد دنیا کے کسی بھی علاقے سے زیادہ تھی۔ بہت دیر تک پرانے شہر میں گھومتے رہے، تھک کر چور ہوگئے۔ انگریزی بہت کم بولی جاتی ہے۔ کسی جگہ کے مطلق پوچھنا پڑتا تھا تو بہت کم صحیح جواب مل پایا۔ ہم پاکستانی جو انگریزی کو ترقی کی زبان سمجھتے ہیں، ان کو یہ بہت عجیب لگتا ہے۔ راہ میں رومن ٹمپل کے کھنڈرات دیکھے۔ گمان ہے کہ 40 یا 50 عیسو ی میں بنایا گیا تھا۔ اس کی دریافت 1950 میں ٹاون ہال کی توسیع کے دوران ہوئی تھی۔

پرانا شہر تنگ گلیوں پر مشتمل ہے جن کا فرش پتھروں کا بنا ہے، گھروں کے باہر بالکنیاں ہیں۔ پھولوں کے موسم میںیہ گلیاں پھولوں سے سجائی جاتی ہیں۔ ایک گلی کے نام کا بورڈ دیکھا تو پتہ چلا کہ یہ ’یوسف گلی‘ ہے۔ لوگ چلے گئے مگر اپنی نشانیاں چھوڑ گئے، کہیں عمارتوں کی شکل میں، کہیںحوض اور شاہی حمام کی شکل میں، کچھ مٹ گیا اور کچھ باقی رہ گیا۔

رات گئے واپس اپنے ٹھکانے پر پہنچے، راستے میں رانا کامران کی دکان پر رُکے۔ اْس نے بتایا کہ اس علاقے میں چوری چکاری کافی ہے سو اب مت پھریں۔ رات ایک بجے کا وقت ہوگا اور ہم اپنے کمرے کی جانب چل پڑے۔ گلیاں اور مکانات یہاں تنگ ہیں۔ گھر چھوٹے ہیں اور گرمی کی بنا پر لوگ اپنے گھروں سے باہر کُرسیاں ڈال کر بیٹتھے۔ گلیوں میں گاڑیوں کے کھڑے ہونے کے باعث ہم مشکل سے اپنی گاڑی اپنی رہائش تک لے کر جا سکے۔

سونے کے لئے لیٹے تھے کہ باہر سے ایک آواز آئی۔ کھڑکی کے پردے سے جھانکا تو ایک نوجوان لڑکی ہماری گاڑی کے اندر جھانک رہی تھی۔ ہم پہلے ہی تمام اشا ء گاڑی سے نکال لائے تھے۔ یہ معاملہ رات دو تین دفعہ دہریا گیا، تشویش ہوئی کہ چوری کے لئے تو کوئی سامان گاڑی میں نہیں مگر کہیں کار کو کوئی نقصان نہ پہنچا جائے۔

قرطبہ میں رات سوتے سوتے دیر ہوگئی تھی۔ اس پر رات گلی مں کھڑی ہماری گاڑی کی تلاشی کوئی لڑکی لیتی رہی تھی، سو رات سوتے جاگتے گذری تھی۔ صبح اٹھ کر ناشتہ بنانے کے لے چیزیں خریدنے کے لئے نکل پڑے۔ قرطبہ میں جو اپارٹمنٹ ہم نے لیا تھا اس میں کچن بھی تھا سو بھاری ناشتہ کرنے کا پروگرام تھا کہ آگے دو سو کلومیٹر کے لگ بھگ کا سفر غرناطہ کا تھا۔

کل قرطبہ مں پھرتے لڈل کا سپر سٹور نظر آیا تھا۔ یہ جرمنی کا سستا سٹور ہمارے اس سفر کے ساتھی کو پسند تھا، سو اس کی خواہش پر ہم دونوں اسے ڈھونڈنے نکلے۔ مگر نئے شہر میں مسافروں کو راستوں کی خبر نہیں ہوتی سو کافی ڈھونڈنے کے بعد بھی نہ ملا۔ ایک مقامی سپر سٹور نظر آیا، وہاں پارکنگ کی جگہ بہت کم تھی۔ ایک کونے میں گاڑی کو ٹکایا اور جلدی جلدی خریداری کی۔ ہمیں خدشہ تھا کہ کہیں پارکنگ کے جرمانے کا شکار نہ ہوجائیں۔

جلدی سے انڈے، ڈبل روٹی، جوس، بسکٹ خریدے اور واپس ہوئے۔ واپس اپارٹمنٹ میں پہنچ کر تگڑا ناشتہ کیا اور دوپہر کے قریب غرناطہ کے لے نکل پڑے۔ قرطبہ سے غرناطہ کی سڑک پہاڑی راستوں کی طرح اوپر نیچے ہوتی ہے، سورج مکھی کے کھیتوں اور زیتون کے باغات کی بہتات ہے۔ راستے میں ایک جگہ پیٹرول ڈلوانے کے لیے رکے اور ساتھ واقع ریسٹورنٹ سے کافی پی۔

تین بجے کے قریب غرناطہ پہنچے، ایر بی این بی سے جو کمرہ بک کروایا وہ اندرون شہر کے علاقے میں تھا، سڑکیں تنگ تھیں اور جب جی-پی-ایس پر راستہ لگا کر پہنچے تو سڑک مرمت کے باعث راستہ بند تھا۔ کمرے کے مالک کو فون کیا تو اس نے وہیں رکنے کا کہا، اور کہا کہ وہ خود آتا ہے۔ تھوڑی دیر میں وہ پہنچ گیا۔ منویئل نام کا نوجوان تھا، ملنسار، خوش مزاج، خوش گفتار۔ یہ نام اسپین، میں کافی عام ہے، جو بازینطینی دور سے آیا ہے اور اس کا معنی ہے ’خدا ہمارے ساتھ ہے‘۔

گپ لگی تو پتہ چلا کہ وہ پیشے کے اعتبار سے سول انجنئر۔ ہے، مگر نوکریاں نہ ہونے کی بنا پر ٹورازم کی جانب آگیا۔ اندرون شہر میں اس نے ایک اپارٹمنٹ لیا جو اب کرائے پر ٹورسٹ کو دیتا ہے، جبکہ ایک اور اپارٹمنٹ لینے کی کوشش کر رہا تھا۔ مینوئل ہماری گاڑی مں بیٹھ گیا اور تنگ راستوں سے ہوتا ہوا اپارٹمنٹ تک لے آیا۔ ہمیں لاہور کی گنجان آبادیاں یاد آگئیں۔

گاڑی کھڑی کرنے کی کوئی جگہ گلی مںس نہ تھی، اور اپارٹمنٹ والی بلڈنگ میں بھی کوئی پارکنگ کی جگہ نہ تھی، سو مینوئل نے قریب کی ایک اور عمارت کی بیسمنٹ میں ایک کار پارک کرنے کی جگہ کرائے پر لی تھی۔ کئی رہائشی اپارٹمنٹ اس گیراج کے اوپر تھے۔ مینو ئل نے ہماری اْس جگہ تک رہنمائی کی۔ تنگ گلی سے مڑ کر اس بیسمنٹ میں گاڑی اتارنا بھی ایک مشکل کام تھا۔ گاڑی کو ریورس میں لگانا ہوتا تھا کہ دوسری طرح تنگ گلی میں نکالنا ممکن نہ تھا۔ اگلے دن اندازہ ہوا کہ اس گیراج کے تالے کو کھولنا بھی کافی محنت طلب کام ہے۔

گیراج کا دروازہ مشکل سے کھلتا تھا اور پھر ساتھ ہی ڈھلوان تھی جو کافی نیچے تک جاتی تھی۔ گیراج کا دروازہ کھولو، ایک بندہ دروازہ پکڑ کر رکھے، دوسرا ریورس میں گاڑی نیچے لے کر جائے، دائیں دیکھے، بائیں دیکھے، دروازہ پکڑے ہوئے ساتھی کی آواز سنے، غرض اکیلے آدمی کا کام نہ تھا۔ سو ہم نے غرناطہ میں اپنے قیام کے دوران گاڑی صرف شدید ضرورت ہی پر نکالی۔ بمشکل کار کھڑی کرنے کے بعد مینوئل ہمیں اپارٹمنٹ کی طرف لے چلا۔ عمارت میں داخل ہوئے تو سامنے چھوٹا سا صحن تھا جس کے ایک کونے سے سیڑھیاِں اوپر جا رہی تھیں۔ صحن کے چاروں جانب خوبصورت رنگ کی منقش ٹائلز بارڈر سمیت چار چار فٹ تک تھیں جن کے ساتھ اپارٹمنٹس کی سلاخ دار کھڑکیاں تھیں جن سے گملوں میں لگی سبز بیلیں نکلتی تھیں۔غرض ایک خوبصورت منظر تھا۔

ہمارا اپارٹمنٹ دوسری منزل پر تھا۔ اپارٹمنٹ کے دروازے پر پہنچے تو پتہ چلا کہ اس کا تالا بھی آسانی سے نہیں کھلتا۔ اس تالے کو کھولنے میں کہیں طاقت اور کہیں نرمی کی ضرورت پڑتی تھی۔ منجمنٹت اور بچوں کی پرورش پر لکھی کتابیں اسی سوال کا جواب کے لارے پر بکتی ہیں۔ ہم نے تو پایا کہ آخر میں یہی لکھا ہوتا ہے کہ موقع کے لحاظ سے پیار نرمی یا غصہ کا چناو آپ کسی کتاب سے نہیں بلکہ تجربے سے ہی سیکھ سکتے ہیں۔ اب ہم چلتے ہیں اپارٹمنٹ کی تفصیلات کی جانب، ایک ڈبل بیڈ کا کمرہ ہے جبکہ دوسرا صوفہ کم بیڈ کچن اور اوپن لاونچ میں ہے، انٹرنیٹ موجود نہیں، ایرکنڈیشنڈ بھی نہیں ہے۔ کچن میں برتن پورے ہیں، فریج بھی اچھا ہے۔ مینوئل نے جوس اور چپس کے پیکٹ رکھے ہوئے تھے۔ کپڑے دھونے کی مشین اور واشنگ پاوڈر بھی موجود ہے۔

مینوئل نے غرناطہ شہر کا ایک بڑا نقشہ ہمارے لئے رکھا تھا، اس پر تمام قابل دید مقامات پر اْس نے نشان لگائے اور ہمیں ان کے بارے میں بتانے لگا۔

ہم منہ ہاتھ دھو کر شہر کی سیر کو نکل پڑے۔ غرناطہ کا شہر پہاڑی پر ہے سو چلنا خوب پڑا، اچھی ورزش رہی۔ گھر سے نکلے ہی تھے کہ قریب ہی ایک پرانی خانقاہ تھی جسے انگریزی مں مونسٹری کہا جاتا ہے۔ قدیم زمانے میں علم مذہبی درسگاہوں سے نکلتا تھا۔ پاکستان میں ٹیکسلا اور دوسرے علاقوں میں بدھ مت کی خانقاہوں کے نشانات اب بھی ملتے ہیں جہاں طالبعلم علم حاصل کرنے کے لئے رہائش پذیر ہوتے تھے۔

غرناطہ کی اس مونسٹری کا نام سنٹد جراوم کی خانقاہ ہے۔ اس کا طرز تعمیر بھی اندلسی طرز تعمیر سے متاثر ہے۔ مسلم اسپین کے سفر سے اندازہ ہوا کہ مسلم شکست کے بعد اسپین کے کیتھولک حکمرانوں نے دانستاً کوشش کی ہے کہ وہ بھی عظیم الشان عمارتیں بنائیں۔

اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں مثلاً اپنی شان و شوکت کا مظاہرہ، دستکاروں اور ہنرمندوں کی موجودگی کا فائدہ اٹھانا، فتح سے حاصل کی جانے والی دولت کا استعمال، مسلم ہنرمندوں کا استحصال وغیرہ وغیرہ۔ کئی عمارتیں مسمار کرکے ان کی جگہ نئی عمارتیں بنائی گئی ہیں خصوصاً مساجد کو گرا کر یا انکی تعمیر میں تبدیلی لا کر چرچ بنائے گئے ہیں۔ خانقاہ کے ساتھ ہی ایک ہسپتال ہے، اس کا نام ’ہوسپٹل ڈی سان جوان ہے‘۔ یہ ہسپتال سولہویں صدی میں بنا تھا اور آج بھی مریضوں کی خدمت کر رہا ہے۔ اس ہسپتال کی بنیاد غرناطہ کے ایک کتب فروش نے لوگوں کی مدد سے رکھی تھی۔ بہادر شاہ ظفر نے کہا تھا:

وہ جو بیچتے تھے دوائے دل

وہ دکان اپنی بڑھا گئے

غرناطہ میں کتابیں بیچنے والا بے شک اپنی دکان بند کر گیا مگر اس کا بنایا ہسپتال صدیوں بعد بھی دوائے دل دے رہا ہے اور آج بھی یہ ہسپتال اْسی کتب فروش کے نام پر ہے۔ اس ہسپتال کا طرز تعمیر بھی اندلسی مسلم تعمیرات سے متاثر ہے۔ درمیان میں کُھلا صحن ہے جس کے چاروں طرف محرابوں سے مزین برآمدے ہیں۔ صحن کے درمیان فوارہ ہے۔ ہسپتال جانے سے آدمی کو ڈر لگتا ہے مگر اس ہسپتال کا اپنا ایک حسن ہے۔ اس کو دیکھ کر خوشی ہوتی ہے، بلاشبہ یہ ایک دیکھنے کے قابل جگہ ہے۔                    (جاری ہے)



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں