[ad_1]
مردان خیبر پختون خوا کا مشہور اور زرعی لحاظ سے پاکستان کے زرخیز ترین اضلاع میں شمار ہوتا ہے۔ زمانہ قدیم سے یہ ضلع ایک زرعی علاقہ رہا ہے جو گندم ، مکئی، گنا، تمباکو اورپھلوں کے لیے بہت مشہور ہے، یہاں تقریباً ہر فصل کی فی ایکڑ پیداوار بہت بہتر ہے۔ دیگر اضلاع کے مقابلے میں یہ ضلع ایک مضبوط صنعتی حیثیت بھی رکھتا ہے، جغرافیائی محلِ وقوع کے اعتبار سے مردان کو دوسرے علاقوں پر قدرتی طور پر فوقیت حاصل ہے۔ تحصیل صوابی الگ ضلع بن جانے کے بعد اب تین تحصیلوں مردان، تخت بھائی اور رستم پرمشتمل ضلع ہے۔
صوبے کے دیگر اضلاع کی طرح مردان بھی مہمان نوازی کے لیے اپنی مثال آپ ہے۔ مردان شہر پشاور سے 60 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ 1988ء میں مردان کو خیبر پختون خوا میں ڈویژن کا درجہ دیا گیا۔ آزادی سے قبل انگریز دور حکومت میں مردان ضلع پشاور کی ایک تحصیل ہوا کرتا تھا جسے انگریز سرکار ہی نے 1937ء میں الگ ضلع کا درجہ دیا۔ آزادی کے بعد پاکستان کے سابق صدر مملکت سکندر مرزا ضلع مردان میں پہلے ڈپٹی کمشنر مقرر ہوئے، مردان کے تاریخی مقامات میں شہباز گڑھی، جمال گڑھی اور تخت بھائی ایک دوسرے سے تقریباً نو میل کے فاصلے پر واقع ہیں۔ ان مقامات میں دریافت ہونے والے آثار قدیمہ مردان کی تاریخی عظمت کا تعین کرتے ہیں۔
مردان کا علاقہ بیرونی حملہ آوروں کے ہاتھوں کئی مرتبہ شکست و ریخت کے بدترین دور سے گزرا اور عظیم مسلمان سپہ سالار و سلاطین محمود غزنوی سے لے کر احمد شاہ ابدالی تک ہندوستان پر لشکر کشی کے دوران ان علاقوں سے نہ صرف گزرے بلکہ پڑاؤ بھی کیا۔ مردان چھاؤنی کی تاریخ خاصی طویل ہے، 1850ء میں سب سے پہلے یہاں گائیڈوں نے ڈیرہ جمایا اور بعد ازاں یہ فوجی دستے بغداد اور گوجر گڑھی تک پھیل گئے۔ دسمبر 1853ء میں مردان قلعے کی تعمیر شروع ہوئی جس میں بارہ سو مقامی مزدوروں نے حصہ لیا۔ مردان میں جگہ جگہ تاریخی آثار پائے جاتے ہیں۔ ہوتی مردان سے نو میل دور، مردان مالا کنڈ روڈ پر ایک پہاڑی پر جو سطح سمندر سے کوئی دو ہزار فٹ بلند ہے قدیم زمانہ کے کھنڈرات پائے جاتے ہیں۔ پہاڑ کی عین چوٹی پر بدھ مت کی ایک عبادت گاہ اور درس گاہ کے آثار پائے جاتے ہیں۔
مردان سے آٹھ میل دور مشرق کو صوابی جانے والی شاہراہ پر شہباز گڑھ کا تاریخی قصبہ واقع ہے۔ شہنشاہ بابر نے تزک بابری میں اس کا ذکر کیا ہے کہ قصبے نے موجودہ نام شہباز قلندر نامی ایک بزرگ سے پایا ہے جو بابر کی آمد سے 30 برس پیشتر فوت ہو چکے تھے۔
مردان صوابی روڈ پر شہباز گڑھی سے کوئی بارہ میل شمال مشرق کو اسوڑ قصبہ ہے۔ یہاں سے ایک ذیلی سڑک شیوہ اڈہ کو بھی نکلتی ہے، اس جگہ پتھروں کی بنی ہوئی ایک قدیم عمارت کے آثار دریافت ہوئے ہیں۔ ماہرین آثار قدیمہ کہتے ہیں کہ پتھر کی یہ عمارت ایک قدیم عبادت گاہ ہوا کرتی تھی جہاں سورج دیوتا کی پرستش کی جاتی تھی۔ تخت بھائی کے قدیم قصبے سے دو ڈھائی میل جنوب مغرب کو سری (سیری) بہلول کا گاؤں ایک اونچے ٹیلے پر واقع ہے، سیری بہلول خیبر پختون خوا میں گندھارا آرٹ کا بہت بڑا خزینہ ہے۔ سری بہلول، سحرِ بہلول یا سحری بہلول، سیری بہلول ایک تاریخی مقام ہے اور اسے 1980ء سے یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔
سیری بہلول کے کھنڈر ایک چھوٹے سے قدیم قلعہ بند قصبے کی باقیات ہیں جو کشان دور میں تعمیر کیے گئے تھے۔ اس میں بدھا کی باقیات ہیں جن میں قدیم چیزیں جیسے مجسمے، سکے، برتن اور زیورات پائے جاتے ہیں۔ لفظ ’’سیری بہلول‘‘ کی وضاحت مختلف لوگوں نے مختلف طریقوں سے کی ہے تاہم مقامی لوگ بتاتے ہیں کہ یہ ہندی کے دو الفاظ ’’سیری‘‘ کا مجموعہ ہے جس کا مطلب ہے سر اور ’’بہلول‘‘ علاقے کے ایک ممتاز سیاسی اور مذہبی رہنما کا نام تھا۔ یہ گاؤں ایک پہاڑی پر واقع ہے جو پتھر کی دیوار سے محفوظ ہے اور کوشانوں کے دور میں تعمیر کی گئی تھی، دیوار کو کئی جگہ سے نقصان پہنچا ہے لیکن کئی جگہوں پر یہ اب بھی نظر آرہی ہے۔
مردان سے ہی اکیس میل دور مشرق میں سنگھاؤکے مقام سے ملنے والے پتھر کے اوزار آج سے چالیس ہزار برس پہلے کی انسانی آبادی کا پتہ دیتے ہیں۔ مردان کو تاریخی اور تجارتی لحاظ سے خیبر پختو ن خوا کے اہم شہر کی حیثیت حاصل ہے، یہ شہر اپنے دامن میں اتنی داستانیں پنہاں کیے ہوئے ہے جتنی کسی قدیم شہر کی ہو سکتی ہیں لیکن کسی نے ان تاریخی مقامات اور یاد گاروں کے پیچھے چھپی ہوئی داستانیں پڑھنے کی کوشش نہیں کی۔
اس خطے میں بدھ مت کے کھنڈرات، محمود غزنوی، نادر شاہ، احمد شاہ ابدالی، مغلوں، درانیوں، سکھوں اور انگریزوں کی فتوحات اس بات کی آئینہ دار ہیں کہ یہ علاقہ ماضی میں مختلف تہذیبوں کا مسکن رہا ہے۔ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ 326 ء قبل از مسیح میں یونانی شہنشاہ سکندراعظم نے سوات اور بونیر کے راستے سے ہوتا ہوا مردان کے علاقے میں اٹک سے 20 میل شمال مشرق میں ہنڈ نام کا ایک شہر بسایا، جو برسوں وادی گندھارا کا دارالحکومت رہا۔ مردان کینٹ کے علاقے میں برطانوی دور حکومت کی قائم کردہ ایک یادگار عمارت موجود ہے جسے 1892ء میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والوں کی یاد میں تعمیر کیا گیا۔ انگریز اقتدار کی حفاظت کرتے ہوئے ’کوئین اون کیولری‘ کے سپاہیوں میں سکھوں او ہندوؤں کے علاوہ مسلمان سپاہی بھی شامل تھے۔
اس یادگار عمارت کے دائیں جانب پہلی منزل پر چند سیڑھیاں چڑھنے کے بعد ایک چوبی تختہ دیوار کے ساتھ سیڑھیوں میں نصب کیا گیا ہے، عام طور پر لوگ اس تختے کے بارے میں نہیں جانتے حالانکہ یہ تختہ ہماری تاریخ کا روشن باب ہے۔
اس تختے کے پیچھے خیبر پختو ن خوا کے نپولین عمراخان کا چہرہ چھپا ہوا ہے جس نے ماضی میں انگریزوں کے خلاف آزادی کی جنگ لڑی۔ یہ مضبوط چوبی تختہ جس کی موٹائی چار انچ ہے، منڈا قلعہ، دیر کے اس دروازے کا حصہ ہے جسے سر کرنے کی مہم میں انگریزوں کو قدم قدم پر خیبر پختو ن خوا کے مجاہدوں کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ عمرا خان، منڈا قلعہ کا سردار تھا اس کی بے مثال بہادری اور شجاعت کی داستانیں آج بھی یہاں کے بزرگ باسیوں کی زبان پر ہیں۔ انگریز قلعے کے دروازے کا ایک حصہ فتح کی نشانی کے طور پر اکھاڑ کر مردان لے آئے، مالا کنڈ کی جنگ میں عمرا خان کے خلاف استعمال کی جانے والی توپیں بھی مردان میں تعمیر کی جانے والی یادگار کے طور پر رکھ دی گئی ہیں اور آج بھی یہ توپیں عمراخان کی توپوں کے نام سے مشہور ہیں۔
مردان کا وجہ تسمیہ صوفی بزرگ پیر مردان شاہ کے نام سے ہے جو اسلام کی تبلیغ کی غرض سے یہاں آئے تھے، ضلع مردان میں بدھ مت کے بڑے آثار قدیمہ تخت بھائی اور جمال گڑھی میں ہیں جسے دیکھنے کے لیے نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ملک سے بھی لوگ یہاں آتے ہیں، مردان کے مشہور شہروں میں کاٹلنگ، طورو، شیخ ملتون ٹاؤن اور تخت بھائی ہے، اس میں رہنے والے زیادہ تر لوگ مہمند اور یوسف زئی اقوام سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک وقت تھا جب پریمیئر شوگر مل ایشیا کی سب سے بڑی مل ہوا کرتی تھی لیکن اب یہ اعزاز چین میں قائم ایک نجی مل کے پاس ہے۔ مل اب سردیوں کے موسم میں فعال رہتی ہے لیکن جب یہ مل مکمل طور پر فعال تھی تو یہاں پندرہ ہزار سے زائد ملازمین کام سرانجام دیتے تھے اور یہ مردان شہر میں ملازمت فراہم کرنے والی بڑی فرموں میں سے ایک تھی۔
مردان کی اہم اورمعروف شخصیات میں بیگم نسیم ولی (قوم پرست سیاست دان المعروف آرئن لیڈی) سلیم ناصر ( معروف اداکار)، طارق شاہ (اردو، پشتواور پنجابی فلموں کے معروف اداکار) یونس خان (کرکٹر) عبدالقادر (لیگ سپنر) رحیم اللہ یوسف زئی (عالمی شہرت یافتہ صحافی ) میرافضل خان (سابق وزیراعلٰی) سلیم صافی (صحافی) امیر حیدرخان ہوتی (سابق وزیراعلیٰ)، خواجہ محمد خان، محمد عاطف خان (سابق صوبائی وزیر)، طفیل انجم، دلاورخان ، خان زادہ خان ، ذیشان خان زادہ، فضل حق (سابق گورنر ) احمد خان بہادر، اعظم خان ہوتی (سابق وفاقی وزیر) امانت شاہ حقانی، جمشید خان مہمند، تانیہ گل، جمیلہ گیلانی، روئیدادخان (سفارت کار و بیورکریٹ)، سردارعلی ٹکر (معروف پشتو گلوکار)، سلمہ شاہین، عبدالرحمان، علی محمد خان (سابق وفاقی وزیر) علی محمد مہر، عمران خان مہمند، فیصل سلیم خان (صنعت کار و سیاست دان)، مجاہد علی، محمد جواد اللہ ، محمد یوسف ، موہن سنگھ ، مہرتاج روغانی ، مولاناگوہرعلی شاہ ، ہمایوں خان (سفارت کار) نورالبشر نوید (معروف ادیب وڈرامہ نگار) سیدہ صوفیہ احمد (معروف شاعرہ)، گلریزتبسم (پشتو کے معروف گلو کار)، سرانجام خان، عباس سرفراز(سیاست دان ومعروف صنعت کار) ،گوہر رحمان گہر (انشاء پرداز، غزل گو شاعر، ادیب، مضمون نگار، نقاد، کالم نگار ، مزاح نگار اور مصنف) حمایت اللہ مایار (موجودہ مئیر) عرفان خان (گلو کار) شامل ہیں۔
ویسے تو مردان کئی حوالوں سے مشہور ہے لیکن یہاں کے پیڑے کافی شہرت رکھتے ہیں۔ کہاجاتاہے کہ بدایون کے چند تاجروں نے یہاں پر بھی پیڑے بنانے کام شروع کیا تھا جس کے بعد یہاں کے مقامی لوگوں نے ان سے پیڑے بنانے کا ہنر سیکھ لیا، جس کے بعد مردان کے پیڑے اتنے مشہور ہوئے کہ بیرونی ممالک میں بھی اس کی مانگ بڑھتی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ شنکر کے کبابوں کی دھوم بھی بیرون ملک تک جا پہنچی ہے، جو بھی مردان جاتا ہے وہ ضرور ان دونوں چیزوں پیڑوں اور شنکر کے کبابوں کا مزہ ضرور چکھتا ہے۔
اسی طرح مردان تعلیمی اداروں کے حوالے سے بھی مشہور ہے، مردان کو لڑکیوں کے اولین کیڈٹ کالج کا بھی اعزازحاصل ہے جو پچھلے دورحکومت میں مردان سے ہی تعلق رکھنے والے سابق صوبائی وزیر عاطف خان کی کوشش سے وجود میں آیا۔ یہاں خان عبدالولی خان کے نام سے عبدالولی خان یونی ورسٹی اے این پی کے دورحکومت میں قائم ہوچکی ہے، اسی طرح معروف تعلیمی درسگاہ فضل حق کالج بھی یہاں قائم ہے ،جو یہاں کے طالب علموں کی علمی و ذہنی آبیاری کافریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔
پشتو کی معروف گلوکارہ باچہ زرین جان مردان کے ایک گاؤں کلپانے پار ہوتی میں 1942ء میں پیدا ہوئیں۔ باچہ زرین جان نے موسیقی کی تعلیم اپنی بڑی بہن دلبر جان اور استاد پزیر خان جو منیر سرحدی کے والد تھے، سے حاصل کی۔ غلام فرید نے اردو میں ان کی تربیت کی۔ انہوں نے پہلی مرتبہ سات برس کی عمر میں 1949ء میں ریڈیو پاکستان پر گایا اور پھر پشتو موسیقی پر ایسی چھائیں کہ پیچھے مڑ کر نہ دیکھا۔ انہوں نے ہندکو، پنجابی اور سرائیکی میں بھی گیت گائے۔ باچہ زرین جان، جنہیں پیار سے بی بی گل بھی کہا جاتا تھا، نے ریڈیو، ٹی وی اور سٹیج کے لیے ہزاروں گیت گائے، 1965ء اور 1971ء کی بھارت کے ساتھ جنگوں میں انہوں نے کئی قومی گیت بھی گائے۔ انہوں نے کئی ڈراموں میں بھی کام کیا، باچہ زرین جان کو سال دو ہزار میں پشتو موسیقی کے لیے ان کی خدمات کے اعتراف میں تمغہ امتیاز سے نوازا گیا۔ انہوں نے26 ستمبر 2022ء کو وفات پائی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معروف اداکار اورصداکار سلیم ناصر 15 نومبر 1944ء کو مردان کے ایک پشتون سید گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سید شیر خان تھا،گریجویشن کے بعد وہ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کراچی میں بحیثیت افسر شعبہ تعلقات عامہ تعینات ہوئے لیکن اداکاری کے شعبے کی طرف مائل ہو گئے۔ سلیم ناصر نے اپنی فنی زندگی کا آغاز پاکستان ٹیلی وژن کے لاہور مرکز کے ایک ڈرامے ’لیمپ پوسٹ‘ سے کیا، اس کے بعد انہوں نے تقریباً 400 انفرادی ڈراموں اور 27 سیریلز میں کام کیا، ان کے مشہور ٹی وی سیریلز میں سفید سایہ، جھوک سیال، پل، زنجیریں، جزیرہ، دستک، بندش، آخری چٹان، اَن کہی، آنگن ٹیڑھا اور جانگلوس کے نام سرفہرست ہیں۔ سلیم ناصر نے دس فلموں میں بھی اداکاری کے جوہر دکھائے جن میں ایک پنجابی فلم بھی شامل تھی۔ سلیم ناصر 19 اکتوبر 1989ء کو حرکت قلب بند ہونے کے سبب انتقال کر گئے۔
[ad_2]
Source link