[ad_1]
وزیر اعظم شہباز شریف نے قوم سے خطاب کیا ہے۔ چند دن پہلے وفاقی بجٹ پیش کیا گیا ہے،اس حوالے سے کافی بات ہو رہی ہے۔ ایکس وال پر سوال کیا جارہاہے کہ اس خطاب کا مقصد کیا تھا؟ میری رائے میں اس کا مقصد قوم میں امید پیدا کرنا اور یہ بتانا تھاکہ ہم کیا کر سکتے ہیں۔
ہم ان حالات کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ اور صلاحیت رکھتے ہیں۔ مجھے وزیراعظم صاحب کی ایک شعوری کوشش لگی ہے کہ اس ماحول میں جب ہر کوئی ناامیدی اور مایوسی پھیلا رہا ہے،قوم کو حقائق سے آگاہ کرنا اور انھیں امید دلانا ضروری ہے، بطور وزیر اعظم یہ ان کاکام ہے۔ مخالفین اگر نا امیدی پھیلا رہے ہوں تو اس کو ختم بھی کرنا لازم ہے۔
ویسے تو شہباز شریف سے ان کے قریبی دوستوں اور سیاسی دوستوں کو یہ گلہ ہی رہتا ہے کہ وہ میڈیا سے دور رہتے ہیں، وہ بہت کم میڈیا پر آتے ہیں، بہت کم انٹرویوز دیتے ہیں۔ قوم سے خطاب بھی کم کرتے ہیں۔ تحریک انصاف کے بانی کی صبح کا آغاز ہی میڈیا ٹیم کے ساتھ میٹنگ سے ہوتا تھا، جس کا یک نکاتی ایجنڈا یہی طے کرنا ہوتا تھا کہ آج وزیر اعظم عمران خان صاحب کی میڈیا کوریج کیا ہوگی اور گزرے کل کی میڈیا کوریج کیسی رہی۔ پی ٹی آئی کے کس لیڈر نے نواز شریف، شہباز شریف اور مریم نواز میں سے کس کو شاندار گالی نکالی۔ بہترین گالی پر شاباش دی جاتی تھی اور کمزور گالی پر سرزنش کی جاتی تھی۔
اسی لیے ساری کابینہ نمبر ٹانگنے کے لیے ہمہ وقت میڈیا پر ہی نظر آتی تھی۔عوامی اور ریاستی کام کرنے کے کوئی نمبر نہیں تھے، سارے نمبر میڈیا کے ہی تھے۔ اس کے مقابلے میں شہباز شریف کی سب سے کم توجہ میڈیا کوریج پر ہے۔ میڈیا میں ان کے دوستوں کو یہ گلہ رہتا ہے کہ آپ اپنے اچھے کاموں کی بھرپور میڈیا کوریج پر بھی توجہ دیںکیونکہ اکثر انھیں پتہ بھی نہیں ہوتا کہ کن کن منصوبوں پر کام شروع ہو چکا ہے۔ اس پہلو کو سامنے رکھا جائے تو شہباز شریف کا قوم سے خطاب کوئی روزانہ کی کارروائی نہیں ہے۔
شہباز شریف کی رائے میں آپ کو خود نہیں بولنا چاہیے بلکہ آپ کے کاموں کو بولنا چاہیے۔ جب وہ وزیراعلیٰ پنجاب تھے ، تب بھی ان کی میڈیا کوریج محدود ہوتی تھی لیکن ان کے کام آج بھی بول رہے ہیں۔ ان کے بعد بھی جو بھی وزیر اعلیٰ پنجاب بنتا ہے، شہباز شریف کی کارکردگی اس کے سامنے ایک چیلنج کے طور پر کھڑی نظر آتی ہے ۔ تحریک انصاف کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے لیے شہباز شریف کے کام ہی سب سے بڑا چیلنج تھے۔
حتیٰ کہ عوام میں جا کر بھی انھیں اپنا تعارف یہی کرانا پڑتا تھا کہ میں ’’پنجاب میں شہباز شریف لگ گیا ہوں‘‘۔ اس لیے جب شہبازشریف کو کہا جائے کہ آپ میڈیا پر توجہ دیں تو وہ مسکرا کر اکثر کہتے ہیں کیا کام پر توجہ نہ دوں ، میڈیا کو بھی میرے کام دیکھنے چاہیے۔ انھیں ان کے ہر سوال کا جواب مل جائے گا۔ اس لیے عمران خان اور شہباز شریف میں یہ فرق سامنے رکھنا ہوگا۔ ایک میڈیا کے سہارے اپنی لیڈرشپ اور وزارت عظمیٰ چلا رہا تھا جب کہ دوسرا کام کے سر پر چلانا چاہتا ہے۔
یہ درست ہے کہ دوستوں کو شہباز شریف کے خطاب کا وہ مزا نہیں آیا جس کے وہ عادی ہیں۔ نہ کوئی گالی نہ کسی پر الزام تراشی، صرف حوصلہ، امید اور حکومت کی کارکردگی پر بات، ان کے لیے شہباز شریف کی تقریر میں کوئی مصالحہ نہیں تھا۔ ان کے لیے یہ کوئی اہم بات نہیں کہ وزیر اعظم نے سرکاری بجٹ پر بوجھ کم کرنے کے لیے سرکاری محکمہ ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ان کے لیے اس خبر میں کوئی مصالحہ نہیں ہے۔
ان کے لیے یہ بھی کوئی خبر نہیں کہ وزیر اعظم نے کہا ہے کہ اگلے ڈیڑھ ماہ میں وہ معیشت کو بہتر بنانے کے لیے بڑے بڑے اقدامات کرنے جا رہے ہیں۔ ان سب خبروں میں وہ چاٹ مصالحہ نہیں ہے۔ پی ڈبلیو ڈی کا محکمہ پاکستان پر بوجھ تھا اور ختم کیا گیا ۔ دوستوں کی نظر میں یہ کیا کوئی خبر ہے۔ افسوس کہ ہمارا مائنڈ سیٹ ہی بدل گیا۔
بہر حال شہباز شریف نے اگلے پانچ سال کا معاشی پلان قوم کے سامنے رکھا ہے، اپنے سو دن کی کارکردگی عوام کے سامنے رکھی ہے۔ انھوں نے قوم کو بتایا ہے کہ ان کی حکومت نے سو دن میں کیا کیا ہے اور آگے پانچ سال میں کیا کرنا چاہتی ہے۔ ان کے پاس پاکستان کے معاشی بحران کا حل کیا ہے۔ اس حل کے نتیجے میں ہم قرضوں کی معیشت سے جان چھڑا لیں گے۔ انھوں نے قوم کو یقین دلایا ہے کہ ایسی معاشی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے کہ آئی ایم ایف سے لیا گیا حالیہ قرضہ پاکستان کی تاریخ کا آئی ایم ایف کا آخری قرضہ ہو۔
ویسے تو وفاقی حکومت کی سو دن کی کارکردگی نے صرف شہباز شریف کے سیاسی مخالفین کو ہی پریشان نہیں کر دیا ہے بلکہ ان کے سیاسی حلیف بھی پریشان ہیں۔ جب شہبازشریف نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا تھا تو ان کے سیاسی حلیف اور حریف دونوں ہی اس بات پر متفق تھے کہ حکومت ڈلیور نہیں کر سکے گی۔ اسی لیے پیپلزپارٹی نے بھی حکومت سے باہر بیٹھنے کا فیصلہ کیا۔ کیونکہ ان کا بھی خیال تھا کہ حکومت کو مشکل فیصلے کرنے پڑیں گے اور جو بھی حکومت یہ کام کرے گی، سیاسی طور پر ڈوب جائے گا۔لیکن شہباز شریف نے سو دن میں منظر نامہ ہی بدل دیا ہے۔
کس کو سو دن پہلے اندازہ تھا کہ یہ حکومت سو دن میں پٹرول سستا کر دے گی۔ مہنگائی کی شرح کم کر دے گی۔ کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سو دن میں سب ٹھیک ہو گیا ہے۔ لیکن یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ چیزیں ٹھیک ہونے کی طرف چل پڑی ہیں۔ جس کا کسی کو اندازہ نہیں تھا۔ دوست دشمن مہنگائی مزید بڑھنے کی امید لگا کر بیٹھے تھے۔ کس کو اندازہ تھا کہ پہلے سو دن میں سرمایہ کاری کے لیے اتنا کام ہو جائے گا۔ اس لیے سو دن میں شہباز شریف نے اپنے کام سے دوستوں اور دشمنوں دونوں کو حیران کر دیا ہے۔
اب سوال اگلے سو دن کا ہے۔ اگلے سو دن کے بارے میں شہباز شریف نے کہا ہے کہ بیرونی سرمایہ کاری کے جو وعدے کیے گئے ہیں وہ پورے ہوںگے۔ سعودی عرب کی سرمایہ کاری اور متحدہ عرب امارات کی سرمایہ کاری ممکن ہو جائے گی۔ اسی طرح چین کے ساتھ جو معاہدے ہوئے ہیں، وہ بھی ممکن ہو جائیں گے۔ شہباز شریف کے دوست اور دشمن اب پریشان ہیں کہ اگر یہ سب ممکن ہو جائے گا تو معاشی منظر نامہ بدل جائے گا۔
[ad_2]
Source link