[ad_1]
مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر میاں جاوید لطیف نے کہا ہے کہ ایک جماعت کا سربراہ جن کا ٹویٹر پاکستان اور اداروں کے خلاف باہر سے چلایا جا رہا ہے اور جھوٹ سے آئین و قانون کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں مگر وہ رہنما پھر بھی مقبول ہو لمحہ فکریہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ ملک کی سیاست جھوٹوں کے ذریعے اس مقام پر آگئی ہے کہ جھوٹ اور سچ کی تمیز ختم ہو گئی ہے۔ ملک کو اس وقت جس صورت حال کا سامنا ہے بانی پی ٹی آئی پر عائد ہوتی ہے جو ڈھٹائی سے جھوٹ بول رہے ہیں یہ خوشی نہیں بلکہ لمحہ فکریہ ہے۔
انھوں نے بانی پی ٹی آئی کو جیل میں ملنے والی سہولتوں کو فائیو اسٹار ہوٹلوں جیسی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اتنی سہولتوں کے باوجود جھوٹ بولا جا رہا ہے کہ میں ڈیتھ سیل میں ہوں جب کہ ان کے دور میں تو مجھے گرفتار کر کے جون جولائی کی شدید گرمی میں ایک ڈرم میں رکھا جاتا تھا۔
پیپلز پارٹی کے ایک مرکزی رہنما نے پنجاب حکومت سے بانی پی ٹی آئی کو جیل میں غیر قانونی سہولیات کی فراہمی کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ جیل میں وی آئی پی سہولیات انجوائے کرنے والے بانی پی ٹی آئی جھوٹے بیانات دے رہے ہیں کہ وہ ان سہولتوں سے محروم ہیں جو نواز شریف اور آصف زرداری کو حاصل تھیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ پی ٹی آئی حکومت میں آصف زرداری کو جیل میں سونے کے لیے چارپائی تک میسر نہیں تھی۔
ماضی میں سابق حکمران گرفتار ہوتے رہے اور انھیں جیلوں میں قانون کے مطابق سہولیات نہ دیے جانے کی شکایات کی جاتی تھیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں تو اپوزیشن رہنماؤں کے ساتھ جیلوں میں شرم ناک سلوک کیا گیا تھا مگر اس کے بعد جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں ان کے مخالفین گرفتار ہوئے مگر دونوں غیر سول صدور اور بعد میں آنے والے وزرائے اعظم نے کبھی نہیں کہا تھا کہ میں آئی جی پولیس کو اپنے ہاتھوں سے پھانسی دوں گا۔
بانی پی ٹی آئی ملک کے وہ واحد سیاستدان ہیں کہ جنھوں نے اقتدار میں نہ ہونے کے باوجود اعلیٰ پولیس افسروں پر تشدد کرایا انھیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں، تھانوں میں جا کر اپنے کارکن جبری طور پر چھڑوائے اور مخالف سیاستدان کے بارے میں کہا کہ اسے مونچھوں سے پکڑ کر جیل میں ڈالوں گا۔ انھوں نے وزیر اعظم بن کر رانا ثنا اللہ پر ایسا جھوٹا مقدمہ بنوایا جس کی سزا سزائے موت تھی۔
انھوں نے وہ ریکارڈ بھی قائم کیا جو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے شدید مخالف اور دونوں پارٹی رہنماؤں کی سیاست ختم کر دینے کے دعویدار جنرل پرویز مشرف بھی نہ کرسکے تھے اور دونوں سربراہوں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کو جلاوطن ہونے پر مجبور کر دیا تھا۔ بانی پی ٹی آئی فخریہ کہتے تھے کہ انھوں نے سابق حکمرانوں آصف زرداری، یوسف رضا گیلانی، میاں نواز شریف، شاہد خاقان عباسی، شہباز شریف کو جیلوں میں بند کرایا تھا۔
پی ٹی آئی حکومت میں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز اور آصف زرداری کی بہن فریال تالپور تک کو گرفتار کرا دیا تھا جب کہ بانی پی ٹی آئی کے ساتھ ایسا نہیں ہوا۔ پی ٹی آئی رہنما اور ان کے بانی کی اہلیہ بھی الزام لگا رہی ہیں کہ انھیں اور ان کے اسیر شوہر کو کھانے میں زہر دیا جا رہا ہے مگر وہ اپنے الزام کے ثبوت کے لیے اپنا خون ٹیسٹ نہیں کرا رہیں۔ یوں تو ماضی میں گرفتار سیاستدانوں نے طویل قیدیں بھگتیں اور بدسلوکی و دیگر الزامات بھی لگائے مگر نواز شریف اور آصف زرداری نے بھی قید کے دوران وہ دہائیاں نہیں دیں جو بانی پی ٹی آئی دے رہے ہیں۔
ابھی انھوں نے ڈیتھ سیل ہی نہیں دیکھے۔ انھوں نے مچھ جیل کا نام ہی سنا ہے ابھی انھیں مچھ سے دور اڈیالہ جیل میں وہ شاہانہ سہولیات میسر ہیں جو ماضی میں کسی صدر اور وزیر اعظم کو نہیں ملیں۔ حال ہی میں سپریم کورٹ میں بانی پی ٹی آئی کو حاصل سہولیات کی تصاویر اور تفصیلات جمع کرائی گئی ہیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ اکیلے کتنی سہولتیں حاصل کیے ہوئے ہیں جن پر موجودہ مہربان حکومت نے ورزش کے لیے دس لاکھ کی مشین اور واک کے لیے سات کمروں کو خالی رکھ کر محفوظ ورانڈہ مہیا کیا گیا ہے۔
اتنی سہولیات کی فراہمی کے باوجود بانی پی ٹی آئی آزادی سے قید میں ہوتے ہوئے مرضی کی سیاست کر رہے ہیں۔ ان کی خواہشات وکلا کے ذریعے باہر آ رہی ہیں بلکہ ان کی ہدایات کی وڈیوز بیرون ممالک سے بن کر سوشل میڈیا پر دکھائی جا رہی ہیں جس پر وہ اپنے سوشل میڈیا ہینڈلرز کی تعریفیں کر رہے ہیں اور خوش بھی ہیں۔بانی پی ٹی آئی نے ملکی سیاست میں جھوٹ بولنے کے متعدد ریکارڈ بھی بنائے ہیں۔ ان کے رہنما عدالتوں کی کھلے عام توہین کرکے بھی محفوظ ہیں اور بعض ججز سے انھیں من پسند فیصلے بھی ملے ہیں۔
سیاست جو کبھی جھوٹوں سے دور عوام کی خدمت کا ذریعہ اور عبادت سمجھی جاتی تھی اب اتنی بری اور جھوٹوں سے آلودہ کر دی گئی ہے کہ اب کوئی شریف انسان سیاست میں آنے کا نہیں سوچ رہا بلکہ دوری اختیار کر رہا ہے۔ پی ٹی آئی کی سیاست میں ڈھٹائی سے جھوٹ پہ جھوٹ بولنا، ملکی اداروں کو اپنی سیاست کے لیے بدنام کرنا ان کا اولین مشن بلکہ فرض بن چکا ہے جس سے ان کی سیاست مکمل طور پر اس لیے کامیاب ہے کہ ملک میں جھوٹ بولنے، اداروں کو بدنام کرنے کی مکمل آزادی ہے جس سے حکومتی جھوٹی سیاست کا کچھ نہیں بگاڑ سکی۔
[ad_2]
Source link